وفاقی کابینہ کے جنگل سے پہلے شیر (اسد) نکلا۔ اور پھر تو نکلنے والوں کی لائن لگ گئی۔ دعویٰ یہ کیا جارہا تھا کہ اسد عمر معیشت کی نیّا کو منجدھار سے نکالیں گے۔وزیر اعظم عمران خان نے اُن سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ معیشت کی نیّا تو اپنی جگہ‘ یعنی منجدھار ہی میں ہے۔ ہاں‘ اسد عمر البتہ کنارے لگ گئے یا لگادیئے گئے۔
وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کیا ہے۔ بہت بڑے پیمانے پر کیے جانے والے ''ری شفل‘‘ کو قوم نے یوں دیکھا کہ چند لمحات تک تو حیرت کا شکار رہی‘ مگر پھر یہ سوچ کر نارمل ہوگئی کہ ایسا تو ہوتا ہے اور ایسا تو ہونا ہی تھا۔ پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وفاقی وزیر غلام سرور خان سے وزارت واپس لینے کے موقع پر (شاید از راہِ تفنّن) کہا گیا کہ ان سے ناقص کارکردگی کی بنیاد پر استعفیٰ لیا گیا ہے۔ کیا اچھی کارکردگی پر بھی استعفٰی لیا جاتا ہے؟ خیر‘ اگر کارکردگی کی بنیاد ہی پر استعفے لیے جاتے رہے تو وفاقی کابینہ میں بچے گا کون! جب کارکردگی کا سوال اٹھے گا تو گرد آسانی سے نہیں بیٹھے گی۔ ویسے تو خیر کابینہ میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کیا گیا ہے‘ تاہم اسد عمر کا معاملہ زیادہ نمایاں رہا ہے۔ فارغ کیے جانے پر ایف بی آر آڈیٹوریم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ معیشت کو سہارا دینے کے لیے چند مشکل فیصلے ناگزیر ہیں۔ فی الحال معجزوں کی امید نہ رکھی جائے۔ یہ سوچنا حماقت کے مترادف ہوگا کہ چند ہی ماہ میں دودھ اور شہد کی ندیاں بہنے لگیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بھی آئے گا وہ خود کو مشکلات میں گِھرا ہوا پائے گا۔ فریش ٹیم کو بھی کچھ کر دکھانے کے لیے چند ماہ درکار ہوں گے‘ یعنی یہ کہ اگر اُس کے معاملے میں بھی: ع
آنے کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
والی کیفیت پیدا کی گئی تو معاملات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ اسد عمر نے پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ پاکستانی معیشت میں پنپنے کی صلاحیت اور گنجائش ہے ‘مگر کڑوے گھونٹ پینا ہوں گے۔ ایسا نہ کیا گیا تو ہم دوبارہ کھائی میں جا گریں گے۔ مزید یہ کہ آئی ایم ایف پروگرام آئندہ بجٹ پر اثر انداز ہوگا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ کہہ کر اہلِ وطن کے دل مزید دہلا دیئے ہیں کہ معیشت کی حقیقت بیان کرکے قوم کو مایوس نہیں کرنا چاہتے!
وفاقی کابینہ میں ایسے وقت تبدیلیاں کی گئی ہیں جب ملک کو خاصے مشکل حالات کا سامنا ہے۔ سوال صرف معیشت کی بحالی کا نہیں ہے۔ دوسرے بہت سے شعبوں میں بھی خرابیاں ہی دکھائی دے رہی ہیں۔ اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ سب کچھ موجودہ حکومت کا کیا دھرا نہیں۔ وہ تو؛ ع
ابھی آئے‘ ابھی بیٹھے‘ ابھی دامن سنبھالا ہے
کی منزل میں ہے۔ اُسے بعض معاملات میں الزام تو دیا جاسکتا ہے‘ مگر تمام خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہراکر بوریا بستر گول کرنے کی باتیں استحقاق سے کچھ زیادہ ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے لیے یہ آٹھ ماہ غیر معمولی آزمائش کے رہے ہیں۔ ٹیم کے حوالے سے اُن پر ابتداء ہی سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔وزیر اعظم کو بھی احساس ہے کہ اُنہیں اچھی ٹیم نہیں مل سکی ہے‘ مگر خیر‘ اب اُنہیں دستیاب سٹاک ہی سے کام چلانا ہے۔ اگر اُن کی ٹیم کے بیشتر ارکان نئے اور قدرے ناتجربہ کار ہیں تو حیرت کی کیا بات ہے۔ خود وزیر اعظم کے لیے تو یہ معاملہ نیا نیا ہے۔ وہ پہلے کبھی وزیر یا مشیر نہیں رہے۔ حکومتی کام کاج کیسے چلایا جاتا ہے‘ اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ تو اُنہیں بھی نہیں تھا۔ وہ اب‘ جب وزیر اعظم بن چکے ہیں‘ تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُنہیں معاملات کو سمجھنے میں کتنی دشواریوں کا سامنا رہا ہوگا۔ مخالفین اس صورتِ حال پر بغلیں بجائیں گے۔ ایسا تو ہونا ہی چاہیے ‘کیونکہ ہمارے ہاں مخالفین کی پریشانی دیکھ کر خوش ہونے کا چلن عام ہے۔وزیر اعظم کو بھی یاد تو ہوگا کہ انہوں نے بھی نواز دورِ حکومت میں حکومتی مشینری کا ناطقہ بند کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ اب وہ مینڈیٹ کی پانچ سالہ مدت کے پہلے مرحلے میں ہیں تو اُن کی پریشانیاں اور الجھنیں دیکھ کر مخالفین کو خوش ہونا ہی چاہیے۔
خیر‘ معاملہ یہ ہے کہ ملک طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہے۔ معیشت ہے کہ بحرانی کیفیت سے باہر آنے کا نام نہیں لے رہی۔ قدم قدم پر احساس ہوتا ہے کہ معاملات اٹکے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی بڑا یا ڈھنگ کا فیصلہ ہو نہیں پارہا۔وزیر اعظم نے قوم سے جو وعدے کیے تھے اُنہیں پورا کرنے کی سمت پہلے قدم کے طور پر ہاؤسنگ سکیم کا افتتاح کردیا ہے۔ اس سے قبل ہیلتھ کارڈ سکیم جاری کی گئی تھی۔
معاملہ یہ ہے کہ اب بڑے دعوے کرنے کی بجائے حکومت کو تھوڑی سی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اُس کی سنجیدگی ہی بتائے گی کہ آئندہ چار برس سے بھی زائد مدت میں وہ کس سمت جائے گی‘ کیا کرے گی۔ بہت کچھ ہے جو اچانک‘ ابھر کر سامنے آیا ہے اور آنکھیں دکھا رہا ہے۔ صرف ملک کے اندر تبدیلیاں رونما نہیں ہو رہیں‘ پورے خطے میں بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ افغانستان میں اب تک امن پوری طرح بحال نہیں کیا جاسکا ہے۔ بھارت کا تو خیر ذکر ہی کیا کہ اُس کے ساتھ ہمارا ہمیشہ ''چھتیس کا آنکڑا‘‘ رہا ہے‘ دیگر ہمسایہ ممالک سے بھی شکایات برقرار ہیں۔ بلوچستان میں معاملات اب تک پوری طرح معمول پر نہیں لائے جاسکے ہیں۔ چند روز قبل کوسٹ گارڈز کے 14 اہلکاروں کی شہادت نے معاملات کو اس طور بے نقاب کیا ہے کہ دل دہل گئے ہیں۔
ایسے ماحول میںوزیر اعظم کو کابینہ کے نظم‘ اتحاد اور فکری استحکام پر زیادہ سے زیادہ متوجہ رہنا چاہیے۔ اس حقیقت سے تو خود وزیر اعظم بھی انکار نہیں کرسکتے کہ آٹھ ماہ کے دوران وفاقی کابینہ کے ارکان نے میڈیا پر شور مچانے اور بڑھکیں مارنے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ اُنہیں اس بات سے کوئی خاص غرض نہیں کہ وفاقی کابینہ میں کون ہے اور کون نہیں ہے۔ صرف معیشت پر متوجہ رہنا کافی نہ ہوگا۔ وزارتِ خزانہ کے ساتھ ساتھ وزارتِ تعلیم‘ وزارتِ صحت اور وزارتِ تعمیرات کی کارکردگی کا گراف بلند کیا جانا چاہیے۔
وزیر اعظم کے لیے مینڈیٹ کے نہایت اہم اوورز چل رہے ہیں۔ اُنہیں اپنے باؤلرز خوب سوچ سمجھ کر استعمال کرنے چاہئیں؛ اگر بیس بائیس رنز والے دو اوورز گزر گئے تو سارا اوسط بگڑ جائے گا اور میچ ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ دو تبدیلیاں انہیں ڈیڑھ دو برس بعد کرنا تھیں وہ ابتدائی مرحلے میں کردی ہیں۔ اب کسی فوری تبدیلی کی زیادہ گنجائش نہیں۔
وزیر اعظم کہتے ہیں کہ جو وزیر ملک کے لیے مفید نہیں ہوگا‘ اُسے ہٹادیں گے۔ لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جب کسی سے ایک وزارت نہ چلی سکی تو اُسے دوسری وزارت پر کیوں آزمایا جارہا ہے؟ کیا وزارتوں کو تختۂ مشق بناتے رہنا ہے؟ پچھلے ادوار میں خدمات انجام دینے والوں کو بلاکر وزیر اعظم عمران خان نے کچھ کہے بغیر تسلیم کرلیا ہے کہ ان کی ٹیم انتہائی کمزور ہے۔ دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں کو کابینہ میں لانا حکومت کی جڑیں کمزور کرنے کا باعث بنے گا۔
وزیر اعظم عمران خان کو اب ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا ہے۔ مخالفین تاک میں ہیں۔ وہ کوئی موقع ضائع نہیں کریں گے۔ ایسے میں صرف سنجیدگی سے کام چلے گا۔ حقیقی سنجیدگی ہی حکومتی کارکردگی کا گراف بلند کرے گی۔