یہ نصیب‘ اللہ اکبر۔ یہ دن دیکھنا بھی ہمارے نصیب میں لکھا تھا۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ جسے شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے کرتے لوگ تھک گئے اور ہار کر ایک طرف بیٹھ گئے وہ کبھی شرمسار بھی ہوگا۔ جن کی سوچ میں انتہائی پسندی کا عنصر غالب ہو‘ وہ بالعموم کسی بھی بات پر‘ وقت اور دانش و غیرت کے تقاضوں کے باوجود‘ اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور کسی بھی درجے میں شرمندہ نہیں ہوتے۔
ایک زمانے سے دنیا یہ دیکھنے کو بے تاب ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کب جاگتے ہیں ‘یعنی اُن کی غیرت کب جاگتی ہے۔ جو کچھ وہ سوچتے اور کرتے آئے ہیں‘ اُس کے پیش نظر اس بات کا امکان تو کم ہی ہے کہ وہ کبھی اپنی مکمل اصلاح پر مائل ہوں گے‘ مگر ہاں‘ امید پر دنیا قائم ہے۔ اچھا ہے کہ کچھ لوگ وادیٔ امید کی سیر کرتے رہیں۔
خیر‘ حیران کن حد تک خوش کن خبر یہ ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے صورتِ حال سے تنگ آکر کہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا سے رخصت ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں! ایک بیان میں اُنہوں نے کہا ''سوشل میڈیا پر کی جانے والی تنقید برداشت نہیں ہو پارہی‘ میں سوشل میڈیا چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔‘‘
زہے نصیب۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کا شکریہ جنہوں نے اپنی شبانہ روز محنت کا صِلہ پایا اور ایک ہٹ دھرم کو اپنا دھرم بدلنے پر مجبور کیا! نریندر مودی کو سوشل میڈیا پر تبصرے کرنے والوں سے یہ گِلہ ہے کہ وہ سوچے سمجھے بغیر بہت کچھ لکھتے رہتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ کسی پر کیا بیتے گی۔
سبحان اللہ۔ یہ بات وہ شخص کہہ رہا ہے‘ جس نے خود کبھی یہ نہیں سوچا کہ اُس کے ذہن کے پردے پر جو کچھ بھی ابھرتا ہے‘ اُس پر عمل کرنے سے کسی پر کیا بیتے گی‘ بلکہ بیت گئی ہے! یہ بھی خوب رہی کہ نریندر مودی اپنی انتہا پسند سوچ کے مطابق ‘کچھ بھی کرتے پھریں اور کوئی اُن پر تبصرہ بھی نہ کرے۔ ایسا تھوڑی نا ہوتا ہے‘ مودی بابو!
نریندر مودی نے سوشل میڈیا پر کی جانے والی تنقید سے گھبراکر جب اپنے دل کی بات بیان کی تو بہت سے متوجہ ہوئے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ کسی نے کب یہ سوچا ہوگا کہ نریندر مودی کسی بات پر گھبراکر اپنی پالیسی لائن تبدیل کرنے پر مائل یا مجبور ہوں گے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی یہ بات سُن اور پڑھ کر کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''سوشل میڈیا چھوڑنے سے بہتر یہ ہے کہ نریندر مودی نفرت کرنا چھوڑ دیں۔‘‘
یہ مشورہ صائب ہے۔ نریندر مودی نے بے ذہنی و بے حسی پر مبنی شرمناک پالیسیوں کے ذریعے بھارت بھر میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا ہے اور بہت سوں کو تو اُن کی پیدا کردہ خرابیوں کے باعث یہ دنیا بھی چھوڑنا پڑی ہے۔ ایک دنیا ہے کہ نریندر مودی اور اُن کے رفقاء کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنا رہی ہے‘ مگر وہ ہیں کہ مانتے نہیں اور مانیں کیا‘ اُن کے کانوں پر تو جُوں تک نہیں رینگ رہی۔
نریندر مودی یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اُنہیں تنقید کی بہت پروا ہے اور یہ کہ جو کچھ لوگ سوشل میڈیا پر کہہ رہے ہیں اُس سے اُن کے ضمیر پر بوجھ پڑ رہا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اگر واقعی ایسا ہے تو اسے معجزہ کہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ نریندر مودی اور اُن کی ٹیم نے مرکز میں اقتدار سنبھالنے کے بعد گزشہ 6 برس میں جو کچھ کیا ہے ‘وہ کسی بھی اعتبار سے نا صرف یہ کہ قابلِ ستائش نہیں‘ بلکہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ مودی سرکار کی پالیسیاں انتہائی شرمناک رہی ہیں۔ اور اِن سے بے عقلی بھی نمایاں ہے۔ شرمناک یوں کہ اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف گھناؤنے ہتھکنڈے اختیار کرکے اُنہیں دبانے اور دبوچنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے‘ جو کچھ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہو رہا ہے‘ وہ بھی دنیا کے سامنے ہے۔ اور بے عقلی کی مظہر یوں کہ ملک ہی داؤ پر لگتا دکھائی دے رہا ہے۔ مودی سرکار دنیا کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتی۔ کسی نہ کسی مفاد کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے دنیا خاموش رہے تو اور بات ہے‘ اُسے دھوکا تو بہرحال نہیں دیا جاسکتا۔
خیال کیا جارہا تھا کہ شاید مرکز میں حکومت بنانے کے بعد نریندر مودی اپنی سوچ بدل لیں گے‘ کیونکہ اُنہیں پوری قوم کا سوچنا پڑے گا۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے جو کچھ اُنہوں نے کیا وہ بہت حد تک ایک ریاست ‘یعنی صوبے کا معاملہ تھا۔ مرکز میں اقتدار کا ملنا اِس امر کا غماز تھا کہ اب اُنہیں پوری قوم کا سوچنا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نریندر مودی کی بُری عادتیں خاصی پختہ نکلیں۔ وزیر اعظم تو وہ بن گئے ‘مگر اُن کی سوچ میں بڑپّن پیدا نہیں ہوا۔ ہوتا بھی کیسے؟ اُنہوں نے ذہن پر تالا جو لگا رکھا تھا۔ اُن کے ذہن میں صرف ایک بات تھی ؛ یہ کہ اب مرکز میں اقتدار مل گیا ہے تو کھل کر کھیلنے کی گنجائش ہے‘ اس لیے مسلمانوں کو جس قدر تنگ کیا جاسکتا ہے‘ کیا جائے۔ آج کا بھارت کچھ ایسا رنگ اختیار کرچکا ہے کہ مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کی جارہی ہے اور اُن کے مصائب دیکھ کر دیگر اقلیتوں کے لوگ بھی پریشان ہیں۔ سِکھوں نے اپنے لیے خطرات کو زیادہ محسوس کیا ہے۔ مسیحی بھی جانتے ہیں کہ انتہا پسند ہندو ذہن اُنہیں قبول نہیں کرتا۔ نچلی ذات کے ہندو ‘یعنی دلت بھی شدید الجھن میں مبتلا ہیں۔ وہ ہندو ہونے کے باوجود انتہا پسند ہندوؤں کے لیے اب تک قابل قبول نہیں ہے۔ ایسے میں ملک کا‘ حتمی تجزیے میں‘ کیا بنے گا؟ اس کا اندازہ کوئی بھی ذی شعور بہت آسانی سے لگا سکتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی اور دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ مرکز میں انہوں نے وزیر داخلہ امیت شاہ کو بنایا ہے‘ جو گجرات میں اُن کے دستِ راست رہے ہیں۔ امیت شاہ کی مسلم دشمنی بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ایسے میں بہتری کی توقع کم ہی کی جاسکتی ہے۔
بھارتی پالیسی میکرز کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ نفرت پر مبنی پالیسیاں اپناکر ملک کو بہتر حالت میں نہیں رکھا جاسکتا۔ انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں پر مظالم کا ڈھایا جانا کسی بھی اعتبار سے کوئی ایسی حقیقت نہیں‘ جس سے چشم پوشی برتی جائے اور پُرسکون ہوکر بیٹھا جائے۔ شہریت کے ترمیمی قانون کے نفاذ کے بعد سے جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے‘ اُس نے پورے معاشرے کو داؤ پر لگادیا ہے۔ دہلی میں مسلم کش فسادات کی آگ بھڑکی ہوئی ہے۔ یہ آگ دیگر ریاستوں تک بھی پھیل سکتی ہے۔ نریندر مودی پورے ملک کو داؤ پر لگانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ جس ملک میں کم و بیش ایک ہزار سے ہندو اور مسلمان کسی نہ کسی طور ساتھ رہتے آئے ہیں اُسے یوں انتہا پسندی کی آگ میں جھونکنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ اس مرحلے پر اعتدال و انصاف پسند ہندوؤں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہندو اہلِ دانش کے سینے میں دل ہے۔ وہ بہت سے مواقع پر مسلمانوں کے حق میں بولتے رہے ہیں۔ اب‘ انہیں یہ کام ذرا زیادہ قوت کے ساتھ اور کھل کر کرنا ہوگا۔
نریندر مودی کے پاس اب صرف ایک آپشن بچا ہے اور یہ کہ نفرت ترک کرکے محبت اور اعتدال پسندی کو گلے لگائیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے‘ تو بھارت مکمل تباہی کی طرف بڑھ جائے گا۔ مودی کے پاس راہول گاندھی کا مشورہ ماننے کے سوا چارہ نہیں۔ وہ حقیقت پسندی کی راہ پر جس قدر جلد گامزن ہوں اُتنا ہی اچھا ہے۔