اپنی اپنی ڈفلی ہے اور اپنا اپنا راگ ہے۔ میڈیا کی ترقی نے بہت کچھ بہت مشکل‘ تو بہت کچھ بہت آسان بھی کردیا ہے۔ اب ‘یہی دیکھیے کہ اپنی مرضی کا طریقہ منتخب کرکے کوئی بھی لوگوں کو گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کرسکتا ہے۔ کوئی روکنے والا ہے‘ نہ ٹوکنے والا۔ جو کچھ بیان کیا جائے گا‘ اُس کے جواب میں بھی کچھ پیش کیا جائے گا۔ سوشل میڈیا نے جوابِ آں غزل کے سلسلے کی خوب پرورش کی ہے۔
ٹیکنالوجیکل بنیاد پر میڈیا کی غیر معمولی ترقی نے اپنی بات کہنے کی روایت کو اس قدر آگے بڑھادیا ہے کہ معاملات الجھتے ہی جارہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر اور بالخصوص سوشل میڈیا میں بیانیوں کی جنگ شدید سے شدیدتر ہوتی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے مختلف موضوعات پر اتنا کچھ پیش کیا جارہا ہے کہ بقول شاعر: ؎
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمّت روایات میں کھو گئی
والی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ ہر حقیقت کو غیر حقیقی اور بے بنیاد باتوں نے اس طور نرغے میں لے رکھا ہے کہ حق اور ناحق کو مکمل طور پر شناخت کرکے الگ کرنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ کسی بھی ایشو پر مواد اپ لوڈ کرنے کی رفتار اس قدر ہے کہ اصل معاملہ ایک طرف کھڑا رہ جاتا ہے اور آن کی آن میں بات کہیں سے کہیں جا نکلتی ہے۔
ایک بیانیہ مغرب کا ہے اور ایک مشرق کا۔ اس وقت مغرب علوم و فنون کے اعتبار سے مضبوط ہے‘ بلکہ یوں کہیے کہ اُس کی گُڈّی اونچی اڑ رہی ہے۔ ایسے میں سبھی اُس کے گُن گانے پر مجبور ہیں۔ معاملہ گُن گانے سے آگے کا ہے۔ مغرب ایک ایسی دنیا کو برقرار رکھنا چاہتا ہے‘ جس کی قیادت اُس کے ہاتھ میں ہو۔ امریکا اور یورپ نے مل کر باقی دنیا کو جنگوں اور خانہ جنگیوں کی بھٹی میں جھونک رکھا ہے۔ اس کی واضح مثال افریقا ہے۔ ایک پورے اور خاصے بڑے براعظم کو مکمل پس ماندگی کے گڑھے میں دھکیل دیا گیا ہے اور نکلنے بھی نہیں دیا جارہا۔ مشرقِ وسطٰی کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ عرب دنیا کو مغرب نے اپنی مٹھی میں کر رکھا ہے اور اسرائیل کی بھرپور سرپرستی کی جارہی ہے۔ جنوبی ایشیا کو بھی دبوچ کر رکھا گیا ہے۔ افغانستان میں ڈیرے ڈال کر جنوبی ایشیا اور وسطِ ایشیا کی بیک وقت مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ چین کے لیے بھی بھرپور پیغام موجود ہے کہ خطے میں ہم بھی موجود ہیں۔ ایشیا کے قلب میں بیٹھ کر پورے براعظم کی نگرانی کا جواز پیدا کرنے کے لیے دہشت گردی کیخلاف جنگ کا بیانیہ تیار کیا گیا۔ یہ بیانیہ اس قدر دہرایا گیا کہ لوگوں کی نفسی ساخت کا حصہ بن گیا۔
دہشت گردی کے خلاف کے نام پر افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی نشانے پر لیا گیا۔ پاکستان کو افغانستان کی طرح تباہ کرنا ممکن نہ ہوسکا تو اندرونی خلفشار پیدا کرکے اُلّو سیدھا کیا گیا۔ پاکستان کے لیے خارجہ پالیسی اور دیگر معاملات میں قدم قدم پر دیواریں کھڑی کی جاتی رہیں۔ ایک الگ بیانیہ تیار کرکے باقی دنیا کو بار بار بتایا گیا کہ پاکستان دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی بہترین پناہ گاہ ہے۔ یہ سب کچھ اس قدر تواتر اور جامعیت کے ساتھ ہوا کہ پاکستان کے حوالے سے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کی رائے منفی ہوگئی۔
مغربی طاقتوں نے بھارت کے ساتھ مل کر ایسی فضاء تیار کی کہ جنوبی‘ وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا میں پاکستان سمیت چین کے تمام ہم خیال ممالک کے لیے اپنی بات منوانا‘ اپنے بیانیے کو درست تسلیم کرانا انتہائی دشوار ہوگیا۔ میڈیا کے محاذ پر برتری کا مغرب نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ جب کسی کے معاملات اچھے چل رہے ہوں تو ایک ایڈوانٹیج دوسرے ایڈوانٹیج کی راہ ہموار کرتا ہے۔ امریکا اور یورپ نے علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت اور فقید المثال عسکری قوت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ عالمی سیاست و معیشت کو یوں اپنی مٹھی میں کیا ہے کہ اُنہیں الگ کرنے کی صورت میں بہت کچھ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا‘ شدید عدم توازن پیدا ہوگا۔
اس وقت مشرق کے بیانیے کا حق کسی حد تک چین ادا کر رہا ہے۔ چین نے اپنا بیانیہ اب تک نہیں بدلا۔ وہ آج بھی ''نرم قوت‘‘ کے ذریعے اپنی پوزیشن مستحکم تر کرنے میں مصروف ہے۔ چین کسی بھی معاملے کو عسکری سطح پر درست کرنے کی بجائے بات چیت کی راہ پر گامزن ہونے کو ترجیحات میں سرِفہرست رکھتا ہے۔ وہ اب بھی علوم و فنون‘ ثقافت‘ معیشت اور معاشرت کے ذریعے بہت بڑی قوت بننے کی تیاری کر رہا ہے۔ عسکری پہلو اب تک نہیں ابھرا۔ چین کا بیانیہ یہ ہے کہ تمام علاقائی اور عالمی تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں۔ اس بیانیے کو عالمی سطح پر اب تک وہ اہمیت نہیں دی گئی‘ جو دی جانی چاہیے۔ بات کچھ یوں ہے کہ دنیا وہ سب کچھ دیکھنے کی عادی ہوگئی ہے‘ جو مغرب اُسے دکھانا چاہتا ہے۔ آج ہماری زندگی میں بہت کچھ ہے‘ جو انتہائی منفی ہے‘ مگر پھر بھی ہم اُس سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ سبب؟ صرف یہ کہ منفی سوچ کو پوری قوت سے ہماری نفسی ساخت میں ٹھونک دیا گیا ہے۔
بیانیے کیا ستم ڈھاتے ہیں اس کا اندازہ صرف اس امر سے لگائیے کہ چین کی شکل میں ایک بڑی قوت موجود ہے ‘جو متبادل نظام کی تیاری میں بھرپور کردار ادا کرنے کی خواہاں ہے۔ اُس کے ساتھ ترکی‘ روس‘ ملائیشیا اور چند دوسرے ممالک مل کر مغرب کے مقابل بلاک کی تشکیل چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ محض ضروری نہیں‘ بلکہ ناگزیر ہے‘ کیونکہ امریکا اور یورپ نے مل کر ڈھائی تین صدیوں کے دوران بیشتر خطوں کو پامال کیا ہے‘ اُن کی دولت لُوٹی ہے‘ اُنہیں پس ماندگی کے گڑھے میں دھکیلا ہے۔ دنیا یہ تماشا محض دیکھتی نہیں‘ بلکہ جھیلتی بھی آرہی ہے۔ اِس کے باوجود متبادل قوت کے ابھرنے پر بھی اُس کا ساتھ نہیں دیا جارہا۔ یہی مغرب کے بیانیے کی کامیابی ہے! اُس کی سَفّاکی کو بہت اچھی طرح جاننے والے ہی اُسے آئیڈیل قرار دیتے بھی نہیں تھک رہے!
آج کے انسان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ مختلف النوع بیانیوں کے درمیان اِس طرح پھنس گیا ہے کہ اُمید کی کرن پُھوٹنے پر بھی اندھیروں سے جذباتی وابستگی ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا‘ جنہیں آج کی دنیا میں ''اپر ہینڈ‘‘ حاصل ہے ‘اُنہوں نے میڈیا کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے انتہائی ذہانت و وسعت کے ساتھ بروئے کار لانے پر توجہ دی ہے۔ بیانیے کے حوالے سے مسلم دنیا کا مخمصہ واقعی عجیب ہے۔ عرب دنیا مغرب کے حوالے سے غیر معمولی مرعوبیت کا شکار ہے۔ پاکستان جیسے تیسے تھوڑی بہت بات کہہ جاتا ہے۔ ترکی نے ایک ڈیڑھ عشرے کے دوران اپنی ڈگر تبدیل کی ہے اور خود کو مسلم دنیا کا قائد تسلیم کرانے کی تیاریاں تیز کردی ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے فلسطینیوں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے اسرائیل کو ناراض کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ پاکستان‘ ترکی اور ملائیشیا مل کر اسلامو فوبیا اور دیگر ایشوز کے حوالے سے جامع بیانیہ تیار کرسکتے ہیں۔ اور یہ بیانیہ تیار کیا جانا چاہیے۔ اس بیانیے کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کو مغرب کے مقابل کھڑی ہونے والی ہر قوت کا ساتھ دینا چاہیے‘ تاکہ عالمی سیاست و معیشت میں کچھ بہتری کی راہ ہموار ہو۔
الغرض تاخیر کی گنجائش ہے ‘نہ تساہل کی۔ بیانیوں کی جنگ کے دور میں زندگی بسر کرتے ہوئے ہم میڈیا کے محاذ کو نظر انداز کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔