"MIK" (space) message & send to 7575

مَرے تھے جن کے لیے … !

کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالے نہ ہوں‘ ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ بین الریاستی تعلقات میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو حالات ہاتھوں کے ساتھ ساتھ منہ پر بھی کالک پوت جاتے ہیں۔ 
خارجہ پالیسی کے میدان میں ہمارے بڑوں نے اب تک جو مہم جُوئی فرمائی ہے ‘اُس کے نتیجے میں بارہا مسائل سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے حقیقی اسلامی طرزِ زندگی کے مطابق جینے کے لیے وطن کے نام پر الگ خطۂ ارض حاصل کیا تو سب سے بڑا سوال یہ اٹھ کھڑا ہوا کہ کون سے کنویں میں ڈول ڈالا جائے؟ خارجہ پالیسی کے حوالے سے وہ بہت نازک وقت تھا‘جو کچھ اُسی وقت طے کیا جانا تھا ‘وہی مدتِ دراز تک چلتا رہنا تھا اور ایسا ہی ہوا۔ ایک طرف ''آزاد دنیا‘‘ تھی اور دوسری طرف اشتراکی بلاک۔ ہم نے ''آزاد دنیا‘‘ کی غلامی اختیار کی اور اشتراکی بلاک سے دور رہنے کو ترجیح دی۔ مغرب‘ یعنی امریکا اور یورپ کی طرف جھک جانے کا ہم نے ایسا صلہ پایا ہے کہ جی جانتا ہے۔ امریکا نے قدم قدم پر ہمیں اپنے مفادات کی تکمیل یا حصول کے لیے استعمال کیا اور ہم یہ سوچ سوچ کر خوش ہوتے رہے کہ ع
کبھی تو معتبر ٹھہریں گے ہم اُن کی نظر میں 
سرد جنگ کے زمانے میں امریکا نے کئی محاذوں پر معاملات کو گرم رکھا۔ اور معاملات کی گرمی برقرار رکھنے کے لیے جو ممالک ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے رہے‘ اُن میں خیر سے‘ پاکستان بھی شامل تھا۔ ہمارے پالیسی میکرز کو شاید کسی نے یہ سمجھا دیا تھا کہ ع
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا 
سرد جنگ کے دور میں اشتراکی بلاک سے دور رہنے کے صِلے کے طور پر امداد کی آڑ میں وہ قرضے دیئے گئے ‘جن کی رقوم کسی نہ کسی شکل میں ہم سے واپس بھی لے لی گئیں۔ شکنجہ ایسا کسا گیا کہ برآمدات برائے نام تھیں اور درآمدات تقریباً تمام کی تمام مغرب سے جُڑی ہوئی تھیں۔ جو کچھ قرضوں کی شکل میں ہمیں دیا جاتا تھا ‘وہ مختلف النوع درآمدات کے بھگتان کی شکل میں وصول کرلیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ عشروں تک جاری رہا۔ زخم ہائے جگر ملتے ہی رہے اور ہم یہ سوچ کر دِل کی تسلّی کا اہتمام کرتے رہے کہ ؎ 
وہ اپنے تارِ نظر سے اگر رفو کرتے 
کچھ اور چاکِ جگر کی ہم آرزو کرتے 
ایک دور تھا کہ مغرب کے ہاتھوں ملنے والی سبکی بھی نعمت کے زُمرے میں رکھی جاتی تھی۔ ذہنی یا نفسی غلامی کا یہ عالم تھا کہ بار بار تحقیر کا سامنا کرنے پر بھی اصلاحِ احوال کے بارے میں سوچنے کو شجرِ ممنوعہ کے درجے میں رکھا جاتا تھا۔ ایک زمانے تک یہ کھیل جاری رہا۔ بہت سوچنے پر بھی کچھ نہ سُوجھتا تھا۔ سُوجھتا بھی کیسے؟ ذہن جامد تھے اور قویٰ ساکت۔ معاملات درست کرنے کی خواہش صرف نام کو تھی۔ ہم ایسا کچھ واقعی چاہتے نہ تھے۔ مغرب کے ہاتھوں پے در پے ذلّت سے دوچار ہونے پر بھی ہمارے اربابِ بست و کشاد صرف یہ سوچ کر قوم کی ڈھارس بندھاتے رہے ۔؎ 
غمِ جہاں سے رہائی جو ہم کو مل جاتی 
تو ہم بھی سیرِ گلستانِ آرزو کرتے 
سرد جنگ کے دور میں پاکستان نے نام نہاد ''آزاد دنیا‘‘ اور اشتراکی بلاک کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے کی بھی کوشش کی۔ بہت سوں نے اس کیفیت کو ''گھر میں نہیں دانے‘ اماں چلیں بُھنانے‘‘ کا مصداق جانا۔ پاکستان کی تو خیر کیا بساط تھی‘ اُسے مغرب نے پُل کی حیثیت سے بروئے کار لانے پر توجہ دی۔ امریکا اور چین کے درمیان بیک چینل رابطوں میں پاکستان کا کردار نمایاں رہا۔ اور جب وقت گزر گیا‘ تو امریکا نے ''تو کون اور میں کون‘‘ کے مصداق ہمیں پہچاننے سے انکار کردیا۔ 1971ء میں سابق مشرقی پاکستان میں بغاوت‘ بھارت کی لشکر کشی اور پاکستان کی بے بسی کے حوالے سے اور کیا کہا جائے؟ ۔ع
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے 
امریکا اور یورپ کی پالیسیوں کو سمجھنا کسی بھی پس ماندہ ملک یا خطے کے لیے کبھی آسان نہیں رہا۔ اِن دونوں طاقتور خطوں نے ہر دور میں ابھرنے والے حالات کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور جب کبھی زیادہ ضرورت پڑی ہے تو اپنی مرضی کے حالات پیدا کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان دونوں نے مل کر جن ممالک اور خطوں کو اپنے شکنجے میں کسا ہے‘ اُن کے لیے گردن چھڑانا اور سکون و احترام کے ساتھ جینا روئے زمین پر سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوا ہے۔ امریکا اور یورپ کی پالیسیوں کو سمجھنا‘ بالخصوص امریکا کی مرضی جان کر اُس کے مطابق چلنا ہر اُس ملک کے لیے انتہائی درجے کا بحرانی مرحلہ ثابت ہوا ہے‘ جس کی گوٹ پھنس گئی ہو!۔ ؎
سمجھ سکے نہ فریبِ جمالِ غنچہ و گل 
چمن اُجڑ گئے تشریحِ رنگ و بو کرتے 
امریکا سے پاکستان کے تعلقات کی نوعیت ایسی رہی ہے کہ ہمیں قدم قدم پر الجھنوں کا سامنا رہا ہے۔ کچھ محلِ وقوع کی کرامت تھی کہ ہم اہم گردانے گئے اور کچھ ارضِ وطن کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھنے والوں کی بے حِسی اور بے عقلی تھی کہ نادانوں اور بدنصیبوں میں بھی شمار ہوا۔ امریکا کی مرضی کے مطابق کھیلنے پر بھی اگر کھیل کا نتیجہ واشنگٹن کے پالیسی میکرز کی خواہش کے مطابق نہ ہو تو قربانی کا بکرا کون؟ پاکستان‘ اور کون؟ اگر کوئی اور الزام میسر نہ ہو تو ڈبل گیم کا بہتان تو تیار ہی رہتا ہے۔ افغانستان میں پاکستان نے امریکا کی مرضی کا کھیل کھیلا ‘مگر معاملات الجھنے پر وہی ڈبل گیم کا الزام عائد کرکے پاکستان کو غیر متعلق بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ افغانستان سے پنڈ چھڑانے کی کوشش میں امریکا ملبہ‘ حسب ِ روایت‘ پاکستان ہی پر ڈال رہا ہے۔ ؎ 
لو‘ وہ بھی کہہ رہے ہیں یہ بے ننگ و نام ہے 
یہ جانتا اگر تو لُٹاتا نہ گھر کو میں 
واشنگٹن کی پالیسی اور فرمائش کے مطابق‘ امریکی چینلز‘ اخبارات اور جرائد ہاتھ دھوکر پاکستان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ بات بات پر مطعون کیا جارہا ہے۔ اِدھر اسلام آباد میں ریاست کے اربابِ بست و کشاد کا عالم یہ ہے کہ اب بھی امریکا اور اُس کے گورے حلیفوں سے کچھ نہ کچھ بہتری کی آس لگائی ہوئی ہے۔کام ہو جانے کے بعد مغرب اور بالخصوص امریکا ہم سے جس طور پر چشم پوشی کرتا ہے وہ آئندہ کے حوالے سے سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی بڑی مصلحت آڑے آکر کام بگاڑ دیتی ہے۔ اور ہمیں یہ سوچتے ہوئے اپنے آپ کو بہلانا پڑتا ہے۔
سرد جنگ‘ افغانستان اور دیگر بہت سے معاملات میں ڈھیروں ذلّت اٹھاچکنے کے بعد اب تو ہماری پالیسی میکرز کو بھی اُسی نتیجے تک پہنچنا چاہیے جس تک اسرارؔ ناروی (ابنِ صفی) مرحوم پہنچے تھے ۔؎ 
بالآخر تھک ہار کے یارو! ہم نے بھی تسلیم کیا 
اپنی ذات سے عشق ہے سَچّا‘ باقی سب افسانے ہیں 
وقت آگیا ہے کہ تمام معاملات پر قومی مفاد کو مقدم رکھا جائے اور اس کے لیے پالیسیوں کا رخ بھی تبدیل کیا جائے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں