حق کو حق اور ناحق کو ناحق کہنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آج کا انسان بہت مصلحت پسند ہے اور حق کو حق کہنے سے گریزاں رہتا ہے تو اسے محض خام خیالی سمجھا جانا چاہیے۔ ہر دور میں سچ بولنا انسان کے لیے بہت بڑا امتحان رہا ہے۔ ضمیر پر بوجھ تو ہر دور میں پڑتا رہا ہے مگر اس بوجھ کو اتار پھینکنے والے خال خال ہی دکھائی دیئے ہیں۔
جب اپنا بہت کچھ داؤ پر لگ جانے کا احتمال ہو تب سچ بولنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ گنتی کے کچھ لوگ ہی اپنے مفادات کو داؤ پر لگتا دیکھ کر بھی سچ بولنے سے گریز نہیں کرتے۔ اگر اس حقیقت کے تناظر میں دیکھیے اور سوچیے تو ترک صدر رجب طیب اردوان اور ملائیشین وزیر اعظم مہاتیر محمد کی طرزِ فکر و عمل پر خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ یہ دونوں قائدین وقتاً فوقتاً حالات کی مناسبت سے حق گوئی کا فریضہ انجام دیتے آئے ہیں۔ آج کا ترکی خاصا ترقی یافتہ ہے۔ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے ترکوں نے فقید المثال سرعت و انداز سے ترقی کی ہے۔ رجب طیب اردوان کی قیادت میں ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران ترکی نے کئی اہم منازل طے کی ہیں۔ ریاستی امور میں فوج کے وسیع کردار کو انہوں نے جس خوبصورتی سے اطمینان بخش حد تک گھٹایا ہے اس کی جتنی بھی داد دی جائے‘ کم ہے۔ ترکی بہت تیزی سے اسلامی دنیا کے رہبر کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔ رہبری کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے‘ بہت کچھ داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ ترک قیادت قیمت ادا کرنے کے معاملے میں بخل سے کام نہ لینے کا فیصلہ کرچکی ہے۔
جنرل اسمبلی سے حالیہ خطاب میں بھارت کو مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کے حوالے سے لتاڑنا اور آئینہ دکھانا معمولی بات نہ تھی۔ اس سے قبل اردوان نے اسرائیل کے خلاف جانے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔ اور ان دونوں سے کہیں بڑھ کر امریکا ہے جس کے خلاف جاتے ہوئے بھی اردوان کو خوف محسوس نہ ہوا۔ چند ماہ قبل امریکا نے ترک معیشت کو تباہ کرنے کی دھمکی دی۔ ترک کرنسی کا گراف خطرناک حد تک نیچے لانے کی کوشش کی گئی۔ اس کوشش میں امریکا ایک خاص حد تک ہی کامیاب ہوسکا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس دوران بعض دیگر با اثر مسلم ممالک محض تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر بھارت کو تنقید کا نشانہ بنانے میں رجب طیب اردوان نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اور اس معاملے میں وہ تنہا نہ تھے۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کے حوالے سے بھارتی حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور پوری دنیا پر اُس کے عزائم بے نقاب کرنے میں تساہل کا مظاہرہ کیا نہ بخل کا۔ اُنہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈال کر جموں و کشمیر پر حملہ کیا اور پھر اُس پر قبضہ کرلیا۔ جنرل اسمبلی میں اُن کے خطاب نے مودی سرکار کی دُم پر پاؤں کا کردار ادا کیا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ مہاتیر محمد کشمیر پر اپنے الفاظ واپس لیں‘ مگر مہاتیر محمد نے واضح کردیا ہے کہ وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔
جنرل اسمبلی سے ملائیشین وزیر اعظم کے خطاب پر بھارت بہت ناراض ہے۔ پہلے بڑے اقدام کے طور پر بھارتی تاجروں نے ملائیشیا سے پام آئل خریدنا چھوڑ دیا ہے۔ گزشتہ برس بھارتی تاجروں نے ملائیشیا سے ایک ارب 63 کروڑ ڈالر سے زائد مالیت کا پام آئل درآمد کیا تھا۔ ملائیشیا پام آئل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور 2018 ء میں اُس سے پام آئل خریدنے والے ممالک میں بھارت تیسرے نمبر پر رہا۔
مہاتیر محمد نے تسلیم کیا ہے کہ ملائیشیا تجارت پیشہ ملک ہے‘ اس لیے اسے مارکیٹس پر نظر بھی رکھنا پڑتی ہے اور انہیں خوش بھی رکھنا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ مارکیٹ اپروچ اپنی جگہ‘ مگر حق بیانی بھی کوئی چیز ہے‘ یعنی کسی بھی معاملے میں چپ رہنے کی کوئی ایک حد ضرور ہوتی ہے۔ اس کے بعد ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا ہی پڑتا ہے‘ بولنا ہی پڑتا ہے۔ مہاتیر محمد پر غیر معمولی دباؤ ہے۔ بھارتی حکومت چاہتی ہے کہ وہ کشمیر کی صورتِ حال سے متعلق اپنے ریمارکس واپس لیں‘ مگر مہاتیر محمد نے بالکل واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ جنرل اسمبلی سے خطاب میں جو کچھ بھی کہا تھا دل سے کہا تھا‘ ضمیر کی آواز تھی۔ اگر ایک بڑی مارکیٹ ہاتھ سے نکل جائے تب بھی کشمیر پر دی گئی رائے واپس نہیں لی جائے گی۔ سچ کچھ ہی لوگوں کو اچھا لگتا ہے‘ اکثریت اُسے آسانی سے ہضم نہیں کر پاتی۔
اسلامی دنیا کو اس وقت مہاتیر محمد اور رجب طیب اردوان جیسے رہنماؤں ہی کی ضرورت ہے۔ اسلامی دنیا کے بہت سے ایشوز عشروں سے حل طلب ہیں۔ بیشتر مسلم قائدین کے افکار و اعمال دیکھتے ہوئے انہیں حقیقی مفہوم میں قائدین قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ترکی اور ملائیشیا کو داد دینا پڑے گی کہ غیر معمولی ترقی سے ہم کنار ہونے پر بھی وہ کسی مصلحت کے اسیر نہیں اور جہاں جتنا سچ بولنا ہو‘ بولتے ہیں۔ مصلحت کوشی کی بھی ایک حد تو ہوتی ہی ہے۔ جب یہ حد آجائے تو انسان کو زندہ رہنے کے اخلاقی جواز کے طور پر ضمیر کی آواز سننا ہی پڑتی ہے‘ سچ بولنا ہی پڑتا ہے۔ انڈونیشیا‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ کویت‘ قطر اور دیگر قدرے بااثر مسلم ریاستیں بھی اگر لامتناہی مصلحت کوشی ترک کرتے ہوئے حق کا ساتھ دینے کی روش پر گامزن ہوں اور بولنے کا حق ادا کرنا شروع کریں تو اسلامی دنیا کے بہت ایشوز سے گلو خلاصی میں مدد مل سکتی ہے۔
ایک زمانے سے پاکستان اپنی بے بضاعتی کے باوجود مسلم دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے آواز اٹھاتا رہا ہے۔ اور اس کی خاصی بھاری قیمت بھی چُکائی ہے۔ کم و بیش 100 سال سے امریکا اور یورپ مل کر ایشیا اور افریقہ میں مسلم ممالک کو نچوڑتے‘ ڈکارتے آئے ہیں۔ چند بڑے اور طاقتور مسلم ممالک کا مغرب کے سامنے ڈٹ جانا لازم ہے‘ تاکہ استحصال کی راہیں مسدود ہوں۔ دوسری طرف علاقائی سطح پر چودھری بننے کے شوقینوں کے سامنے بھی سینہ تان کر کھڑا ہونا لازم ہے۔ بھارت کے عزائم کی راہ مسدود کرنے اور اسے اس کے منطقی دائرے میں رکھنے کے لیے وہی سب کچھ لازم ہے جو مہاتیر محمد اور اردوان نے کیا ہے۔ یہ سارا کھیل صورتِ حال کے سامنے ڈٹ جانے کا ہے۔ دنیا اُسی کو سنتی ہے جو بات ڈھنگ سے کہنے کا محض سلیقہ نہیں‘ حوصلہ بھی رکھتا ہو۔ عالمی سفارت کاری میں دبنگ ہوئے بغیر بات نہیںبنتی۔ اس عمل میں کچھ نہ کچھ داؤ پر بھی لگتا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ ترکی اور ملائیشیا کے قائدین کو اس بات کی زیادہ پروا نہیں کہ بہت کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے۔
عالمِ اسلام کے قائدین کے لیے وقت آچکا ہے کہ مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے تمام مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور انجام کے بارے میں زیادہ سوچے بغیر وہ سب کچھ کہہ ڈالیں جو ضمیر کا تقاضا ہو۔ بولنے کا وقت آچکا ہے۔ جب بولنا لازم ہو تو بولنا ہی پڑتا ہے۔ اسلامی دنیا کے دو قائدین نے ثابت کردیا ہے کہ حق بیانی کا حق ادا کرو اور شان سے جیو۔