پرانے گانوں کی بھی کیا بات ہے۔ لوگ بار بار یہ گانے سُنتے ہیں اور کھو جاتے ہیں۔ سدا بہار فلمی و غیر فلمی گیت‘ غزلیں اور دیگر آئٹم انسان کو تصورات کی ایک انوکھی دنیا میں لے جاکر موجودہ مشکلات سے کچھ دیر کے لیے نجات دلا دیتے ہیں۔ ان گیتوں میں بہت کچھ پایا جاتا ہے۔ دکھ تمام انسانوں کے سانجھے ہوتے ہیں‘ اس لیے پرانے المیہ فلمی گانوں میں بیشتر سامعین کو اپنی پریشانیوں کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ آج کل مجموعی طور پر پاکستان کا جو ماحول ہے‘ اُسے دیکھ کر ہمیں ناہید اختر کا گایا ہوا ایک گیت بار بار یاد آتا ہے۔ اُس کے بول تھے ع
کچھ بولیے حضور‘ یہ لب کھولیے حضور
اس گانے میں ناہید اختر کی زبانی ہیروئن گڑگڑانے کے سے انداز سے ہیرو سے استدعا کرتی ہوئی پائی گئی کہ وہ لبوں پر لگی ہوئی چُپ کی مہر توڑ دے اور کچھ کہے۔ یہ بات تقریباً چار عشرے پہلے کی ہے۔ تب بولنے کی تحریک دی جاتی تھی‘ بلکہ کبھی کبھی تو اُکسایا بھی جاتا تھا۔ زمانہ ایسا پلٹا ہے کہ اب اگر ناہید اختر سے گیت گوایا جائے تو اُنہیں ہاتھ جوڑ کر کہنا پڑے گا کہ کبھی کبھار چُپ رہنے کو بھی ترجیح دیجیے حضور!
ایک دور تھا کہ لوگ کہا کرتے تھے خاموش رہیے‘ بولنا منع ہے۔ وہ بھی کیا کیفیت ہوتی ہوگی جب لوگ خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہوں گے اور کم گوئی کو ایک بنیادی وصف کی حیثیت سے اپناتے ہوں گے۔ اب معاملہ یہاں تک آگیا ہے کہ لوگ ہر وقت کچھ نہ کچھ بولتے رہتے ہیں اور غیر محسوس طور پر اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ خاموش رہنے کی صورت میں دوسروں سے پیچھے ہی نہیں رہ جائیں گے‘ بلکہ شاید اُن کے خلاف کسی سطح پر قانونی کارروائی بھی ہو جائے! اب بولنے کا وصف اس انداز سے عادت میں تبدیل کرلیا گیا ہے گویا نہ بولنا منع ہو!
ٹیکنالوجی کے حوالے سے فقید المثال اور انتہائی حیرت انگیز پیش رفت نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ بہت سی ایجادات و اختراعات زندگی کا حصہ بن کر رہ گئی ہیں۔ ہم بہت سی ڈیوائسز کے اسیر ہوکر رہ گئے ہیں۔ سمارٹ فون ہی کو لیجیے۔ ذرا سے حجم کی اس چیز نے ہمارے پورے وجود کو اس بُری طرح جکڑ رکھا ہے کہ بچ نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔
بہت کچھ یا سب کچھ جان لینے کی خواہش ہماری جان لینے پر تُلی ہوئی ہے۔ بہت کچھ جاننے کی خواہش غیر منطقی‘ بلا جواز اور بعید از دانش ہے۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ بہت کچھ کیوں جانا جائے۔ بہت کچھ جان لینے سے ہماری زندگی میں ایسی کون سی تبدیلی واقع ہوتی ہے جو ہماری محنت کا صِلہ ہو؟ دنیا کا ہر انسان بہت کچھ جاننا چاہتا ہے۔ یہ خواہش یا رجحان بجائے خود بُرا نہیں۔ ہاں‘ معاملے کی نوعیت اور شدت اسے کچھ کا کچھ بنا دیتی ہے۔
کم و بیش دو عشروں سے پاکستانیوں کی اکثریت بہت کچھ جاننے کے خبط میں مبتلا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ماحول میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ فوری طور پر معلوم ہو جائے۔ کچھ برس پہلے تک اَپ ڈیٹیڈ رہنے کے لیے ٹی وی سکرین کا سہارا لیا جاتا تھا۔ اب یہ کام موبائل فون کی سکرین بخوبی انجام دے رہی ہے۔ واٹس ایپ اور دیگر ایپس کے ذریعے دنیا کو کھینچ کھانچ کر ہمارے قدموں میں ڈالا جارہا ہے۔ آنکھوں اور کانوں کے ذریعے ہمارے دماغ کے معدے میں چونکہ بہت کچھ انڈیلا جارہا ہے اور اس میں بہت کچھ غیر متعلق اور ہماری ضرورت سے کہیں زیادہ ہے ‘اس لیے نفس کے ہاضمے کا درست نہ رہنا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
معاشرے کی مجموعی کیفیت ایسی ہے کہ اب خاموش رہنے والے اپنے آپ کو قصور وار محسوس کرنے لگے ہیں۔ ہر وقت اَپ ڈیٹیڈ رہنے کا ایک لازمی‘ منطقی نتیجہ یہ ہے کہ لوگ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ سمارٹ فون کے ذریعے بہت کچھ ہے جو سبھی تک پہنچ رہا ہے‘ مگر پھر بھی ہر نئی بات ایک دوسرے کو بتانے کی دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ روزمرہ کی سلام دعا کے نام پر لوگ اب باتوں کے پوٹلے کھولنے لگے ہیں۔ جب یہ پوٹلے کھلتے ہیں تو باقی سب کچھ اِدھر اُدھر ہو جاتا ہے۔ گفتگو کے نام پر تجزیہ کرنے کی عادت کو اس قدر پروان چڑھایا گیا ہے کہ بہت کوشش کرنے پر بھی اصلاح کی کوئی صورت نہیں نکل رہی۔ لوگ بولنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ بولنے کے بھی چند اصول ہوا کرتے ہیں۔ ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ لب کشائی اُس وقت کی جائے جب بولنے کے لیے کچھ ہو۔ محض بولنا کسی کام کا نہیں ہوتا۔ ذہن میں کچھ ہو تو انسان کو زبان کا سہارا لینا چاہیے۔ کوئی موضوع متعین کیے بغیر دو تین گھنٹے بولتے رہنے کا بھی کچھ حاصل نہیں‘اور اگر ذہن میں کوئی باضابطہ موضوع پنپ چکا ہو اور متعلقہ نکات بھی ٹھوس انداز سے موجود ہوں تو محض چار پانچ منٹ تک بولنا بھی بہت کچھ دے جاتا ہے۔
عمومی سطح پر لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہر وقت کچھ نہ کچھ بولتے رہنا ہی انسان ہونے کی سب سے بڑی اور نمایاں ترین علامت ہے۔ میڈیا نے غیر محسوس طور پر یہ بات ذہن نشین کردی ہے کہ جو بھی انسان ہے اُسے کچھ نہ کچھ بولنا ہے‘ ذہن کے پردے پر ابھرنے والی ہر بات کو بیان کرنا ہے۔ بولنے کی تحریک ہی نہیں دی گئی بلکہ اس عادت کو پختہ کرنے پر بھی خاصی توجہ دی گئی ہے۔ بولنا ہر انسان کی خواہش بھی ہے اور فطرت بھی۔ قدرت نے ہمیں بولنے کا وصف آزاد حیثیت میں عطا کیا ہے۔ اس وصف کو ڈھنگ سے پروان چڑھانا اور تشکیل کے ساتھ ساتھ تہذیب و تطہیر کے عمل سے گزارنا لازم ہے۔ بولنا قدرت کی عطا کردہ صلاحیت ہے مگر ڈھنگ سے بولنا ایک فن ہے جو سیکھنا پڑتا ہے۔ جو کچھ ذہن کے پردے پر اُبھرے وہ لازمی طور پر ساری دنیا کے سامنے نہیں آنا چاہیے۔ کم بولنا علاماتِ دانش میں سے ہے اور پھر بولتے وقت بہت سے اُمور کا خیال رکھنا بھی تہذیب اور شائستگی کے زُمرے میں آتا ہے۔
اہمیت اس بات کی نہیں ہے کہ کوئی کتنا بولتا ہے‘ بلکہ اس بات کی ہے کہ کب کیا بولا جائے۔ دانش کا تقاضا ہے کہ زبان کو حرکت اُسی وقت دی جائے جب ذہن میں وہ نکات ہوں جو بات کو ڈھنگ سے بیان کرنے کی صلاحیت و سکت رکھتے ہوں۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ بات سماگئی ہے کہ زندہ رہنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ انسان کچھ نہ کچھ بولتا رہے! یہی سبب ہے کہ اب ہر وقت کچھ نہ کچھ بولتے رہنے کو بنیادی ترجیحات کا حصہ بنالیا گیا ہے۔ اہلِ دانش کا فرض ہے کہ اس حوالے سے لوگوں کی راہ نُمائی کریں۔ بالکل عمومی سطح پر یہ بات عام کرنے کی ضرورت ہے کہ بولتے رہنے سے کچھ خاص بیان نہیں ہو پاتا۔ انسان کو اُسی وقت بولنا چاہیے جب بیان کرنے کے لیے کچھ ہو۔ لوگ وہی باتیں توجہ سے سُنتے ہیں جن میں ترتیب و تعلّق پایا جاتا ہو۔ بہت سے لوگ کسی موضوع کے بغیر بے حساب اور بلا تکان بولتے ہیں۔ اُن کے بولنے پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
یوں سمجھنے کو تو سب کچھ ایں و آں سمجھا تھا میں
جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں