خوشی کی تلاش میں زیادہ بھٹکنے کی ضرورت نہیں۔ خوشیاں تو غموں کے انبار میں بھی مل سکتی ہیں ۔مشکلیں جب حد سے بڑھ جاتی ہیں تو آسانیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو ذرا اس بات پر غور فرمائیے کہ کچھ دوائیں سانپ کے زہر سے بھی تیار کی جاتی ہیں۔ ویسے سانپ کا زہر اپنی اصل شکل میں بھی دوا ہی ہے۔ بہت سوں کو سانپ ڈس کر زندگی کے تمام مصائب سے چھٹکارا دلا دیتا ہے، بیماری جیسی زندگی کو دوا مل جاتی ہے! مگر خیر، اس وقت ہم زہر سے تیار کیے جانے والے تریاق کی بات کر رہے ہیں۔
ہر الجھن میں سُلجھن بھی مضمر ہوتی ہے۔ ضرورت صرف اس نظر کی ہے جو شے کی حقیقت کی پہچاننے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے ع
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں!
مشکلات سے مزین کیفیت کو بیان کرنے کا اُن کے پاس یہی ایک طریق نہیں۔ اسی کیفیت کو انہوں نے یوں بھی بیان کیا ہے ع
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا!
اہل وطن بھی اب کچھ ایسی ہی کیفیت میں جی رہے ہیں۔ جب کسی رنج کو ختم ہونا ہی نہیں اور اسی کے ساتھ جینا ہے تو پھر کیوں نہ اسے گلے لگایا جائے، اپنالیا جائے؟ کیونکہ
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج!
حالات نے تبدیل نہ ہونے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ حالات کی یہ روش دیکھتے ہوئے اہلِ وطن نے بھی رنج و غم سے مسرت کشید کرنے، زہر سے دوا تیار کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ قناعت پسندی تو اب رہی نہیں۔ ایسے میں ''قنّات پسندی‘‘ ہی کو گلے لگانا زندگی کا مقصد ٹھہرا ہے! قناعت پسندی رخصت ہو جائے تو انسان ہر معاملے میں دل بستگی کا سامان تلاش کرتا ہے۔ ایسے میں صرف اس بات کی اہمیت ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خوش کس طور رہا جاسکتا ہے۔ آج ہمارے ماحول میں بہت سوں کی مجموعی ذہنیت یہ ہے کہ جو ہوتا ہے ہو جانے دو مگر خوش ہونے کا اور ہَلّا گُلّا مچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دو۔ ایسے لوگوں کی ذہنی کیفیت یہ ہے کہ قنّات لگنی چاہیے اگر کوئی مر جائے تو ایسے لوگ کفن دفن سے پہلے قنّات لگانے کی فکر میں مبتلا ہوتے ہیں!
جسے دیکھیے وہ کسی نہ کسی طور ہر معاملے سے مسرت کشید کرنے پر کمر بستہ ہے۔ کل تک حالت یہ تھی کہ لوگ کسی بھی پریشانی کے نازل ہوتے ہی الجھ جایا کرتے تھے۔ رات دن کوئی نہ کوئی فکر ذہن کو دامن گیر رہتی تھی۔ اب زمانہ بدل گیا ہے اور زمانے کا چلن بھی۔ اہل وطن نے سوچ لیا ہے کہ ہر طرح کی صورتِ حال میں پریشانی اور بے حواسی کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیں گے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ پریشانی کو پریشانی سمجھا ہی نہ جائے۔ فائرنگ کی آواز سے خوف اُسی وقت محسوس ہوگا جب آپ خوف محسوس کریں گے۔ ہر دکھ محسوس کیے جانے اور دکھی ہونے تک ہے۔ جہاں آپ نے الجھنوں، پریشانیوں اور مسائل کو منہ لگانا یعنی اہم سمجھنا ترک کیا سمجھ لیجیے اُن کا وجود ہی مٹ گیا!
قدم قدم پر مسائل کا سامنا کرنے والے رفتہ رفتہ ہر مسئلے کو زندگی کے پیکیج کا لازمی حصہ سمجھ کر قبول کرنے لگتے ہیں۔ پاکستانی قوم کا بھی اب یہی معاملہ ہے۔ سات عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران جو کچھ اس قوم نے دیکھا اور جھیلا ہے اسی کو زندگی سمجھ کر اب اس کے ساتھ بخوشی جی رہی ہے۔ یہ کوئی ایسی انوکھی بات نہیں جو سمجھ میں نہ آسکے۔ جن کے مقدر میں خوشیاں نہیں ہوتیں وہ غم کو بھی خوشی میں ڈھال لیتے ہیں۔ ان کے پاس اس سے اچھا آپشن ہوتا بھی تو نہیں۔ ہم اس منفرد مقام پر ہیں جہاں ہر معاملے میں دو یکسر متضاد کیفیتیں ایک ہو جاتی ہیں۔
قوم کی بوالعجبی یہ ہے کہ کل تک جن حالات کو دیکھ کر یا جن کے بارے میں سوچ کر دل و نظر پر گھبراہٹ طاری ہونے لگتی تھی اب انہی حالات میں دل بستگی کا سامان تلاش کیا جاتا ہے! فائرنگ سے اب گھبراہٹ طاری نہیں ہوتی بلکہ جسم و جاں میں Thrill سی پیدا ہوتی ہے! جینا مرنا تو لگا ہی رہتا ہے، رج کے مزا آنا چاہیے! خاندان میں کسی کی ''فوتیدگی‘‘ واقع ہو تو میت کے اجتماع کو بھی لوگ مل بیٹھنے کا ذریعہ و بہانہ بنالیتے ہیں! اور سچ تو یہ ہے کہ اب لوگ اگر ڈھنگ سے مل پاتے ہیں تو صرف میت میں! تدفین صبح گیارہ بجے بھی ہو تو لوگ مغرب کے بعد سے میت کے گھر پہنچنے لگتے ہیں کہ حاضری بھی لگ جائے گی اور ڈھنگ سے ملنا ملانا بھی ہو جائے گا! کوئی مرے یا کسی کا گھر بسے، لوگوں کو مل بیٹھنے اور غیبت کے پوٹلے کھول کر دلوں کا بوجھ ہلکا کرنے سے غرض ہے۔ صاحبِ خانہ کی ''پھٹیگ‘‘ سے انہیں کیا غرض؟ وہ خود بھگتے گا۔ گھر شادی کا ہو یا میّت کا، لوگ جمع ہوتے ہی ''جہاں چار یار مل جائیں وہیں رات ہو گلزار‘‘ کا سماں باندھنے پر تُل جاتے ہیں!
وہ زمانے ہوا ہوئے جب حالات کی خرابی کے باعث مایوسی میں ڈوب کر لوگ پژمُردہ ہو جایا کرتے تھے۔ ایسا کرنے کا، ظاہر ہے، کوئی فائدہ تو تھا نہیں اس لیے لوگوں نے ہر طرح کی صورتِ حال کو انجوائے کرنا شروع کردیا ہے! ہر معاملے سے تفریح کشید کرنے کی روش ایسی محکم ہوگئی ہے کہ اب کسی بھی معاملے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ پوری کوشش کی جاتی ہے کہ ہر غم کو اچھی طرح نچوڑ کر آخری بوند تک سے مسرت کشید کرلی جائے! الم نصیب طبیعت خوشیوں کو تلاش کرتے کرتے اس مقام پر آگئی ہے کہ ہر معاملے میں گھر کے لیے رونق ضرورت سمجھی جاتی ہے۔ اور اس کے لیے کوئی نہ کوئی ہنگامہ ضروری ہوتا ہے۔ یعنی
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی!
کبھی کبھی تو یہ سب کچھ ناگزیر سا لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ یہ میلہ یونہی چلتا رہے اور اس قوم کی ''خوشیوں‘‘ کو کسی کی نظر نہ لگے۔ یاروں نے بیڈ گورننس کے ذریعے ایسے حالات پیدا کیے ہیں کہ لاکھ کوشش کرنے پر بھی لوگ زندگی کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوتے۔ زور اس بات پر ہے کہ جو سانسیں میسر ہیں انہیں بھرپور مسرّت کے حصول کے لیے بروئے کار لایا جائے۔ اس رجحان کے نتیجے میں اگر کچھ بھگتنا بھی پڑے تو پروا نہیں کی جاتی۔ کسی سے کہیے کہ مثبت سوچیے، سنجیدگی اختیار کیجیے اور پوری دل جمعی کے ساتھ محنت کرتے ہوئے اپنے حالات درست کرنے کی کوشش کیجیے تو جواب ملتا ہے ؎
گیا ہو جب اپنا ہی جِیوڑا نکل
کہاں کی رُباعی، کہاں کی غزل
ہمیں اگر اس دنیا میں کچھ کرنا ہے، باقی دنیا کو کچھ کرکے دکھانا ہے تو ''قنّات پسندی‘‘ کو اپنے مزاج سے دیس نکالا دینا ہوگا، تڑی پار کرنا ہوگا۔ یہ نکتہ ذہن نشین کرانا خاصی صبر طلب آزمائش ہے کہ زندگی جیسی ''حاصلِ کائنات‘‘ قسم کی نعمت صرف مل بیٹھنے اور ہا، ہُو کے لیے نہیں ملی۔ زندگی اس سے ہٹ کر بھی ہے اور اچھی خاصی ہے۔