"MIK" (space) message & send to 7575

مور کے پاؤں

خواہش کرلینے سے اگر سب کچھ مل سکتا ‘تو سب کے پاس سب کچھ ہوتا۔ کیا قیامت ہے کہ اتنی سیدھی سی بات بھی اچھے اچھوں کی سمجھ میں مشکل سے آتی ہے۔ اب بھارتی قیادت ہی کو لیجیے۔ وہ اپنی حدود بہت اچھی طرح جانتی ہے مگر پھر بھی بار بار حد سے آگے بڑھ کر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی ہے اور پھر ذلت کا ٹوکرا سر پر اٹھائے واپس آتی ہے۔ 
مقبوضہ کشمیر بھارتی فوج کے نرغے میں ہے اور پورا بھارت انتہا پسند مودی سرکار کے شکنجے میں ہے۔ سمجھانے والے سمجھا سمجھاکر تھک گئے کہ زیادہ اونچا اڑنے کی کوشش نہ کرو‘ پَر جل جائیں گے‘ تھک کے گر جاؤگے۔ کوئی کتنا ہی سمجھائے‘ جس نے طے کرلیا ہو کہ کسی کی کوئی بھی بات سمجھنی ہی نہیں ‘وہ کسی بھی حال میں مان کر نہیں دیتا۔ 
مودی سرکار نے بہت کچھ اپنے طور پر طے کر رکھا ہے۔ اس معاملے میں کچھ خرابی پالیسی میکرز کی بھی پیدا کردہ ہے۔ مودی سرکار کا معاملہ یہ ہے کہ: ؎ 
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار 
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں 
کڑوا کریلا جب نیم پر چڑھا تو اور کڑوا ہوگیا۔ مودی سرکار کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ ایک زمانے سے زمین حقائق یکسر نظر انداز کرکے بھارتی پالیسی میکرز اپنے طور پر یہ طے کر بیٹھے ہیں کہ بھارت خطے کا اصلی تے وڈا چودھری ہے۔ کوئی اس دعوے کو مانے کہ نہ مانے یا پھر تمسخر اڑائے‘ کیا فرق پڑتا ہے۔ جب بزعم خود خطے کے مالک بن بیٹھے ‘تو اب حقیقت پسندی کی عینک سے معاملات کو کیوں دیکھا جائے؟ 
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے ڈائریکٹر سی راجا موہن نے بھارتی قیادت کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اُنہوں نے مور کو یاد دلایا ہے کہ طرح طرح کے زعم کا اسیر ہوکر اور سب کچھ بھول جائے‘ کبھی اپنے پاؤں نہ بُھولے! سی راجا موہن نے انڈین ایکسپریس کے لیے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ بھارتی قیادت خود کو بڑی عالمی طاقت یا خطے کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر منوانے کی کوشش کسی ٹھوس جواز کے بغیر کر رہی ہے۔ بلا جواز یوں کہ چین اور بھارت کی مجموعی طاقت میں اتنا فرق ہے کہ ختم کرنے میں ابھی عشرے لگیں گے۔ چین منظم ملک ہے۔ معیشت بھی منظم ہے اور فوج بھی۔ سی راجا موہن لکھتے ہیں کہ چین نے کم و بیش پانچ عشروں کی محنت کے بعد خود کو عالمی سیاست و معیشت کے منظر نامے میں اس طور فِٹ کیا ہے کہ اہم ترین علاقائی اور عالمی معاملات میں نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ چینی قیادت کو بین الاقوامی امور سے نمٹنے کا ہنر بھی خوب آتا ہے۔ کسی بھی سطح پر جذبایت نام کو بھی نہیں۔ چین کی خام قومی پیداوار 14 ہزار ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اس کا سالانہ دفاعی بجٹ 250 ارب ڈالر سے زائد ہوچکا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی خام قومی پیداوار اب تک 2800 ارب ڈالر کی منزل تک پہنچ پائی ہے۔ اور چین کے مقابلے میں اس کا سالانہ دفاعی بجٹ ایک چوتھائی سے بھی کم ہے! 
سی راجا موہن نے مزید لکھا ہے کہ معاملہ یہ ہے کہ بھارتی فوج کے مقابلے میں چین کی فوج کہیں زیادہ منظم‘ جدید رجحانات سے آراستہ اور غیر معمولی مہارت کی حامل ہے۔ بلی کو سامنے پاکر جس طور کبوتر آنکھیں بند کرلیتا ہے‘ کچھ اُسی انداز سے بھارتی قیادت یہ حقیقت تسلیم کرنے سے انکار کر رہی ہے کہ چین کا اُس سے کوئی جوڑ نہیں بیٹھتا۔ چین کو سفارت کاری کے میدان میں کسی بھی حوالے سے بھارت کی خوشنودی درکار نہیں۔ اس کے برعکس وہ بھارت کی ناراضی بھی مول لے سکتا ہے اور لیتا رہتا ہے۔ کشمیر کے معاملے میں چینی قیادت نے اب تک ''پکڑائی‘‘ نہیں دی۔ سرحدی تنازعات میں بھی چین اور بھارت کے درمیان پائے جانے والے اختلافات تاحال دُور نہیں کیے جاسکے ہیں۔ 
ہم نے عرض کیا کہ بہت کچھ بھارتی قیادت اور پالیسی میکرز نے اپنے طور پر طے کرلیا ہے‘ مثلاً :اپنی مرضی کے تحت یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ بین الاقوامی معاملات میں چین سے اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع ہونے پر چینی قیادت بھارت کے لیے نرم گوشے کا اظہار کرے گی۔ چین نے اب تک ایسا کچھ نہیں کیا۔ کرے بھی کیوں؟ بھارت کی اتنی حیثیت ہے ہی کب کہ اُسے درخورِ اعتناء سمجھا جائے؟ بھارتی قیادت نے یہ بھی فرض کرلیا تھا کہ تجارت کے معاملے میں امریکا سے شدید اختلافات کے ہوتے ہوئے چینی قیادت بھارت کی طرف جھکے گی۔ چینی قیادت نے ایسا کچھ بھی کرنے کی ضرورت سِرے سے محسوس ہی نہیں کی۔ کرتی بھی کیسے؟ جب معاملہ امریکا سے اٹکا ہوا ہے ‘تو چینی قیادت بھارت کی طرف کیوں دیکھے گی؟ یہ بات ٹھیلے پر پھل بیچنے والا تو سمجھ سکتا ہے‘ بھارتی قیادت کے بھیجے میں نہیں اُتر رہی۔ 
چینی قیادت نے بھارت کو اپنے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھنے کی روش اب تک نہیں اپنائی۔ بھارتی قیادت؛ البتہ چین کو بڑا خطرہ اور دشمن گردانتی ہے۔ کیوں نہ گردانے کہ چین ہی تو اُس کے مذموم عزائم کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہے۔ بھارت کے معاملے میں چین وہی کیفیت پیدا کرتا ہے ‘جس کی طرف شاعر نے یوں اشارہ کیا ہے: ع 
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات 
سی راجا موہن نے بھارتی قیادت کو مشورہ دیا ہے کہ چین سے برابری کا تصور ذہن سے کھرچ کر پھینک دے‘ حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن ہو‘ چھوٹی سوچ اپنائے اور چھوٹے چھوٹے اقدامات کے ذریعے اپنے معاملات درست کرے۔ اصل مشورہ یہ ہے کہ ؎ :
اِتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت 
دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بندِ قبا دیکھ 
عوامی زبان میں کہیے تو معاملہ یوں ہے کہ تپڑ ہے تو پاس کر ورنہ ''برداس‘‘ کر! اس وقت چین سے آگے نکلنا بھارت کے لیے ممکن نہیں۔ اور آگے نکلنا کیا‘ برابر کھڑا ہونا بھی ممکنات میں سے نہیں۔ ایسے میں خوش فہمیوں کے جام پی کر بدمست ہو رہنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ بھارت اپنی اصل طاقت کا ادراک کرتے ہوئے انصاف پسندی سے معاملات کو درست کرنے کی راہ پر گامزن ہو۔ تمام معاملات کو طاقت کے ذریعے طے یا درست کرنے سے گریز کیا جائے۔ 
27 فروری کو پاکستان کے ہاتھوں جس ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کا بدلہ پاکستان سے لینا ممکن نہ ہوسکا تو نہتے‘ مظلوم کشمیریوں پر تان توڑی گئی۔ طاقت کے اندھا دھند استعمال کے ذریعے مودی سرکار دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ اُس طاقت کے نشے میں بدمست ہوچکی ہے جو ابھی پوری طرح نصیب بھی نہیں ہوئی ہے۔ خدا جانے بھرپور طاقت کا حصول ممکن ہو جانے کے بعد بھارتی قیادت کی بدمستی کی کیفیت کیا ہوگی ؎ 
جب رات ہے ایسی متوالی‘ پھر صبح کا عالم کیا ہوگا! 
مودی سرکار کے لیے یہ وقت بدمست ہوکر اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے کا نہیں بلکہ فہم و دانش کے ذریعے معاملات کو سمجھنے اور کسی کو بے جا طور پر دباؤ میں رکھنے سے گریز کا ہے۔ وقت کی نزاکت متقاضی ہے کہ اُسے سمجھا جائے۔ مودی سرکار نے اگر وقت کی نزاکت سمجھنے میں تساہل اور تغافل کا مظاہرہ کیا تو کوئی ایک غلط قدم پورے خطے کو انتہائی تباہ کن جنگ کی طرف لے جائے گا۔ کچھ بھی کرنے سے پہلے اِس مور کو بھی اپنے پاؤں کی بدہیئتی یاد رکھنے چاہئیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں