"MIK" (space) message & send to 7575

دوست کی تلاش

زندگی تلاش کا نام ہے۔ کوئی دولت کی تلاش میں رہتا ہے تو کوئی شہرت کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ کسی کو ذہنی و قلبی سُکون درکار ہے تو اُسے ڈھونڈنے کی کوشش میں خود کو مزید بے سُکونی سے دوچار کرتا رہتا ہے۔ کوئی کسی خاص شعبے میں کیریئر بنانا چاہتا ہے تو شارٹ کٹس کی تلاش میں رہتا ہے۔ یہ الگ بات کہ کسی بھی معاملے میں کوئی ایسا شارٹ کٹ ہوتا نہیں جس کے ضمنی منفی اثرات نہ ہوں۔ 
ہم میں سے ہر ایک کی تلاش تو مستقل ہے ... سچے دوست اور ہمدرد کی تلاش۔ اِسی طور ہم میں سے کم و بیش ہر ایک کی ایک شکایت بھی دائمی ہے ... یہ کہ مخلص دوست اور سچّا پیار نہیں ملا! اِس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں کہ کم و بیش ہر انسان کسی نہ کسی سطح پر مخلص دوستوں کی کمی محسوس کرتا ہے۔ اور یہ احساس کچھ غلط بھی نہیں۔ چھل کپٹ کو زندگی کا بنیادی شعار بنانے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ 
آج کی ہنگامہ خیز زندگی کے دامن میں ہمارے لیے اِتنی مشکلات ہیں کہ ہر شخص کسی نہ کسی حوالے سے الجھنوں میں مبتلا رہتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جس کی جیب خالی ہے وہ بھی پریشان ہے اور جسے ضرورت سے کہیں زیادہ حاصل ہو رہا ہے وہ بھی مضطرب ہی دکھائی دیتا ہے۔ ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ لوگوں کو پریشان رہنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ پریشان ہونے کے لیے صرف بہانہ چاہیے۔ ذرا سی بھی گنجائش پیدا ہوتے ہی پریشان ہونے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔ 
آج کے انسان کا ایک بڑا مسئلہ رشتوں اور تعلقات کے حوالے سے توازن اور استحکام پیدا کرنے کا ہے۔ زمانے کے بدلے ہوئے تیور ہر انسان کو مختلف حوالوں سے الجھائے ہوئے ہیں۔ غیر معمولی پیچیدگیاں ہیں کہ بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ معاملہ کچھ یوں بھی ہے کہ انسان نے ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دیئے ہیں۔ ہر دور کے چند اہم چیلنج ہوتے ہیں۔ ہر چیلنج کا ڈٹ کر سامنا کرنا ہوتا ہے۔ خود کو منوانے اور زمانے سے ہم آہنگ کرنے کی یہی ایک باوقار صورت ہے۔ کبوتر جب بلی کو دیکھتا ہے تو آنکھیں بند کرکے یہ سمجھتا ہے کہ بلی چلی گئی! انسانوں کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ وہ کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنے سے گریز کی صورت میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ چیلنج اب نہیں رہا! 
دنیا پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف حوالوں سے سوچ کو بدلنے والے حالات صرف پیدا نہیں ہو رہے بلکہ شدت بھی اختیار کرتے جارہے ہیں۔ دنیا کا ہر انسان اچھی طرح جانتا ہے کہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ ایسے میں سوچ کا بدلنا بھی لازم ہے۔ سوچ خود نہیں بدلتی‘ اُسے بدلنا پڑتا ہے۔ سوچ میں نکھار بھی خود بخود پیدا نہیں ہوتا بلکہ خاصی توجہ اور شعوری کوشش کے ساتھ پیدا کرنا پڑتا ہے۔ انسان بدلتی ہوئی دنیا کو دیکھ دیکھ کر محض پریشان ہوتا رہتا ہے‘ اپنی سوچ بدلنے پر متوجہ نہیں ہوتا اور اِس حوالے سے خاطر خواہ محنت نہیں کرتا۔ 
انسان زندگی کے دوسرے بہت سے معاملات کی طرح رشتوں اور تعلقات کے حوالے سے بھی کبوتر والی سوچ اپنانے پر مائل رہتا ہے۔ اس حوالے سے بہت کچھ پانے کی تمنّا اپنی جگہ اور کچھ نہ کرنا اپنی جگہ۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ رشتوں میں پیدا ہونے والی تلخی اور تعلقات میں در آنے والی خرابیاں دور کرنے کے لیے جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ بہت حد تک نیم دِلانہ ہوتا ہے۔ معاملات کو درست کرنے نیم دلانہ کوششیں خاطر خواہ نتائج پیدا نہیں کرسکتیں۔ یہی سبب ہے کہ رشتوں میں تلخی اور تعلقات میں خرابی دور کرنے کی کوششیں زیادہ بارآور ثابت نہیں ہوتیں اور لوگ بالعموم پریشان رہتے ہیں۔ 
لوگ جب رشتوں میں پیدا ہونے والی دراڑیں ختم کرنے سے متعلق کوششوں میں ناکام ہو جاتے ہیں تب ایسے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جن سے خلوص کی بنیاد پر تعلق استوار کرکے زندگی کی کشش بحال کرسکیں۔ یہ کوشش کسی بھی انداز سے بُری ہے نہ غیر منطقی۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کے حلقۂ احباب میں ایسے لوگ شامل ہوں جن پر بھروسا کیا جاسکے‘ مشکل لمحات میں اُن سے اخلاقی اور جذبات مدد حاصل کی جاسکے۔ 
خالص مادّہ پرستانہ سوچ نے زندگی کے بیشتر امور کو خود غرضی اور مفاد پرستی کے جال میں پھنسا دیا ہے۔ جو لوگ زندگی کو متوازن‘ مستحکم اور دانش مندانہ انداز سے بسر کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں اُن کے لیے یہ صورتِ حال انتہائی پریشان کن ثابت ہوتی ہے۔ ماحول میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے ہاتھوں رشتوں اور تعلقات میں در آنے والی کشیدگی‘ بدگمانی اور عدم توازن دور کرنے کی کوششوں میں بالعموم ناکام رہنے کی صورت میں وہ جب مخلص دوستوں کی تلاش میں نکلتے ہیں تو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
مخلص دوستوں کی تلاش عام طور پر ناکام کیوں رہتی ہے؟ اِس سوال پر غور کرنے کی زحمت کم ہی گوارا کی جاتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ مخلص دوستوں کی تلاش کے حوالے سے ایک بنیادی غلطی کرتے ہیں۔ کسی سیانے کا مقولہ ہے کہ دنیا میں آدھے لوگ اس لیے دکھی ہیں کہ غلط لوگوں سے امیدیں وابستہ کر بیٹھتے ہیں اور باقی آدھے اِس لیے دکھی رہتے ہیں کہ سچے اور کھرے لوگوں پر شک کرتے رہتے ہیں! 
امید ہر ایک سے وابستہ نہیں کی جاتی۔ اور ہر ایک کو شک کی نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ دنیا طرح طرح کے لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ جو اچھے ہیں وہ ہر حال میں اچھے ہی رہتے ہیں اور جنہوں نے طے کرلیا ہے کہ بُرے ڈھنگ سے جینا ہے اُنہیں دنیا کی کوئی طاقت ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کی تحریک نہیں دے سکتی۔ جب ہم کسی مخلص دوست کی تلاش میں نکلتے ہیں تو کبھی کبھی کسی کی اداکاری سے متاثر ہوکر اُسے اپنا سمجھ لیتے ہیں‘ امیدیں وابستہ کر بیٹھتے ہیں۔ غلط لوگوں سے امیدیں وابستہ کرنے کا وہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے جو ہونا چاہیے‘ یعنی ہم بالآخر پچھتاوے سے دوچار ہوتے ہیں۔ دنیا اداکاروں سے بھری پڑی ہے۔ ہر ایک پر آنکھ بند کرکے بھروسہ نہیں کیا جاسکتا اور دوسری طرف اُنہیں بھی شناخت کرنا لازم ہے جن میں خلوص پایا جاتا ہے۔ خلوص کی قدر کی جانی چاہیے۔ اگر ہم کسی معاملے میں دھوکا کھانے کے بعد ہر ایک پر شک کرتے رہیں تو کبھی کسی کا خلوص پانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ 
نئے اور مخلص دوست تلاش کرنے کے معاملے میں ہمیں غیر معمولی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ خلوص اور خلوص کی اداکاری کا فرق جاننے کی صلاحیت ہم میں ہونی ہی چاہیے۔ کوئی ہمارے لیے مخلص ہو تو اُس موزوں ریسپانس دیا جانا چاہیے۔ کسی بھی کھرے اور سچے انسان کو اگر بروقت اور موزوں ریسپانس ملے تو تعلقات میں استحکام پیدا کرنا زیادہ دشوار ثابت نہیں ہوتا۔ 
نئے‘ مخلصانہ اور بارآور تعلقات استوار کرنے کے معاملے میں ہمیں ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ تعلقات کا معاملہ ہم سے بھرپور توجہ اور احتیاط کا طالب رہتا ہے۔ دنیا میں طرح طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ کسی نے دھوکا دے دیا ہے تو سب کو دھوکے باز سمجھنا قرینِ دانش نہیں۔ اِسی طور کسی سے بہت خلوص ملا ہے تو محض اِس بنیاد پر سبھی کو مخلص سمجھ لینا بھی معقول نہیں۔ تعلقات ہم سے غیر معمولی احتیاط چاہتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں