"MIK" (space) message & send to 7575

بڑے کردار کی تیاری

ایک بار پھر اشیائے خور و نوش کی قیمتیں عام آدمی کے لیے زندگی کا سب سے بڑا چیلنج بن کر رہ گئی ہیں۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم کے نرخ کیا کم تھے کہ اب اشیائے خور و نوش کی خریداری کو بھی انتہائی دشوار بناکر کسر پوری کی جارہی ہے۔ عام آدمی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ دو وقت کی روٹی کے اہتمام کا ہوا کرتا ہے۔ وہ اس سطح سے بلند ہو پائے تو زندگی کو بامقصد اور بارآور بنانے کے لیے کچھ کر پائے۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ عام آدمی کے لیے سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنا بھی دوبھر کردیا گیا ہے۔ وہ صبح سے شام تک اپنے اور اہلِ خانہ کا پیٹ بھرنے کی فکر ہی سے نجات نہیں پاسکتا تو زندگی کو سرفرازی سے ہم کنار کرنے کے بارے میں کہاں سے سوچے؟ حکومت کے بارے میں کوئی کچھ بھی کہتا پھرے، اس حقیقت سے بہرحال انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان اپنی تمام خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کی اپنی سی کوشش تو بہرحال کر رہے ہیں۔ اس وقت اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں جس تیزی سے اضافہ کیا گیا ہے‘ وہ بھی حکومت کے خلاف کرپشن مافیا کی سازش ہی معلوم ہوتی ہے۔ تنخواہ دار طبقہ حالات کی چکّی میں بُری طرح پس رہا ہے۔ وہ ہر ماہ کس طور اپنے اور اہلِ خانہ کے لیے کچھ کر پاتا ہے‘ یہ اُسی کو معلوم ہے۔ تنخواہ منجمد ہے اور مہنگائی بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں زندگی معیاری انداز سے بسر کرنے کی کوئی راہ نکلے تو کیسے نکلے؟
اس وقت معیشت کی ریگولیشن برائے نام ہے۔ بیشتر بڑے ادارے کسی بھی نوع کی پابندیوں اور حدود کا سامنا کیے بغیر کام کر رہے ہیں۔ ایک زمانے میں ملٹی نیشنلز کی لوٹ مار کا رونا رویا جاتا تھا۔ اب خیر سے اپنے والے بھی ایسے سفّاک ہوگئے ہیں کہ کچھ سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ جب بڑے اداروں پر قابو پانا ممکن نہ ہو تو انفرادی نوعیت کی معاشی سرگرمیوں پر کس طور قابو پایا جاسکتا ہے؟ یہی سبب ہے کہ ہر شخص من مانی کے سے انداز سے جی رہا ہے۔ کسی سے کوئی کام کرانا ہو تو وہ چاہتا ہے کہ سب کچھ ایک ہی فرد سے وصول کرلے۔ عام آدمی کی معاشی سرگرمیوں میں عمل کم اور پیچیدگی زیادہ ہے۔ بہت کوشش کرنے پر بھی اُسے کوئی نہیں سمجھا سکتا کہ ایک دوسرے کو لُوٹنا مسائل کا حل نہیں۔ ہنر مند چاہتے ہیں کہ کوئی ایک فرد اپنے معمولی سے کام کے عوض ہی اُسے پورے دن کی ممکنہ اُجرت سے نواز دے۔ ایسی کمائی میں برکت کہاں سے آئے گی؟ اب اگر کسی کو حلال کمائی اور اُس کے برکت کے بارے میں بتائیے تو وہ کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ حد یہ ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں دس بارہ گھنٹے معاشی سرگرمیوں کے لیے وقف کرنے ہوں تو بندہ چاہتا ہے کہ محض ڈیڑھ دو گھنٹے کام کرے اور پورے دن کی اُجرت پا جائے۔ ایسا کہاں ممکن ہوسکا ہے کہ یہاں ممکن ہو پائے گا؟
اہلِ سیاست کو اُچھل کود سے فرصت نہیں۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی بڑی جماعتیں کسی نہ کسی طور حکومت کو گرانے پر تُلی ہوئی ہیں۔ اُن کے ذہن میں صرف یہ تصور ہے کہ حکومت کا بوریا بستر گول کرنے سے تمام معاملات درست ہو جائیں گے اور اُن کی دِلی مراد بر آئے گی۔ سیاسی سرگرمیوں میں اگر تھوڑی سی تیزی دکھائی بھی دے رہی ہے تو محض ذاتی نوعیت کے مفادات کے تحت۔ سیاسی جماعتوں کے ریڈار پر عوام کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ عوام کے بنیادی مسائل کی بات کرنے والی جماعتیں خال خال ہیں۔ اس کا ایک انتہائی بنیادی سبب یہ ہے کہ مہنگائی کا سبب بننے اور اِس صورتِ حال سے جی بھرکے فائدہ اٹھانے والے تمام سیاسی جماعتوں میں ہیں۔
بظاہر کوئی بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ مہنگائی کا حد سے بڑھنا اور عام آدمی کا عمومی سطح پر جینے کے قابل بھی نہ رہنا قومی سلامتی و سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ یہی کیفیت ملک کی جڑیں کھوکھلی کیا کرتی ہے۔ مہنگائی کا حد سے گزرنا عوام کو شدید اضطراب سے دوچار کرتا ہے اور اِس اضطراب ہی کے بطن سے ملک دشمن طرزِ فکر و عمل پیدا ہوا کرتی ہے۔
ملک ایک بار پھر نازک موڑ پر ہے۔ ہمارے اربابِ بست و کشاد نے اب تک جو کچھ اس ملک سے کیا ہے‘ اُس کے نتیجے میں ہر موڑ نازک موڑ بن چکا ہے۔ قدم قدم پر ایسی الجھنیں ہیں جنہیں دور نہ کیا جائے تو مل کر بڑے بحران میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ ایک طرف چین ہے جو بیلٹ اینڈ روڈ اینی شی ایٹو کے تحت سی پیک منصوبوں میں پاکستان کو شریک کرکے پورے خطے کو بدلنا چاہتا ہے۔ ایک عظیم تجارتی شاہراہ کو عملی شکل دینے سے متعلق چین کی کوششیں اگر کامیابی سے ہم کنار ہوئیں تو پاکستان کو بھی کسی نہ کسی صورت فائدہ پہنچ ہی جائے گا۔ اور پھر یوں بھی ہے کہ ہمارے پاس اِس کے سوا آپشن کیا ہے۔ یہ تو ہوا چین کا معاملہ اور اِدھر ہم ہیں کہ ابھی تک بنیادی سہولتوں اور دو وقت کی روٹی کے معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔ ملک دشمن قوتوں نے ایک ایسا جال بچھادیا ہے جس سے نکلنا معمولی یا عمومی نوعیت کی کوششوں کے ذریعے تو ممکن نہیں۔ عام آدمی کے لیے جینا آسان کیے بغیر ہم قومی سطح پر کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔ سی پیک منصوبوں کی تکمیل کے لیے ایک ایسی قوم درکار ہے جو اپنے بنیادی مسائل حل کرچکی ہو، سیاسی و مسلکی اختلافات پر قابو پاچکی ہو۔ سرِدست ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ ملک دشمن قوتیں اپنا کام کر رہی ہیں۔ وہ ایک طرف تو عوام کا جینا دوبھر کرنے کے لیے بنیادی سہولتوں اور اشیائے خور و نوش کے دام نیچے نہیں آنے دے رہیں اور دوسری طرف فرقہ وارانہ کشیدگی کو بھی ہوا دی جا رہی ہے۔
چین کے عزائم سے ڈرایا جارہا ہے اور ڈرانے والے وہ ہیں جنہوں نے سات عشروں تک ہمیں لُوٹا ہے، ہمارے وسائل پر ہاتھ صاف کیا ہے اور ہمیں سیاسی و معاشرتی پستی کی دلدل میں بھی دھکیلا ہے۔ مغربی طاقتیں قدم قدم پر چین کو ایک بڑے عفریت یا ہَوّے کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔ یہ وہی مغربی قوتیں ہیں جنہوں نے کم و بیش چار صدیوں سے دنیا کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اور ہم ہیں کہ اُن کی ہر بات درست مان کر قبول کر رہے ہیں گویا آنکھوں دیکھی مکھیاں بخوشی نگلی جارہی ہیں۔ ہمارے خطے سمیت پوری دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ایسے میں ہمارا تبدیل ہونا بھی لازم ہے۔ چین نکل پڑا ہے اور ہماری خوش بختی یہ ہے کہ ہم اُس کی گُڈ بک ہی میں نہیں بلکہ بہت حد تک اُس کی ضرورت بھی ہیں۔ یہ تو ہمارے کے لیے دُہری نعمت جیسا معاملہ ہے۔ یہ وقت اندرونی کمزوریوں پر قابو پاکر چین، ترکی، روس اور دوسری ابھرتی ہوئی قوتوں کا بھرپور ساتھ دینے کا ہے تاکہ خطے کے معاملات بھی درست رہیں اور ہمیں کچھ نہ کچھ حاصل بھی ہوتا رہے۔ حکومت کو گرانے کی تحریک شروع کرنے کے بجائے اس کا ساتھ دے کر اُسے کسی بڑے علاقائی و عالمی کردار کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ وقت کی پکار ہے کہ اختلافات ایک طرف ہٹاکر صرف اور صرف قوم کے لیے سوچا جائے۔ اختلاف کی سیاست کرنے اور حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنے کی شہرت رکھنے والی جماعتوں کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔
ملک کی اندرونی و بیرونی الجھنوں کو یکسر نظر انداز کرکے ہر شعبے کے مافیاز میدان میں ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ عوام کو کسی نہ کسی طور لُوٹ کر اپنی تجوریاں بھرلی جائیں۔ وزیر اعظم اس حوالے سے کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ وہ چاہتے ہیں کہ عوام کی بنیادی ضرورت کی اشیا کے دام قابو میں رہیں۔ اس کام میں اُن کا ساتھ دیا جانا چاہیے۔ ملک نازک مرحلے میں ہے۔ اس مرحلے میں عوام کو پریشان کرنا اور پریشان رکھنا کسی بھی اعتبار سے قومی مفاد میں نہیں۔ عوام کو بنیادی سہولتوں کے اہتمام کی فکر سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اُن کی استعدادِ کار میں اضافہ ہو اور وہ ملک کے لیے کوئی بڑا، فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آسکیں۔ ملک ہنر مندوں سے بھرا پڑا ہے مگر وہ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ کیفیت جلد از جلد ختم کی جانی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں