"MIK" (space) message & send to 7575

آغاز ’’دھانسو‘‘ ہونا چاہیے !

کسی بھی معاملے میں تمام اہم پہلوؤں کا احاطہ کرنے والی منصوبہ سازی کے بعد ابتداء کا مرحلہ آتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے‘ جو اچھے اچھوں کا امتحان کچھ اس انداز سے لیتا ہے کہ حوصلے کی ہوا اُکھڑ جاتی ہے۔ زندگی کا ہر معاملہ ابتدائی مرحلے میں غیر معمولی توجہ‘ لگن اور عزم کا طالب ہوتا ہے۔ جس نے اس مرحلے سے بااحسن و خوبی گزرنے میں کامیابی حاصل کی ‘وہی آگے بھی بڑھا اور دنیا سے اپنی صلاحیت و سکت کا لوہا منوایا۔ 
کامیاب زندگی بسر کرنے کے لیے ہمیں بہت سی مثالوں سے سیکھنا پڑتا ہے۔ درخت کو دیکھیے۔ زمین میں پڑا ہوا بیج پھٹتا ہے تو زمین کے سینے پر کونپل نمودار ہوتی ہے۔ یہی کونپل اگر سلامت رہے تو پودا بنتی ہے۔ پودا درخت میں تبدیل ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوطی بڑھتی جاتی ہے۔ جو کونپل ہوا کا معمولی سا جھونکا ڈھنگ سے برداشت نہیں کر پاتی ‘وہی جب ثابت قدم رہے تو درخت میں تبدیل ہوکر طوفانی ہواؤں کا بھی پامردی سے سامنا کرتی ہے۔
انسان ‘اگر اپنے جسم پر غور کرے تو پوری زندگی اور بالخصوص کیریئر کے حوالے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ بچہ لاچار ہوتا ہے۔ وہ کم و بیش ڈھائی سال کا ہونے تک دوسروں کے رحم و کرم پر رہتا ہے۔ ابتدائی پانچ ماہ کے دوران تو وہ کروٹ بدلنے کے لیے بھی دوسروں کا حاجت مند رہتا ہے۔ ڈیڑھ سال کی عمر تک ڈھنگ سے چلنا اور کوئی چیز اٹھانا بھی اُس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ شیر خوارگی کے بعد بچپن آتا ہے۔ بچپن کے بعد لڑکپن کا نمبر آتا ہے۔ لڑکپن گزرتا ہے تو عنفوانِ شباب کی منزل آتی ہے۔ انسان کا قد بھی بڑھتا جاتا ہے اور طاقت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جسمانی ساخت میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور یوں خود کو عملی زندگی کے لیے بہتر انداز سے تیار کرنے کا موقع ملتا ہے۔ بیس سال کا ہونے پر انسان مستقبل کی تیاری کرتا ہے۔ عملی زندگی کے لیے تیار ہونا ہر انسان کی انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ اس تیاری ہی سے پتا چلتا ہے کہ وہ زندگی کے حوالے سے کس حد تک سنجیدہ ہے۔ جب ‘جسم میں تبدیلیوں کا عمل تھم جاتا ہے اور خاص طورپر قد کا بڑھنا بھی رک جاتا ہے تب انسان قدرے استحکام کی حالت میں ہوتا ہے اور زندگی کے عملی پہلو پر متوجہ ہوتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے‘ جب انسان کو بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ عملی زندگی کی ابتداء ایسی ہونی چاہیے کہ لوگ دیکھتے رہ جائیں۔ ابتدائی مرحلے میں بھرپور کامیابی لازم نہیں ‘مگر کارکردگی ایسی ہونی چاہیے کہ لوگوں کو مستقبل کے حوالے سے ارادوں کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو جائے۔ 
کوئی بھی انسان جب عملی زندگی میں قدم رکھے تو کس طور آگے بڑھے یہ سیکھنے کے لیے ویسے تو ہزاروں مثالیں موجود ہیں ‘مگر ہم یہاں ایک روزہ کرکٹ کے مائنڈ سیٹ سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ایک روزہ کرکٹ کا آغاز 1973ء میں ہوا۔ تب ایک روزہ میچ 40 اوور کے ہوا کرتے تھے۔ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے اوورز کی یہ تعداد ناکافی تھی۔ 1975ئ‘ 1979ء اور 1983ء کے کرکٹ ورلڈ کپ میں ہر میچ 60 اوورز کا تھا۔ تب تک کرکٹ تیز نہیں ہوئی تھی ‘اس لیے 60 اوورز کھیلنا بھی ٹیم کے لیے عذاب ہو جاتا تھا۔ 1975ء کے ورلڈ کپ میں بھارت کے ایک میچ میں سنیل گواسکر اوپنر کی حیثیت سے آئے اور بیٹ کیری کیا ‘یعنی 60 اوورز پورے ہونے تک آؤٹ نہیں ہوئے۔ خوب ‘مگر انہوں نے صرف 36 رنز سکور کیے! 
جب ایک روزہ کرکٹ 50 اوورز کی منزل میں آئی‘ تب تیزی بھی آئی۔ 1980ء کے عشرے میں کرکٹرز کا مزاج تبدیل ہونے کا عمل شروع ہوا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ہر ٹیم میں آل راؤنڈرز کی انٹری شروع ہوئی۔ اور ہر ٹیم میں ایک یا دو ایسے کھلاڑی بھی نمودار ہونے لگے ‘جو بیٹ تھام کر وکٹ پر آتے ہی انجام کی پروا کیے بغیر مار پیٹ شروع کردیتے تھے۔ یہی حقیقی ''اینٹرٹینر‘‘ تھے ‘جن کی کارکردگی سے شائقین کے پیسے وصول ہونے لگے۔ 
ایک روزہ کرکٹ میں جان اُسی وقت پیدا ہوئی‘ جب ابتدائی مرحلے کو جاندار بنانے پر توجہ دی گئی۔ ایک زمانہ تھا ‘جب ایک روزہ کرکٹ میں پاکستانی اوپنرز انتہائی ڈھیلے ڈھالے انداز کا آغاز کرتے تھے۔ ابتدائی 15 اوورز میں 30 35 رنز اسکور ہوا کرتے تھے۔ اور پھر وکٹیں بھی گرنے لگتی تھیں۔ خوف کا یہ عالم 1990ء کے عشرے کے اوائل میں دُور ہوا جب سعید انور‘ عامر سہیل‘ جے سوریا‘ ڈیوڈ بون‘ ڈین جونز اور دوسرے بہت سے بلّے بازوں نے ایک روزہ کرکٹ کی دنیا کو ابتدائی 15 اوورز میں فیلڈرز کے دائرے میں ہونے کا فائدہ اٹھانے کا ہنر سکھایا۔ ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ سعید انور‘ عامر سہیل اور دیگر بلّے باز مل کر قومی ٹیم کا سکور پہلے 15 اوورز میں 100 کے مارک سے آگے لے جاتے تھے۔ یہ جارحانہ انداز مخالف ٹیم کو بدحواس کردیتا تھا اور پھر بعد میں آنے والوں کے لیے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا آسان ہو جاتا تھا۔ اس کی واضح مثال شاہد آفریدی‘ عبدالرزاق اور محمد حفیظ ہیں۔ اوپنرز سے اچھا سٹینڈ ملنے پر اِن سب کے لیے کھل کر‘ بے فکری سے کھیلنا بچوں کا کھیل ہو جاتا تھا۔ 
مگر بات صرف جارحانہ آغاز پر ختم نہیں ہو جاتی۔ معیاری ایک روزہ میچ وہ ہے‘ جس میں ٹیم اچھے آغاز کے بعد رنز بنانے کی رفتار کم کرکے اچھے باؤلرز کے اوور ضائع کرے اور کمزور باؤلرز کو دوبارہ متعارف کرائے جانے پر سکورنگ کی رفتار بڑھائے۔ اسی طور 35 اوورز کے بعد پھر رفتار کم کرنا دانش مندی ہے‘ تاکہ وکٹیں بچائی جاسکیں۔ آخری 10 اوورز میں سکورنگ کی رفتار پھر بڑھائی جاتی ہے‘ تاکہ ''بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی‘‘ کے مصداق زیادہ سے زیادہ رنز بٹورے جاسکیں۔ جو ٹیمیں واضح گیم پلان کے ساتھ کھیلتی ہیں ‘وہ کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہیں۔ 
زندگی بھی ایسی ہی منصوبہ سازی چاہتی ہے۔ آغاز دھانسو ہونا چاہیے۔ جو نوجوان عملی زندگی میں قدم رکھتے ہوئے غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں ‘اُن کے لیے کامیابی کے امکانات کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے۔ عملی زندگی کی اننگز میں بھی ابتدائی مرحلہ اگر دھواں دار ہو تو بات تیزی سے بنتی ہے۔ جن نوجوانوں میں جوش و خروش کی سطح بلند ہو وہ ابتدائی مرحلے ہی میں اننگز کو تیزی سے مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ کامیابی اُنہیں اگلے مرحلے میں‘ یعنی 30 سے 40 کی عمر کے دوران غیر معمولی دباؤ سے بچاتی ہے۔ وسطِ عمر میں زیادہ دباؤ نہ ہو تو انسان اگلے مرحلے‘ یعنی 50 سال کی عمر تک کے لیے موزوں ترین منصوبہ سازی کی کوشش کرتا ہے اور بالعموم کامیاب رہتا ہے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے والے 50 سال کے بعد کے مرحلے میں خاصے پُرسکون رہتے ہیں۔ مضمحل ہوتے ہوئے قویٰ اُنہیں زیادہ پریشان نہیں کرتے‘ کیونکہ قویٰ کی بہتر حالت کے دور میں وہ اپنے لیے بہت کچھ کرچکے ہوتے ہیں۔ 
عملی زندگی کی ابتداء اس طور کیجیے کہ پہلے مرحلے میں زیادہ وکٹیں نہ گریں اور سکور بورڈ پر رنز کی تعداد بھی معقول ہو۔ آغاز دھانسو ہو تو سامنے آنے والوں پر خوف طاری ہوتا ہے اور یوں آپ کا مورال اطمینان بخش حد تک بلند رہتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں