"MIK" (space) message & send to 7575

کراچی منتظر ہے

چند ماہ قبل موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں کراچی کی جو درگت بنی تھی اُس کے بعد وفاق کو خیال آ تھا اور اُس نے شہر کو نئی زندگی دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان سے اہلِ شہر کو ایک بار پھر آرزوؤں‘ امنگوں اور امیدوں کی دنیا میں آباد ہونے کا موقع ملا۔ تب سے اب تک اہلِ کراچی منتظر ہیں کہ شہر کے لیے کچھ کیا جائے اور اُن کے مسائل حل ہوں۔ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے حال ہی میں اعلیٰ ترین سطح کا اجلاس بھی ہوا ہے۔ اس کے بعد 4 دسمبر کو کراچی میں وفاقی اور سندھ حکومت کا اجلاس ہوا جس میں ڈی جی آئی ایس پی آر بھی شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے شہر بھر کے چھوٹے بڑے نالوں کی صفائی‘ پانی کے منصوبوں اور دیگر معاملات کے بارے میں بتایا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے سندھ حکومت کے خدشات سے بھی وفاق کو آگاہ کیا۔ پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کو واپڈا کے حوالے کرنے کا معاملہ بھی اس اجلاس میں زیر بحث آیا۔ جب سے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا اعلان ہوا ہے تب سے اب تک وفاق اور سندھ کے درمیان مختلف حوالوں سے بیان بازی ہوتی رہی ہے۔ پہلے تو پوائنٹ سکورنگ پر زور رہا اور پھر ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے کی ہوا چلی۔ کراچی کو بہتر طرزِ زندگی یقینی بنانے کے لیے بنیادی سہولتیں درکار ہیں۔ مہنگائی کے باعث عام آدمی کے لیے زندگی کا معیار بلند کرنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ شہر اب تک مسائلستان کی سی کیفیت کا حامل ہے۔ قدم قدم پر مسائل ہیں اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ 
وفاق کو شکایت رہی ہے کہ سندھ حکومت بعض معاملات میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ سندھ حکومت کہتی ہے کہ وفاق کو کراچی میں زیادہ کھل کر کام کرنے کا حق حاصل نہیں کیونکہ کراچی صوبائی دارالحکومت ہے۔ سندھ حکومت کا موقف درست ہے مگر معاملہ یہ ہے کہ کراچی کو ترقی نہیں دی جائے گی تو وفاق ہی کچھ کرنے کے لیے آگے بڑھے گا۔ یہ نکتہ کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ سندھ حکومت کراچی کو صوبائی دارالحکومت کی حیثیت سے برت سکتی ہے‘ اپنی جاگیر کی حیثیت سے نہیں۔ اب تک معاملہ یہ رہا ہے کہ شہر کو ترقی دینے کے حوالے سے سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی۔ سندھ حکومت نے صرف کراچی کو نہیں بلکہ اندرونِ سندھ بھی بہت سے علاقوں کو نظر انداز کیا ہے۔ ان میں سندھی بولنے والوں کی اکثریت پر مشتمل وہ علاقے بھی شامل ہیں جو پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ 
کراچی کو ایسے بھرپور ترقیاتی عمل کی ضرورت ہے جس میں تنازعات اور مناقشے کم ہوں۔ کراچی سے متصل جزائر کو ترقی دینے کے معاملے پر بھی سندھ اور وفاق میں اختلافات ابھرے ہیں۔ سندھ حکومت کہتی ہے کہ وہ جزائر کو کسی بھی طور وفاق کے کنٹرول میں نہیں جانے دے گی۔ سوال یہ ہے کہ اب تک ان جزائر کو ترقی کیوں نہیں دی گئی۔ سندھ حکومت نے بعض معاملات میں اس بات کی بظاہر مخالفت کی ہے کہ کراچی کو وفاق کے تحت ترقی دی جائے۔ کئی منصوبے وفاق و سندھ کے اختلافات کے باعث اٹکے ہوئے ہیں۔ جزائر کو ترقی دینے سمیت بہت سے معاملات پر سندھ اور وفاق کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں مگر اس حقیقت پر کوئی بھی غور نہیں کر رہا کہ کئی طوفان ہمارے انتظار میں ہیں۔ شہرِ قائد اب تک اعلیٰ درجے کے نظم و نسق کی راہ دیکھ رہا ہے۔ سرِدست شہر کو چلانے والا نظام انتہائی کمزور ہے۔ لوگ وفاق کے وعدوں کو ایفاء ہوتے ہوئے دیکھنے کے متمنی اور منتظر ہیں۔ یہ تمنا اور انتظار کسی بھی درجے میں غیر منطقی نہیں۔ 
کراچی کے مسائل اب تک جوں کے توں ہیں۔ کراچی ٹرانسفا رمیشن پلان کے تحت شہر کو ترقی دی جائے گی تب معاملات کسی حد تک درست ہوں گے۔ یہ سب آسانی سے ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ کورونا کی وبا نے سب کی کمر توڑ دی ہے۔ افلاس اور بے روزگاری کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ شہر میں زندہ رہنے کی قیمت بڑھتی جارہی ہے۔ عام آدمی زندگی بھر صرف زندہ رینے کی قیمت چکاتا رہتا ہے۔ عدالت کے حکم پر سندھ حکومت نے کراچی میں سرکلر ریلوے چلانے کے نام پر حال ہی میں جو کام کیا وہ سنجیدگی کی سطح ظاہر کرتا ہے۔ شہر کو ماس ٹرانزٹ سسٹم کی اشد ضرورت ہے۔ لاکھوں افراد روزانہ اپنی گاڑی میں یا موٹر سائیکل کے ذریعے کام پر جاتے ہیں۔ ناگزیر ہوچکا ہے کہ انہیں کام پر جانے اور واپس آنے کی سستی اور معیاری سہولت فراہم کی جائے۔ شہر کو اب تک صفائی کا معیاری نظام مل سکا ہے نہ پانی کی فراہمی کا نظام ہی درست کیا جاسکا ہے۔ 
سپریم کورٹ کراچی میں ترقیاتی عمل شروع نہ کیے جانے اور عوامی مسائل حل نہ کیے جانے کا کئی بار نوٹس لے چکی ہے۔ سندھ حکومت کو کئی بار عدالتی سطح پر ہدایات دی گئی ہیں کہ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے اور بنیادی سہولتوں کا حصول یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ صوبائی حکومت ایک خاص حد تک جاگتی ہے اور پھر سو جاتی ہے۔ اختلافات اور مناقشے جان نہیں چھوڑ رہے۔ شہر کو ترقی دینے اور معیشت کو بہتر بنانے سے زیادہ زیادہ دھیان اپنے اپنے مفادات کو محفوظ تر بنانے پر دیا جارہا ہے۔ کراچی کے بنیادی مسائل حل کرنے اور اِسے حقیقی معنوں میں ترقی سے ہم کنار کرنے کے بارے میں خود آرمی چیف نے کراچی آکر بالواسطہ طور پر ضمانت دی تھی۔ انہوں نے کاروباری برادری کی سرکردہ شخصیات سے ملاقات کرکے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ کراچی کے بارے میں جو کچھ بھی سوچا جارہا ہے اس کی پشت پر فوج بھی کھڑی ہے! جو لوگ کراچی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں وہ اس بات کی ضمانت چاہتے ہیں ان کی سرمایہ کاری داؤ پر نہیں لگے گی۔ سندھ حکومت کراچی کو نئی زندگی دینے کی کوششوں کے حوالے سے اب تک جس نوعیت کی طرزِ فکر و عمل اختیار کیے ہوئے ہے اُسے دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ سرمایہ کار خدشات کا شکار ہیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ اعلیٰ ترین سطح سے ایسا ماحول یقینی بنانے کی کوشش کی جائے جس کے نتیجے میں سرمایہ کار بے فکر ہوکر آگے بڑھیں۔ 
اہلِ کراچی کو اس بات سے کچھ بھی غرض نہیں کہ اُن کے شہر کے لیے جو کچھ بھی کیا جانا ہے اُس کی پشت پر کون کون ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ اگر صوبائی حکومت مسائل حل نہیں کرتی تو وفاق آگے بڑھ کر معاملات کو سنبھالے۔ اور اب ایسا ہی ہورہا ہے۔ کراچی کے نزدیک جزائر کو ترقی دینے کے معاملے میں بھی ایسا ہی تو ہوا ہے۔ سندھ حکومت نے جب یہ دیکھا کہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعے جزائر کو ترقی دے کر قومی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرنے کے قابل بنانے کی منصوبہ سازی کی جارہی ہے تو اعتراضات کا آغاز کردیا گیا۔ اس سے بظاہر یہی مقصود ہے کہ کسی نہ کسی طور اپنے مفادات کو بھی محفوظ بنایا جاسکے۔ اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ اب وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ کراچی سمیت تمام بڑے شہروں کے لیے مقامی حکومت کا ایسا نظام لایا جارہا ہے جو ہر اعتبار سے آزاد و خود مختار ہوگا یعنی اپنے فیصلے خود کرسکے گا۔ یہ اعلان خاصا خوش آئند ہے۔
بڑے شہروں کو صوبائی سیٹ اپ کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جانی چاہیے۔ اہلِ کراچی کے لیے وزیر اعظم کا اعلان خاص طور پر بہت خوش آئند ہے کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ صوبائی حکومت بعض معاملات کو اٹکانے کے لیے بے تاب ہے۔ جزائر کو آباد کرنے اور ترقی دینے کے حوالے سے وفاق کی طرف سے جو کوششیں کی جارہی ہیں ان کی راہ میں دیوار کھڑی کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔ سندھ حکومت کہتی ہے کہ وفاق ان جزائر کو ہتھیا نہیں سکتا۔ وفاق کہتا ہے کہ جزائر کو ترقی دینے سے کراچی سمیت پورا صوبہ پھل پائے گا۔ سرمایہ بھی آئے گا اور روزگار کے بہتر اور زیادہ مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ بہر کیف‘ کراچی کے لیے جو کچھ بھی کیا جانا ہے جلد از جلد کیا جائے تاکہ خدشات ختم ہوں اور ترقی و استحکام یقینی بنانے کی فضا پیدا ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں