قوم کی حالت اب یہ ہے کہ کوئی بھی سرگرمی جو نتائج پیدا کرسکتی ہے‘ اُس سے ہٹ کرکچھ اور ہی‘ یعنی اپنی مرضی کے نتائج پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہر معاملہ اپنی اصل کو بھول کر کسی اور ہی سمت سفر کر رہا ہے۔ قوم طے کرچکی ہے کہ ہر معاملے سے اپنی مرضی ہی کا نتیجہ کشید کرے گی۔ خواہ نقصان سے دوچار ہونا پڑے یا عزتِ سادات ہی جاتی رہے!
اب یہی دیکھ لیجیے کہ لوگ ہر معاملے سے صرف لطف کشید کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی ذہنی رَو ہے‘ جس میں لوگ سوچے سمجھے بغیر بہے جارہے ہیں۔ خواہش اور کوشش یہ ہے کہ زندگی کو ہر حال میں لطف حاصل ہوتا رہے۔ جب کوئی قوم ہر معاملے سے صرف مزا پانا چاہتی ہے‘ تب یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کوئی بھی معاملہ درحقیقت کس نوعیت کا ہے اور اُس سے محظوظ ہوا بھی جاسکتا ہے یا نہیں؟ یہی سبب ہے کہ اب لوگ کسی کی تدفین کے موقع پر بھی روتے ہوئے نہیں ملتے! رونا تو ایک طرف رہا‘ سنجیدگی بھی نہیں اپنائی جاتی۔ میت کا گھر مل بیٹھنے کا وسیلہ بن چکا ہے۔ قبرستان میں بھی گفتگو کا سلسلہ دراز کرتے ہوئے دل بستگی کا سامان کیا جاتا ہے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ محظوظ ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جائے۔ اہلِ وطن کی زندگی اب اس طور گزر رہی ہے کہ ع
ہنسنے پہ کبھی رو دیتا ہوں‘ رونے پہ ہنسی آجاتی ہے!
سب کی توجہ اس امر پر مرکوز ہے کہ جیسے تیسے زندگی کو زیادہ سے زیادہ پُرلطف بنایا جائے۔ زندگی کا سفر آسانی سے کٹے اِس کا اہتمام کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ دنیا بھر میں لوگ یہی تو چاہتے ہیں کہ زندگی زیادہ سے زیادہ آسان‘ پُرسکون اور پُرلطف ہو۔ اس حوالے سے کوششیں مرتے دم تک جاری رہتی ہیں‘ مگر منطق بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے‘ دانش بھی تو کسی چڑیا کا نام ہے۔ حقیقت سے نظریں چُراتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی کوشش خرابیوں کو بھی مزید پیچیدہ بنادیتی ہے اور ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔
اس دنیا میں ہمارا قیام خالصاً عارضی ہے۔ اپنی اپنی مدتِ قیام پوری ہو جانے پر سب کو یہاں سے جانا ہے۔ اور جب تک یہاں قیام ہے‘ پوری کوشش کرنی ہے کہ خود بھی سکون سے جئیں اور دوسروں کو بھی سکون سے جینے کا موقع دیں۔ جو دوسروں کے لیے سکون اور راحت کا اہتمام کرتے ہیں ‘اُن کی اپنی زندگی میں بھی سکون اور استحکام کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے۔
ہم نے اپنے طور پر طے کر رکھا ہے کہ صرف آسانی میں لطف ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ زندگی کا اصل مزا مشکلات سے ٹکراکر اپنے لیے آسانیاں پیدا کرنے میں مضمر ہے۔ وہی لوگ بھرپور زندگی بسر کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں ‘جو مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت پروان چڑھاتے ہیں اور پھر پورے جوش و جذبے کے ساتھ اس حوالے سے سرگرمِ عمل بھی ہوتے ہیں۔ اصغرؔ گونڈوی نے کہا ہے: ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
جینے کا اصل مزا صرف اُس وقت ہے جب ہم کسی بھی مسئلے کو چیلنج سمجھ کر قبول کریں اور اُس چیلنج سے نمٹنے کے لیے متعلقہ صلاحیت و سکت کو بہ درجۂ اتم آزمائیں۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس دنیا کے ہر معاملے سے لذت کشید کی جاسکتی ہے‘ مزا لیا جاسکتا ہے وہ غلط نہیں ‘مگر ہاں‘ زاویۂ نظر ضرور غلط ہے۔ دنیا کا ہر معاملہ ہمیں کسی نہ کسی حد تک مزا دے سکتا ہے۔ ہم مزا کس طور کشید کریں گے اِس کا مدار ہماری طرزِ فکر و عمل پر ہے۔ قدرت نے ہر معاملے کا ایک نپا تُلا نظام طے کر رکھا ہے۔ جب ہم اُس نظام کو اپناتے ہیں اور قدرت کے اصولوں یا توازن کا احترام کرتے ہیں‘ تب معاملات خرابی سے محفوظ رہتے ہیں۔
زندگی ہر قدم پر نعمت بھی ہے اور زحمت۔ اُسے نعمت یا زحمت میں تبدیل کرنا ہمارا کام ہے۔ ہم جو کچھ چاہتے ہیں ‘وہی رنگ و روپ زندگی اختیار کرتی ہے۔ ہر معاملہ ہم سے ویسی ہی طرزِ فکر و عمل کا تقاضا کرتا ہے ‘جو اُس کے لیے موزوں ہو۔ اگر ہم منطق کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی کی راہ پر گامزن ہوں تو معاملات کچھ سے کچھ ہو جاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کبھی کبھی بہت سے اچھے معاملات ہمارے لیے انتہائی بُرے نتائج کے حامل ثابت ہوتے ہیںاور اچھی خاصی نعمت بھی زحمت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
یہ حقیقت کسی بھی طور نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ زندگی کا مزا صرف آسانیاں تلاش کرنے میں نہیں ‘بلکہ آسانیاں پیدا کرنے میں ہے۔ ہمارے لیے کوئی بھی معاملہ اپنے طور پر آسان نہیں ہو جاتا۔ ہمیں اِس کے لیے غیر معمولی محنت کرنا پڑتی ہے۔ لوگ محنت سے جی چُراتے ہوئے زندگی کا مزا تلاش کرتے پھرتے ہیں ‘جبکہ اِس محنت ہی میں سارا مزا چھپا ہوا ہے!
کائنات کا نظام تضاد کے ساتھ چل رہا ہے۔ تضاد نہ ہو تو کائنات کی ساری رنگینی اور دل کشی جاتی رہے۔ ظلمت نہ پائی جائے تو ہم نور کی قدر کیسے کریں؟ کھٹی چیزیں نہ ہوں تو ہمیں کیسے معلوم ہو پائے کہ میٹھی چیز کتنی بڑی نعمت ہے؟ سردی نہ ہو تو گرمی اور گرمی نہ ہو سردی بے معنی ٹھہرے۔ رات کی تاریکی ہمیں الجھنوں سے دوچار کرتی ہے۔ اِن الجھنوں سے نمٹنے کی کوشش ہی ہمیں دن کی حقیقی اہمیت سے روشناس کراتی ہے۔ جب بھوک لگتی ہے تب اندازہ ہوتا ہے کہ اشیائے خور و نوش کی شکل میں ہمیں اللہ نے کتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے اور پھر یہ حقیقت اپنی جگہ کہ سب کچھ آسانی سے مل جائے‘ تو جینے کا سارا لطف جاتا رہے۔ جب ہم مشکلات میں گِھر جاتے ہیں اور اُن سے ٹکرانے کا فیصلہ کرتے ہیں ‘تب اُس آسانی کی اہمیت کا اندازہ ہو پاتا ہے‘ جو ہمیں اپنی طرزِ فکر و عمل اور مصمّم ارادے کے ذریعے پیدا کرنا ہوتی ہے۔ ولن کے بغیر فلم کی کہانی میں ذرا بھی جان نہیں ہوتی۔ زندگی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ مشکلات ہمیں ولن کی شکل میں ملتی ہیں۔ اور ہمیں اُن کے آگے سینہ سِپر ہونا پڑتا ہے۔ اگر ہم مسائل اور مشکلات سے نظر چُرائیں تو ڈھنگ سے جینے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں کرسکتے۔
حکیم ناصرؔ کی معروف غزل کا یادگار مقطع ہے ؎
پی جا ایّام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصرؔ
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے!
یہ اِتنی بڑی حقیقت ہے کہ کبھی نظر سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔ غم کو سہنے میں قدرت نے ایسا مزا رکھا ہے‘ جو کچھ اُنہی کو معلوم ہو پاتا ہے‘ جو غم سہنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ حقیقت کو سامنے پاکر پیچھے ہٹ جانے یا پتلی گلی سے نکل جانے والوں کو یہ مزا کبھی میسر نہیں ہوتا۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہم ایسے موڑ پر کھڑے ہیں‘ جہاں گوناگوں مسائل ہمیں دعوتِ عمل دے رہے ہیں۔ مسائل کو چیلنجز سمجھ کر قبول کرنا ہی ہمارے لیے بہترین آپشن ہے۔ اور پوری دیانت سے غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ایسے معاملات میں آپشنز نہیں ہوتے‘ کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ عمل سے گریز کی راہ پر گامزن ہونا زندگی کو یکسر بے مزا کردیتا ہے۔