"MIK" (space) message & send to 7575

حساب کون دے گا؟

ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ سب کو اچانک کچھ یاد آ جائے‘ آنکھ کھل جائے۔ اچانک ہی سب کو خیال آگیا ہے کہ کچھ نہ کچھ سوچنا چاہیے اور کچھ نہ کچھ کرنا بھی چاہیے۔ معاملہ کراچی کا ہے۔ یاروں نے مل کر ایک زمانے سے پورے شہر کو سرد خانے میں رکھا ہوا تھا۔ شہرِ قائد کا ہر معاملہ بالائے طاق رکھنے کے ساتھ ساتھ طاقِ نسیاں کی بھی نذر کردیا گیا تھا۔ سب نے یہ سمجھ لیا تھا کہ جس طور پڑے پڑے کوئی چیز خراب ہو جاتی ہے بالکل اُسی طور کراچی پڑے پڑے اچھا ہو جائے گا! اِتنے بڑے شہر کو جس نوعیت کا بنیادی ڈھانچا درکار ہوا کرتا ہے‘ وہ یقینی بنانے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ دو‘ سوا دو کروڑ کی آبادی کو زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے جو کچھ بھی کیا جانا چاہیے وہ کبھی کرنا تو دور‘ کرنے کا سوچا بھی نہیں گیا۔ جب اِس حد تک غفلت شعاری ہو تو معاملات بحران کی شکل اختیار کرتے ہی ہیں۔ کراچی کے معاملے میں یہی ہوا ہے۔
اب تمام نام نہاد سٹیک ہولڈرز کو اچانک ہوش آگیا ہے۔ خوابِ غفلت کا ایک دور ختم ہوا ہے۔ اِس شہر کو جی بھرکے لوٹنے والوں کو اچانک خیال آیا ہے کہ شہر کے لیے کچھ کرنا بھی چاہیے۔ اور تو خیر کیا کرنا ہے، فی الحال واویلا مچانے پر اکتفا کیا جارہا ہے؟َ یہ سوچ لیا گیا ہے کہ تھوڑا سا شور مچانے سے معاملات درست ہو جائیں گے اور لوگوں کو یقین آجائے گا کہ اُن کے لیے کوئی کچھ کرنے کا سوچ رہا ہے۔ اہلِ کراچی (بلکہ اہلِ سندھ) مظلوم و مجبور سہی‘ بے وقوف ہرگز نہیں۔ سمجھتے وہ سب کچھ ہیں مگر کچھ بول اِس لیے نہیں پاتے کہ اس کام کی تحریک دینے والے بھی مفاد پرستوں کے ہم نوا ہوگئے ہیں۔ عام آدمی کسی نہ کسی آسرے پر اٹھتا ہے‘ گھر سے نکلتا ہے اور سڑک پر آکر نعرے لگاتا ہے۔ جنہیں عوام کے مسائل حل کرنے پر متوجہ ہونا چاہیے وہ اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں۔ کچھ پنچھی تو پہلے ہی پیٹ بھر کر اُڑ چکے ہیں اور کچھ اُڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ موقع دیکھ کر یہ بھی ایسے اُڑن چُھو ہوں گے کہ ع 
اب اُنہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر 
والی کیفیت پیدا کرکے دم لیں گے۔ کراچی کے میئر وسیم اختر نے خوب کہا ہے کہ میری میعاد ختم ہونے والی ہے۔ اب میں کراچی کا مقدمہ لڑوں گا! سمجھ میں نہیں آتا کہ اِس بات کو لطیفہ سمجھ کر محظوظ ہوئیے یا المیہ سمجھ کر روئیے۔ چار سال تک کراچی کے میئر کی مسند پر جلوہ افروز رہتے ہوئے وہ کچھ نہ کرسکے تو اب منصب کی میعاد ختم ہونے پر کچھ بھی کیسے کرسکیں گے؟
کراچی کے لیے کون کیا سوچ رہا ہے‘ یہ اب بھی واضح نہیں۔ معاملات شور مچانے کی منزل میں اٹکے ہوئے ہیں۔ کراچی کی آج جو بھی حالت ہے کیا وہ راتوں رات ہوئی ہے؟ کیا یہ سارا بگاڑ اچانک سامنے آیا ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ شہرِ قائد کے معاملات کم و بیش چار عشروں کے دوران اِس شہر کے مکینوں کی تقدیر سے کیے جانے والے کھلواڑ کے نتیجے میں بگڑے ہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے کسی بھی طور جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ صوبائی اور مقامی سطح کی قیادت کو اس شہر کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ اُس نے نہیں کیا۔ اور حق تو یہ ہے کہ کچھ کرنے کے لیے کبھی پوری سنجیدگی کے ساتھ کچھ سوچا بھی نہیں گیا۔ معاملات جیب بھرنے سے شروع ہوکر جیب بھرنے تک محدود رہے۔ جنہیں شہرِ قائد اور صوبے کا مینڈیٹ دیا جاتا رہا اُنہوں نے صوبے کی ترقی کو ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا۔
کون سا شعبہ جو ناکام نہیں۔ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبے انتہائی گراوٹ کا شکار ہیں۔ کروڑوں افراد کو پینے کا صاف پانی تک آسانی سے میسر نہیں۔ شہرِ قائد میں ماس ٹرانزٹ سسٹم لانے کے بارے میں کبھی سنجیدگی اختیار نہیں کی گئی۔ آج بھی ہر روز لاکھوں افراد کو کام پر جانے اور گھر واپس آنے کے لیے جاں گُسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ صحتِ عامہ کا معاملہ اب پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ تک آپہنچا ہے۔ صوبائی حکومت نجی اداروں اور این جی اوز کے ساتھ مل کر سرکاری ہسپتال چلا رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ سرکاری ہسپتالوں کی حالت اگر دگرگوں ہے تو ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے۔ یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ سرکاری شعبے کے اسپتالوں کو این جی اوز کے ہاتھوں میں دے دیا جائے؟ محکمۂ صحت کیا کر رہا ہے؟ اگر وہ ڈھنگ سے کام کر ہی نہیں سکتا تو پھر اُسے ختم کردیا جائے۔
کراچی کے معاملات کا قبلہ درست کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ وفاق نے بظاہر کوئی فیصلہ کرلیا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کو محض مینڈیٹ رکھنے والوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ عوام کی رائے اپنی جگہ مگر جب عوام کی رائے سے منتخب ہونے والے اپنا کام نہ کریں تو وفاق کیونکر چشم پوشی برت سکتا ہے؟
حیدر آباد میں سندھ کی مذہبی، سیاسی اور قوم پرست جماعتوں نے آل پارٹیز منعقد کرکے کہا ہے کہ سندھ کے خلاف وفاق کی کوئی سازش برداشت نہیں کی جائے گی۔ سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی نے اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اہلِ سندھ کی خود مختاری اور آئینی حقوق کے لیے ایک پلیٹ فارم پر آگئے ہیں۔ سندھ کو نسلی اور انتظامی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوئی بھی کوشش ہمیں قبول نہیں۔ کراچی کا بحران پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے مل کر پیدا کیا ہے جس کا مقصد سندھ کو تقسیم کرنا ہے۔ وفاقی حکومت سمندر سمیت سندھ کے تمام وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ نے کہا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کام کر رہی ہے نہ پیپلز پارٹی مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی اور آکر شہر پر قبضہ کرے۔ مسلم لیگ ن سندھ کے صدر شاہ محمد شاہ نے کہا کہ کراچی کو بچانا سندھ کے لیے بقا کا مسئلہ ہے۔ جماعت اسلامی سندھ کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری عبدالحفیظ بجارانی نے کہا کہ کراچی کو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے مل کر برباد کیا ہے۔ کراچی سے کشمور تک صاف پانی بھی میسر نہیں۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ عبدالحئی بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ضلع گوادر بھی وفاق کے ہاتھ میں ہے۔ سندھیوں اور بلوچوں سے نفرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ وفاق حقیقی جمہوریت نہیں چاہتا۔ ہم دھرتی کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما تاج محمد ناہیوں نے کہا کہ سندھ کی تقسیم ملک کی تقسیم ہے۔ عوامی تحریک کے مرکزی رہنما ڈاکٹر سجاد چانڈیو نے کہا کہ قوموں (اہلِ سندھ) کے حقوق کے لیے پوری قوت کے ساتھ بات کرنا ہوگی۔ سندھ کے حکمران اسلام آباد میں رات کے اندھیرے میں ہونے والے اجلاسوں میں سب کچھ چھوڑ آتے ہیں۔
یہ کون سی سازش کی بات ہو رہی ہے؟ ایک کراچی پر کیا موقوف ہے‘ پورے سندھ کا برا حال ہے۔ کہیں سے کوئی آئے تو کچھ کرے۔ یہاں والوں کو تو کوئی فکر لاحق نہیں۔ عوام کے بنیادی مسائل تک تو حل ہوئے نہیں‘ آگے کی بات کون سوچ سکتا ہے؟ سب اِسی بات کا رونا رو رہے ہیں کہ کراچی پر شب خون مارنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ جنہوں نے چار پانچ عشروں تک اس شہر کا خون چوسا ہے اُن کا احتساب بھی ہونا چاہیے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے تسلیم کیا ہے کہ پیپلز پارٹی غفلت کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ ایم کیو ایم والوں نے بھی دبی زبان میں مانا ہے کہ مسائل کے حل پر توجہ نہیں رہی مگر کوئی بھی خود کو احتساب اور سزا کے لیے پیش نہیں کر رہا۔ اگر کراچی کے نام پر جاری ہونے والے سینکڑوں ارب روپے خورد برد کیے گئے ہیں تو اُن کا حساب کون دے گا؟ محض ''سوری‘‘ کہہ دینے سے تو کسی کو بخشا نہیں جاسکتا۔ اگر معذرت کرلینا کافی ہے تو پھر جیلیں خالی کردی جائیں۔ سوال حساب کا ہے جناب! حساب کون دے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں