"MIK" (space) message & send to 7575

… چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے!

انسان واقعی بے صبرا واقع ہوا ہے۔ اتنا بے صبرا کہ کسی بھی کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہوا دیکھنے کے لیے وہ تمام منطقی مراحل کو یکسر نظر انداز کرکے اپنی خواہشات کے آئینے میں حتمی نتیجے کی تصویر دیکھتا رہتا رہتا ہے۔ ایسے میں صبر کے دامن کا ہاتھ سے چُھوٹ چُھوٹ جانا فطری امر ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ تبدیلی کی خواہش کو حقیقت کے روپ میں دیکھنے کے لیے لوگوں نے توقعات کا پوٹلا وزیر اعظم کے سر پر دھر دیا ہے۔ عمران خان کئی دن‘ بلکہ کئی ماہ سے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ابھی تو شروع کے اوورز ہیں‘ کچھ صبر سے کام لیا جائے۔ اننگز زور پکڑے گی تو چوکے اور چھکے بھی لگیں گے۔ لوگ کہاں مانتے ہیں؟ انہیں تو سب کچھ فوری چاہیے۔ ہم ''آل ایٹ یور فنگر ٹپس‘‘ کے دور میں جی رہے ہیں۔ سب کی خواہش ہے کہ سب کچھ فوری طور پر ہو جائے۔ غالبؔ نے خوب کہا ہے ؎ 
عاشقی صبر طلب ... اور تمنّا بے تاب 
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک 
یہ سب کچھ دیکھ کر عمران خان کا خون پانی ہوا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ بے صبرے ہوئے جارہے ہیں۔ ابھی 13 ماہ ہوئے ہیں اور اُن کی فرمائش ہے کہ تبدیلی پوری طرح آجائے۔ وزیر اعظم کے قریبی حلقے کے لوگ خدا جانے کون سی دنیا سے آئے ہیں کہ وزیر اعظم کو کچھ بتاتے ہی نہیں۔ وزیر اعظم بہت بھولے ہیں۔ اُن کی زندگی کا بڑا حصہ انگلینڈ میں گزرا ہے۔ پاکستانیوں کی عمومی نفسیات کے بارے میں اُنہیں کچھ زیادہ معلوم نہیں۔ 
اگر وہ کچھ جانتے ہیں تو بس اُن لوگوں کے بارے میں جو سٹیڈیم میں بیٹھ کر میچ دیکھتے ہیں اور موقع کی مناسبت سے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کے لیے پریشانی کی بات یہ ہے کہ لوگ چاہتے ہیں‘ اُن کا میچ ابتدائی اوورز ہی میں ختم ہو جائے اور فتح پر منتج ہو۔ یہ کام تو وزیر اعظم عمران خان بھری اور بھرپور جوانی میں بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اب اِس عمر میں اُن سے فٹافٹ میچ جیتنے کی فرمائش انتہائی بلا جواز زیادتی ہی تصور کی جائے گی۔ 
بات کچھ یوں ہے کہ خرابیاں ایک مدت سے محض برقرار نہیں ہیں‘ بلکہ بڑھتی ہی رہی ہیں۔ یہ ''چین ری ایکشن‘‘ والا معاملہ ہے۔ ایک خرابی دوسری خرابی کو‘ دوسری خرابی تیسری خرابی کو جنم دیتی ہے اور یوں معاملات بگاڑ کی نذر ہوتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو خرابیاں کم و بیش سات عشروں میں پروان چڑھی ہیں اُنہیں راتوں رات دور نہیں کیا جاسکتا اور سچ تو یہ ہے کہ ایسا تو کہیں بھی نہیں کیا جاسکتا۔ راتوں رات تمام معاملات کے درست ہو جانے کی خواہش کرنا محض پاگل پن کہلائے گا یا پھر حماقت۔ 
ہاں‘ عمران خان سے ایک بڑی غلطی (شاید انجانے میں) ضرور ہوئی ہے اور وہ غلطی ہے ‘عوام کے جذبات کو ابھارنے‘ انہیں جوش و خروش کے دریا میں غوطہ زن کرنے کے حوالے سے کچھ زیادہ کامیابی کا مل جانا۔ اُنہوں نے تبدیلی کا نعرہ اِس قدر جوش و خروش سے لگایا کہ لوگ کی آنکھوں میں تابناک مستقبل کے ستارے جگمگاتے ہوئے ناچنے لگے۔ اُمید سی پیدا ہوچلی کہ اب شاید سب کچھ درست ہوتا چلا جائے گا۔ تحریکِ انصاف نے انصاف یقینی بنانے کے حوالے سے جو تحریک پیدا کی تھی ‘اُس کا جادو سر چڑھ کر بولا اور اقتدار کا ہما پی ٹی آئی کے سر پر بیٹھ گیا۔ یہ معاملہ شاید توقع سے کچھ زیادہ تھا۔ پی ٹی آئی نے اب تک اپنی کارکردگی سے یہ ظاہر اور ثابت کیا ہے کہ ملک چلانے کے حوالے سے اُس کی تیاریاں ناکافی تھیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا جوش و جذبہ اور نیت کا اخلاص اپنی جگہ اور بیشتر ریاستی معاملات میں ٹھوس اور قابلِ اعتماد تجربے کا فقدان اپنی جگہ۔ وہ اپنی ٹیم میں متعدد تبدیلیاں کرچکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ پورا گورکھ دھندا پوری طرح اُن کی سمجھ میں اب تک نہیں آیا۔ یہ بات اُن کے ذہن میں نہیں تھی اور کسی نے ڈالی بھی نہیں تھی کہ اقتدار پھولوں کی سیج کے ساتھ ساتھ کانٹوں کا بستر بھی ہوا کرتا ہے۔ یہ بات جب سمجھ میں آئی تب عمران خان کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچ گئے اور اب وہ تبدیلی سے متعلق عوام کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے حوالے سے ایسے اقدامات کر رہے ہیں کہ بے چارے عوام کو دن میں تارے نظر آرہے ہیں! مگر خیر ع 
اِس طرح تو ہوتا ہے‘ اِس طرح کے کاموں میں 
وزیر اعظم عمران خان اِس بات سے بہت دُکھی ہیں کہ لوگ فوری نتیجہ چاہتے ہیں۔ لوگ بھی کیا کریں‘ عادت سے مجبور ہیں۔ عمران خان اطمینان رکھیں‘ لوگ اُن سے کسی بھی سطح پر امتیازی سلوک روا نہیں رکھ رہے۔ لوگ تو ہیں ہی عجلت پسند۔ لاکھ سمجھایا جائے کہ جلدی کا کام شیطان کا‘ مگر لوگ کہاں مانتے ہیں۔ وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں تمام منطقی مراحل کو یکسر حذف کردیا جائے اور اُن کی مرضی کا حتمی نتیجہ آنکھوں کے سامنے دھر دیا جائے۔ 
ویسے عوام کی عجلت پسندی کا رونا روتے وقت ہمارے محترم وزیر اعظم بھول گئے کہ وہ خود بھی تو (ماضی میں skipper کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کی بدولت) بہت کچھ skip کرکے اپنی مرضی کے تمام کام انتہائی تیزی سے پایۂ تکمیل تک پہنچتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ قومی کرکٹ ٹیم کی قیادت نے اُنہیں بہت کچھ سکھایا ہوگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ صبر و تحمل برقرار رکھتے ہوئے کھیل کو آگے کیسے بڑھایا جائے‘ وکٹوں سے محروم ہونے سے کیسے بچا جائے یا زیادہ رنز دینے سے پہلو تہی کیونکر کی جائے؟ عمران خان نے سات عشروں کے بگڑے ہوئے معاملات درست کرنے کی اپنی مخلصانہ کوشش میں کچھ ایسا کردیا ہے کہ بہت کچھ الجھ کر رہ گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں کاروباری طبقے کا اعتماد شدید مجروح ہوکر رہ گیا ہے۔ ملک بھر میں سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کے علاوہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجر شدید متذبذب ہیں۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اکنامک پاور ہاؤس کو پوری قوت یا استعداد کے ساتھ بحال و فعال کیسے کیا جائے۔ حد یہ ہے کہ کاروباری برادری کی سرکردہ شخصیات کو آرمی چیف سے بھی ملنا پڑا ہے۔ سلیم کوثر نے خوب کہا ہے:ع 
عجب اعتبار و بے اعتبار کے درمیان ہے زندگی 
سوال ''ساورن گارنٹی‘‘ کا ہے۔ جب پورے ماحول میں بے اعتمادی اور بے اعتباری پھیلی ہوئی ہو تو پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کوئی بھی کام انجام تک پہنچانا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ آج اہلِ پاکستان کی ‘جس بے صبری کا وزیر اعظم عمران خان رونا رو رہے ہیں‘ وہ اُن کی ٹیم کی پیدا کردہ ہے۔ ابتداء اُن کی طرف سے ہوئی ہے۔ عوام کی طرف سے جو کچھ بھی سامنے آیا ہے ‘وہ تو محض ردعمل ہے۔ 
وزیر اعظم اور اُن کی ٹیم کو بہت سنبھل کر کھیلنا ہے۔ پچ غیر یقینی نوعیت کی ہے اور موسم بھی کچھ زیادہ موافق نہیں۔ ایسے میں تماشائیوں کے مزاج کا تلون جوبن پر ہے۔ اِن میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ‘جو مزے لے رہے ہیں اور وزیر اعظم کو ٹیم سمیت ناکام دیکھنے کے متمنّی ہیں۔ اُن کی توقعات کو ناکام بنانا اور اُمیدوں پر پانی پھیرنا وزیر اعظم اور اُن کی ٹیم کا مشن ہونا چاہیے۔ عوام کا کیا ہے‘ اُنہیں تو بالآخر جیسے تیسے صبر آہی جائے گا...!!

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں