انسان نے اپنے لیے یہ شرف خود پیدا کیا ہے کہ وہ بیک وقت انتہائی دانا اور انتہائی احمق ہے! رب العالمین نے ہمیں بہترین اندازے پر خلق کیا ہے۔ کون سی اندرونی و بیرونی نعمت ہے جو ہمیں عطا نہیں کی گئی‘ مگر ہم اپنے وجود کی نوعیت اور افادیت پر غور کرنے کی زحمت گوارا کیے بغیر بے ذہنی‘ بے دِلی اور بے حسی کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔ اس روش پر گامزن رہنے کا جو نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے وہ برآمد ہوکر رہتا ہے‘ یعنی اچھی خاصی زندگی کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتی ہے‘ غیر متعلق اور لایعنی سی ہوکر رہ جاتی ہے۔
جس نے خود کو پہچان لیا وہ کوشش کرے تو خداکو بھی پہچان لے گا‘ اس ایک جملے کو سمجھ لینے والا دنیا کا کامیاب ترین انسان کہلایا جانا چاہیے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ رب العالمین نے انسان کو گوناگوں صفات کے ساتھ خلق کیا ہے۔ ان صفات کو سمجھنا اور بروئے کار لانا صرف اُن کے لیے ممکن ہے جو اپنے وجود کی معنویت پر غور کریں‘ رب سے اپنے تعلق کے بارے میں سوچیں اور دنیا کے لیے زیادہ سے زیادہ کارآمد ثابت ہوکر اپنی تخلیق کو بامعنی ثابت کرنے کی راہ پر گامزن ہوں۔ دنیا کا ہر انسان اپنے آپ میں یکسر منفرد ہے۔ اُس جیسا کوئی نہیں مگر یہ حقیقت اُس وقت کچھ اثر پیدا کرتی ہے جب انسان اپنے آپ کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کوشش میں کسی حد تک کامیاب ہونے کے بعد بامقصد زندگی بسر کرنے کو اولین ترجیح کا درجہ دیتا ہے۔
ایک جملہ بار بار سننے کو ملتا ہے ... یہ کہ ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ یہ کوئی انوکھی اور حیرت انگیز بات نہیں۔ دنیا کے ہر معاشرے میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں۔ افریقہ کے پس ماندہ معاشروں میں بھی باصلاحیت افراد بہ اِفراط پائے جاتے ہیں۔ سوال صلاحیتوں یا باصلاحیت افراد کے پائے جانے کا نہیں بلکہ تطہیر و تہذیب کے عمل سے گزارنے کے بعد صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا ہے۔ سنگِ مرمر سے قدرت نے ہمیں خاصی فیاضی کے ساتھ نوازا ہے۔ مگر کیا پہاڑوں کا سینہ چیر کر نکالا جانے والا سنگِ مرمر اُسی حالت میں ہمارے کسی کام کا ہوتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ سنگِ مرمر اُس وقت وقعت اختیار کرتا ہے جب تراش خراش کے بعد اُس سے کچھ بنایا جاتا ہے۔ اس کے لیے مہارت‘ لگن اور محنت درکار ہے۔ صلاحیت کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ کسی کا محض باصلاحیت ہونا کچھ خاص وقعت نہیں رکھتا۔ بھرپور کامیابی کے لیے صلاحیت کو پروان چڑھانا‘ نکھارنا‘ صورتحال سے مطابقت پیدا کرنا اور بروئے کار لانا ناگزیر ہے۔
ہر شعبے میں باصلاحیت نوجوان آتے رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہی ہوتے ہیں جو پوری ذہنی تیاری کے ساتھ میدان میں قدم رکھتے ہیں‘ محنت کرتے ہیں‘ اپنے اور ماحول کے درمیان مطابقت پیدا کرنے پر متوجہ ہوتے ہیں‘ متعلقین کی توقعات کو بارآور بنانے کو ترجیح بناتے ہیں۔ کھیلوں ہی کو لیجیے‘ ہمارے ہاں کرکٹ سے شغف رکھنے والے نوجوانوں کی تعداد غیر معمولی ہے۔ ملک بھر میں بچے کرکٹ کھیلتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں۔ بیٹسمین اور باؤلرز آتے رہتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ اپنے ٹیلنٹ ہی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ بڑا کھلاڑی بننے کے لیے جس نوعیت کا ذہنی سانچہ درکار ہوتا ہے اُس کے بارے میں کم ہی نوجوان سنجیدہ ہوتے ہیں۔
اچھی بیٹنگ اور اچھی باؤلنگ کے ساتھ ساتھ مزاج کی پختگی بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ ٹرائلز میں شریک ہوکر کسی بھی سطح کی ٹیم میں جگہ تو بنائی جاسکتی ہے‘ مگر ٹیم میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے جو کچھ درکار ہوتا ہے وہ بیشتر نوجوان کھلاڑیوں کے پاس نہیں ہوتا۔ صبر و تحمل اور مستقل مزاجی کے ساتھ ساتھ شائستگی بھی کیریئر کو اُچھالا دینے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ چار سال قبل پاکستان کے خلاف ایک ون ڈے میچ کے دوران جب بھارتی وکٹ کیپر مہیندر سنگھ دھونی نے شاہد آفریدی کا آسان سا کیچ ڈراپ کیا تو باؤلر آشش نہرا کو شدید غصہ آیا اور اُس نے دھونی کو بہن کی گالی دی جو صرف میدان میں موجود کھلاڑیوں نے نہیں بلکہ مائکروفونز کے توسط سے پوری دنیا نے سُنی۔ دھونی سینئر کھلاڑی ہے‘ کپتان بھی رہا ہے اور ٹیم میں اُس کی پوزیشن مستقل ہے۔ آشش نہرا کبھی ٹیم میں ہوتا ہے اور کبھی نہیں۔ اس ایک گالی نے نہرا کے کیریئر کو کنارے سے لگادیا! اگر آشش نہرا کو گالی دینے کا اتنا ہی شوق تھا تو پہلے اُسے خود کو وسیم اکرم کی سطح کا باؤلر ثابت کرنا چاہیے تھا!
کیریئر کو مستحکم کرنے کے لیے کارکردگی بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ شائستگی کا اپنانا بھی لازم ہے۔ بہت سے نوجوان انتہائی باصلاحیت ہوتے ہیں‘ محنت بھی کرتے ہیں‘ محنت کرنے کی لگن بھی اُن میں خوب ہوتی ہے مگر وہ اپنے مزاج کو درست رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ بات بات پر بھڑک اٹھتے ہیں‘ شدید غصے کی حالت میں سینئر جونیئر کے فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی کو بھی کچھ بھی کہہ دیتے ہیں۔ یہ روش اُن کے کیریئر کو ٹریک سے ہٹادیتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے والوں کو دوسری بہت سی باتوں سے کہیں بڑھ کر اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اُن کی بدمزاجی متعلقین کو بدظن اور بیزار نہ کردے۔
ہر معاشرے میں ایسے افراد بڑی تعداد میں ملتے ہیں جو اپنی صلاحیت اور سکت سے خاصی نچلی سطح پر کام کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہ عمل ذاتی ذوق و شوق کی بنیاد پر تو خیر نہیں ہوتا مگر ذاتی وجوہ کی بنیاد پر ضرور ہوتا ہے۔ کسی بھی انسان کو اتنی ہی کامیابی ملتی ہے جتنی وہ چاہتا ہے‘ یعنی جس کے لیے وہ محنت کرتا ہے۔ اگر کوئی اپنی صلاحیت سے خاصی نچلی سطح پر کام کر رہا ہے اور اُسی کے مطابقت معاوضہ پارہا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اُس نے یا تو سمجھوتہ کیا ہے یا پھر کچھ ''بھنڈ‘‘ کیے ہیں جن کی سزا مل رہی ہے۔
محض صلاحیت کے ہونے سے کہیں بڑھ کر اہم ہے اُس کا پروان چڑھایا جانا‘ اُس میں نکھار کا پیدا کیا جانا اور پھر موزوں طریقے سے بروئے کار لانا۔ اگر انسان اس مرحلے سے کامیاب نہ گزرے تو سمجھ لیجیے سب کچھ داؤ پر لگ گیا۔ صلاحیت کو اُس کی پوری گہرائی اور گیرائی کے ساتھ سمجھنا لازم ہے تاکہ اُسے پروان چڑھاکر بروئے کار لانے کی منزل تک آسانی سے پہنچا جاسکے۔ کسی نہ کسی خامی‘ کمزوری یا کوتاہی کے باعث بیشتر نوجوان اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاکر کیریئر مستحکم کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور یوں انہیں بہت کم معاوضے پر صابر و شاکر رہنا پڑتا ہے۔ بعض تو اپنی صلاحیتوں سے کام لینے کے معاملے میں اتنے ''لو پروفائل‘‘ ہو جاتے ہیں کہ اُن کی کارکردگی پر توپ سے چڑیا کا شکار کرنے کا گماں ہوتا ہے!
ذرا سا متوجہ ہونے پر آپ کو اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے جو توپ سے چڑیا کا شکار کر رہے ہیں‘ یعنی صلاحیت اور سکت تو بہت زیادہ ہے مگر ٹیلنٹ مینجمنٹ کے معاملے میں ناکام رہنے کے باعث کیریئر ڈیویلپمنٹ کی منزل تک بھی نہیں پہنچ پاتے اور یوں جو کچھ بھی وہ کرسکتے ہیں اُس سے کہیں کم درجے کا کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے نوجوانوں کی بھی کمی نہیں جو اٹھتی جوانی میں اتنے جذباتی ہوتے ہیں کہ راتوں رات بہت کچھ پانے کی تمنا میں کسی بھی حد سے گزر جانے پر بضد رہتے ہیں اور پلاسٹک کے پستول سے پانی کی دھار چلاکر ہاتھی کو گرانا چاہتے ہیں! زندگی اور کامیابی ان دو انتہاؤں کے بیچ ہے۔