تبدیلی کا غلغلہ ہمارے ہاں کچھ اِس انداز سے بلند ہوا کہ سبھی کچھ تبدیلی کی چوکھٹ پر قربان ہوتا دکھائی دینے لگا۔ قوم کو توقع تھی کہ بہت کچھ بدل جائے گا‘ کچھ نیا سامنے آئے گا‘ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ عملی سطح پر ہمارے ہاں تو کچھ خاص دکھائی نہیں دے رہا‘ مگر ہاں‘ بھارت میں بہت کچھ بڑی تیزی سے بدلا ہے‘ بلکہ بدلتا ہی جارہا ہے۔
تین ساڑھے تین ہزار سال پر محیط نام نہاد زرخیز تہذیب کا حامل ہونے کے دعویدار نریندر مودی نے شدید ترین نوعیت کی تنگ نظری پر مبنی ہندو انتہا پسندی کے جن کو باہر نکال کر بوتل توڑ دی ہے۔ اب ‘یہ جن بظاہر تب تک ناچنے پر بضد ہے ‘جب تک گھنگھرو نہ ٹوٹ جائیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کب انتہا پسند نہیں تھی؟ مگر خیر‘ کچھ حدود متعین تھیں ‘جن سے آگے جانا انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ چند ایک اقدار کا خیال بہرحال رکھا جاتا تھا۔ مُرار جی ڈیسائی بھی کسی حد تک انتہا پسند یا رجعت پسند ہندو ہی تھے‘ مگر اُنہوں نے بہت سی بنیادی معاشرتی و مذہبی اقدار کو چھیڑنے اور ٹھکانے لگانے سے گریز کیا تھا۔ اٹل بہاری واجپائی بھی تو بھارتیہ جنتا پارٹی ہی کے وزیر اعظم تھے‘ مگر کیا اُن کی عقل پرستی اور اعتدال پسندی پر کسی کو شک ہے؟ بھارت کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر وہ بہت کچھ کر گزرے‘ مگر پورے خطے کو داؤ پر لگانے والے افکار و اعمال سے گریزاں ہی رہے۔ نریندر مودی نے اپنے افکار و اعمال سے ثابت کیا ہے کہ شدید بے حِسی و بے ذہنی کے باعث وہ اُس حکومتی مسند کے ذرا بھی فائز نہیں‘ جس پر چڑھ بیٹھے ہیں۔ عوام کی رائے کی بنیاد پر کسی جماعت کو حکومت سازی کا حق ضرور مل جاتا ہے‘ مگر کسی کو وزیر اعظم کے منصب پر فائز کرتے وقت بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے‘ مثلاً: یہ کہ اُس میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت ہے بھی یا نہیں اور یہ کہ وہ عملی سطح پر ملک کو کس طرف لے جائے گا۔ تمام معاملات معیشت پر ختم نہیں ہو جاتے۔ اخلاقی اور معاشرتی اقدار بھی کوئی چیز ہوا کرتی ہیں اور مذہب کی بنیاد پر ہم آہنگی یقینی بنانا بھی تو لازم ہے۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نریندر مودی میں بالغ نظری ہے نہ دور اندیشی۔ وزیر اعظم کے منصب کے لیے جس نوعیت کی بصیرت درکار ہوا کرتی ہے‘ اُس کا عشرِ عشیر بھی اُن میں نہیں پایا جاتا اور حق تو یہ ہے کہ اُن کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
نریندر مودی نے انتخابی وعدوں کے خاکے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے عدالتی نظام پر بھی دباؤ ڈالا ہے اور کشمیر کے معاملے میں انتہائی قدم اٹھاکر ملک کی ساکھ ہی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ شہریت کے قانون میں ترمیم کے نام پر متعدد ریاستوں میں غیر معمولی بحران کی راہ ہموار کرکے نریندر مودی نے بھارت کو عالمی برادری کی نظر میں مزید مطعون کیا ہے۔ انتہا پسندی بھارت میں پہلے بھی رہی ہے ‘مگر خیر جو سفر نریندر مودی نے شروع کیا‘ اُس کے حوالے سے لوگوں کو یہ کہنا پڑا ہے: ع
اِس ابتداء کی خدا انتہا بخیر کرے
بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے گاؤں ڈونگری سے خبر آئی ہے کہ وہاں ایک وکیل صاحب (دیا رام ساہو) ہیں ‘جو چالیس سال سے لوہے کی کیلیں کھا رہے ہیں۔ اتنے عرصے سے لوہے کی کیلیں کھانے کے باوجود دیا رام ساہو کا زندہ رہنا ہمیں عجیب نہیں لگا ‘کیونکہ نصف صدی سے بھی زائد مدت سے الّم غلّم کھا‘ پی کر ہم بھی تو خیر سے زندہ ہی ہیں!
خیر‘ بھارتی قوم کو اب دیا رام ساہو سے کچھ سیکھنا چاہیے ‘کیونکہ نریندر مودی کے ہاتھوں چھوٹی موٹی پریشانیاں جھیلنے کے بعد اب اُسے لوہے کے چنے چبانے پڑیں گے اور وہ بھی خاصی بڑی مدت تک۔ شہریت کے ترمیمی قانون کے ساتھ نریندر مودی نے بھارت بھر میں شدید عدم استحکام کی بنیاد تو رکھ ہی دی ہے۔ کئی ماہ سے بھارت بھر میں اکھاڑ پچھاڑ چل رہی ہے۔ اب‘ یہ بات پورے یقین سے اور مکمل طور پر بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ بھارت کے دشمنوں کو سکون سے ایک طرف بیٹھ رہنے کا موقع ملے گا۔ نریندر مودی کے ہوتے ہوئے کسی بیرونی طاقت کو بھارت سے خُنّس نکالنے کے لیے کچھ خاص کرنے کی ضرورت نہیں!
غالبؔ کی دور اندیشی کو سلام کہ بظاہر مودی ہی کے لیے کہہ گئے ہیں:ع
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو
مودی سرکار کے پہلے پانچ برس کے دوران مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کی ساکھ بُری طرح متاثر ہوئی اور معیشت کو بھی دھچکا لگا۔ کوئی بھی سبق سیکھنے کی بجائے مودی سرکار اسی راہ پر مزید بڑھ رہی ہے۔ 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے اُسے بھارت میں ضم کرنے کی سمت قدم بڑھایا گیا اور اب شہریت کے ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والے مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو نشانے پر لے لیا گیا ہے۔ دہلی جیسے شہر میں بھی مسلمانوں کو چُن چُن کر تشدد کا نشانہ بنانے اور موت کے گھاٹ اتارنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سب کچھ بھارت کو کہاں لے جائے گا ‘اس کا اندازہ ہر ذی ہوش کو ہے اور اگر نہیں ہے تو ایک نریندر مودی اور اُن کے رفقاء ہی کو نہیں ہے۔
نریندر مودی اور اُن کی ٹیم نے ثابت کردیا ہے کہ دنیا بھر میں پائی جانے والی سیکڑوں برس کی خرابیوں کے نتائج دیکھنے کے بعد‘ کوئی سبق نہ سیکھتے ہوئے‘ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے آخری لمحات میں بھی انتہائے جہالت کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے! مودی اور اُن کی ٹیم نے (جس میں وزیر خارجہ امیت شاہ خاص طور پر نمایاں ہیں) بظاہر بھارت کو مکمل تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ ملک کی آبادی میں کم و بیش 20 فیصد کا حصہ رکھنے والے مسلمانوں کو دیوار سے لگاکر غیر موثر کرنے کا عمل تیز کیا جارہا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ اِس کے نتیجے میں بھارتی معاشرے میں شکست و ریخت کا عمل بھی تیز ہوجائے گا۔
نریندر مودی اپنی ٹیم کے ساتھ ملک کے لیے پورس کا نیا ہاتھی ثابت ہو رہے ہیں۔ انتخابی وعدوں پر عمل کے جوش میں وہ دانش کے تمام تقاضے بھول چکے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سَفّاک کارکن دہلی میں ''ایک ہی نام‘ جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگاتے پھر رہے ہیں۔ یہ تو پورے معاشرے کو ہستی سے عدم کی طرف لے جانے کی شعوری کوشش ہے۔ حالات کی نوعیت دیکھتے ہوئے بھارت کے اُن تمام اعتدال پسند ہندوؤں کو میدان میں آنا پڑے گا‘ جو اب تک محض تماشائی کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ مودی نے یکسر بے ذہن انتہا پسندی کے عفریت کو آزاد کردیا ہے اور اب‘ وہ بہت کچھ ڈکارتا جارہا ہے۔ روکا نہ گیا تو یہ عفریت بھارت کی پوری تہذیبی وراثت کو چباکر تھوک دے گا۔ اس بات کی گنجائش نہیں کہ اس عفریت کو گھنگھرو ٹوٹ جانے تک ناچنے دیا جائے۔
اقتدار کے نشے میں بدمست ہوکر مودی سرکار سوچے سمجھے بغیر وہ سب کچھ کر رہی ہے ‘جو ملک کو ترقی کی راہ سے ہٹاکر مکمل بدحالی کی دلدل میں دھکیل دے گی۔ اس مذموم و منحوس عمل کے شدید منفی اثرات سے خطے کو محفوظ رکھنے کے لیے متعلقہ ممالک کو متحرک ہوکر عالمی برادری پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ مودی سرکار کو لگام دے۔ بھارت کے پڑوسیوں کو جو کچھ بھی کرنا ہے فوری کرنا ہے۔ اس معاملے میں تاخیر صرف اور صرف تباہی کی راہ ہموار اور آسان کرے گی۔