"MIK" (space) message & send to 7575

کیا اب بھی نہ جاگیں گے؟

کراچی میں بارشوں کا سلسلہ تھم گیا ہے مگر دوسری بہت سی بارشیں شروع ہوگئی ہیں۔ سیاسی محاذ پر توپیں دغ رہی ہیں۔ آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں۔ دس بارہ دن قبل جب وفاق نے نالوں کی صفائی کے لیے این ڈی ایم اے کو ٹاسک سونپا تھا تب سندھ کے وزیراعلیٰ برہم ہوگئے تھے اور انہوں نے اگلے ہی دن اسلام آباد کا چکر بھی لگایا تھا مگر بات بن نہیں پائی تھی۔ این ڈی ایم اے کو کراچی کے نالوں کی صفائی کا ٹاسک سونپنا سید مراد علی شاہ کو صوبائی حکومت کے مینڈیٹ میں مداخلت جیسا لگا تھا۔ اِس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کراچی کے معاملات درست کرنے کے لیے طویل المیعاد منصوبہ زیر غور ہے۔ پھر انہوں نے یہ بھی بتادیا کہ ''کراچی ٹرانسفارمیشن پلان‘‘ تیار کیا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جلد کراچی آنے کا اعلان بھی کیا۔ ان سے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی کا دو روزہ دورہ کیا اور وہ کہہ دیا جس کی اہلِ شہر کی توقع کر رہے تھے۔ شہر کے ممتاز تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقات کے دوران آرمی چیف نے کہا کہ کراچی کو تین سال میں مکمل تبدیل کردیا جائے گا۔ سڑکوں کا نیٹ ورک درست کیا جائے گا، بجلی، گیس اور پانی کا بحران بھی ختم کردیا جائے گا۔ یہ یقین دہانی کاروباری برادری کی شکایات کے جواب میں کرائی گئی۔ آرمی چیف سے ملاقات کرنے والوں میں میاں زاہد حسین، سراج قاسم تیلی، عقیل کریم ڈھیڈی، آغا شہاب احمد خان، زبیر طفیل، شاہین الیاس سروانہ، انجم نثار، ارشد ولی محمد، زکریا عثمان، زاہد سعید، عمران معیز، امان مچھیرا اور خالد تواب شامل تھے۔
کراچی کے ممتاز ترین، تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کا آرمی چیف سے ملنا مسائل کے بیان سے کہیں زیادہ منتخب صوبائی حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار ہے! میاں زاہد حسین نے کہا کہ جب تک کراچی کے مسائل حل نہیں ہوں گے، قومی معیشت بھی پوری طرح بحال نہیں ہوسکے گی۔ اس وقت کراچی سالانہ 2600 ارب روپے تک محصولات دیتا ہے۔ اگر مسائل ہو جائیں تو کاروباری سرگرمیاں خوب پروان چڑھیں گی اور سالانہ محصولات 4000 ارب روپے تک ہوسکتے ہیں۔
کراچی میں نظمِ عامہ کی شکل کیا ہونے والی ہے‘ یہ بات اب بہت حد تک کھل کر سامنے آچکی ہے۔ شہر میں ہر طرف مسائل ہیں اور اُن کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دی۔ ایسے میں اعلیٰ ترین سطح پر نہ سوچا جائے تو اور کیا کِیا جائے؟ عوام کے دل کی بھی یہی آواز ہے۔ حالیہ بارشوں سے قبل بھی کراچی کا حال قابلِ رحم تھا۔ بارشوں نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ رحمت اپنوں کی نا اہلی اور بے حسی سے زحمت بن گئی۔ موسلا دھار بارشوں کے دوران ڈھائی کروڑ افراد نے خود کو یکسر بے آسرا محسوس کیا۔ مقامی و صوبائی سطح کے نظمِ عامہ کی جانب سے ہمدردی کے دو بول بولنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ بارشوں کو تھمے ہفتہ ہونے کو آیا ہے مگر شہر مکمل طور پر اب تک بحال نہیں ہوسکا ہے۔ آرمی چیف کے بعد اب وزیر اعظم کو کراچی آنا ہے۔ لوگ توقع کر رہے ہیں کہ وہ شہر کی مکمل بحالی اور دیرپا ترقی کے لیے کسی بڑے پیکیج کا اعلان کریں گے۔ اور یہ توقع بے جا یا بلاجواز بھی نہیں۔
کراچی کے عام شہری کا معاملہ تو یہ ہے کہ اُسے اب کسی بات پر حیرت نہیں ہوتی۔ ہاں! افسوس ضرور ہوتا ہے۔ جو کچھ ہونا ہے اُس کا درست اندازہ پہلے سے ہوتا ہے۔ ایسے میں حیرت کی گنجائش ہی کہاں رہتی ہے؟ جو کچھ ہو رہا ہے اُس پر کچھ بس نہیں چلتا اس لیے دکھ ضرور ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ برسوں بلکہ عشروں کی نا اہلی اور کوتاہی کا یہ نتیجہ تو برآمد ہونا ہی تھا۔ یہ تو بالکل فطری بات ہے۔ کام نہ کیا جائے تو مطلوب نتائج ممکن نہیں بنائے جاسکتے۔
ریکارڈ بارشوں نے بہت کچھ کیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کراچی کا بنیادی ڈھانچہ مستحکم کرنے کی ضرورت ایک بار پھر سر اٹھاکر کھڑی ہوگئی ہے۔ عام آدمی سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ کیسا نظم و نسق ہے کہ ہفتے بھر کی بارش میں شہر ہی مفلوج ہوکر رہ جائے۔ کراچی کو نئی زندگی درکار ہے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب پوری دیانت اور لگن کے ساتھ محنت کی جائے۔ شہر کے طول و عرض کو نئے جذبے کے ساتھ نئے سانچے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہر سطح پر تجاوزات کا خاتمہ لازم ہے۔ ڈیڑھ دو سال قبل جب چائنا کٹنگ ختم کرنے کی کارروائی شروع کی گئی تھی تو ہنگامہ برپا ہوگیا تھا۔ اگر سرکاری مشینری کے لوگوں نے عوام کو دھوکا دیا ہو تو تھوڑی بھی اشک شُوئی کا اہتمام ضرور کیا جانا چاہیے؛ تاہم کرپٹ سرکاری افسران اور اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی اور انہیں سزا کا دیا جانا ناگزیر ہے۔ سٹیک ہولڈرز کو اب تو خوابِ غفلت سے بیدار ہو ہی جانا چاہیے۔ یہ اُن کی سیاسی بقا کا معاملہ بھی تو ہے۔ شہر کے سٹیک ہولڈرز ہونے کے دعویداروں کو کیا اب بھی اس بات کا یقین ہے کہ کچھ نہ کرنے پر بھی اُن کا ووٹ بینک برقرار رہے گا‘ لوگ بے وقوف بنتے رہیں گے‘ اُنہیں ووٹ دیتے رہیں گے؟ شہرِ قائد کے مکین یہ سمجھ رہے تھے کہ موسلا دھار بارشوں کے باعث پیدا ہونے والی شدید بحرانی کیفیت تازیانے کا کام کرے گی اور صوبائی و مقامی سطح کی حکومتیں اختلافات بھلاکر ایک پلیٹ فارم پر آجائیں گی‘ مل کر کام کریں گی۔ ہائے رے مقدر کہ شہرِ قائد کے مکینوں کا یہ سمجھنا بھی محض خوش فہمی کے سوا کچھ نہ تھا۔بلیم گیم اب بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ 
دوسری طرف پوائنٹ سکورنگ بھی جاری ہے۔ اس وقت سندھ حکومت شدید مخمصے کی حالت میں ہے۔ بارہ سال تک وہ مکمل آزاد رہی‘ کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ اب قدرت نے باز پرس شروع کی ہے۔ سندھ حکومت کی یعنی پیپلز پارٹی کی بارہ سالہ نام نہاد کارکردگی پر بارشوں نے پانی پھیر دیا۔ ایم کیو ایم کے بعد اب پیپلز پارٹی پر بھی وقت کا تازیانہ برس رہا ہے۔بارش کے دوران شہر کی حالت یہ تھی کہ کسی علاقے میں پھنس جانے والوں کو گھر تک پہنچنے میں سات آٹھ گھنٹے لگے! جب ایسی حالت ہو تو غیرت اور ضمیر کا جاگنا شرط ہے مگر یہاں تو ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ نام نہاد سٹیک ہولڈرز اب تک بلیم گیم میں مصروف ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے فرصت ملے تو پوائنٹ سکورنگ کے نام پر ہی سہی‘ کچھ تو کریں۔
کیا واقعی جاگنے کا وقت اب بھی نہیں آیا؟ ایم کیو ایم نے چار سال ضایع کر دیے۔ کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کا یہ آخری موقع تھا۔ ان چار برسوں میں تنظیم کے منتخب یعنی عوامی نمائندے کہیں دکھائی نہیں دیے۔ اگر انہوں نے تھوڑی بہت محنت کی ہوتی تو لوگ آج جیسے تیسے اُن کے گن گارہے ہوتے۔ لوگ مجبوری کی حالت میں خاموش رہیں تو اور بات ہے‘ ورنہ اُن کی یادداشت ایسی کمزور نہیں کہ احسان کرنے والوں کو بھول جائیں اور فراموش کر دینے والوں کو یاد رکھیں۔ مینڈیٹ دینے والوں کو نظر انداز کرنے والوں کو محتاط ترین الفاظ میں کیا کہا جا سکتا ہے؟
کراچی سمیت پورے سندھ کے روایتی سٹیک ہولڈرز کو سوچنا چاہیے کہ اُن سے کب کب، کہاں کہاں بے وفائی ہوئی ہے۔ اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے ہی سے ازالے اور اصلاحِ احوال کی کوئی صورت نکل پائے گی۔ اگر اب بھی انہوں نے بلیم گیم ختم نہ کی اور اقدامات کے نام پر پوائنٹ سکورنگ سے باز نہ آئے تو قدرت اپنا کھیل کھیلے گی اور پوری بازی پلٹ دے گی۔ کراچی کی بارشوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی تباہی نے ایک اور موقع عطا کیا ہے۔ اب تو عوام کی خدمت کا سوچ لیا جائے۔ اصلاحِ احوال کے لیے اب خوابِ غفلت سے جاگنا اولین شرط ہے۔ شہرِ قائد کو نئی زندگی دینے کے معاملے میں مزید کسی کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ اِس مقام پر کچھ نہ کرنے والوں کے لیے ناکامی اور رسوائی کے سوا کچھ نہ ملے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں