بھائی الیاس ایک مدت کے بعد ملے ہیں۔ کالج میں ہم ساتھ تھے۔ تب چار سال تک ایسا یارانہ رہا کہ اُن دنوں کی دل فریب خوشبو ایک ڈیڑھ عشرے تک سانسوں میں بسی رہی۔ کالج سے نکلنے پر عملی زندگی شروع کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو کچھ کرنا لازم ٹھہرتا ہے۔ عملی زندگی اصلاً چکّی واقع ہوئی ہے جو سب کچھ پیس کر رکھ دیتی ہے۔ عملی زندگی کسے معاف کرتی ہے جو ہمیں کرتی؟ جب ہم نے کالج میں قدم رکھا تھا تب اقبال انصاری، عامر پرویز، افضل حسین، فاروق، سید مقصود الحسن اور الیاس سے دوستی ہوئی۔ کیا لاجواب زمانہ تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بھری دنیا میں دُکھ دینے والا کوئی معاملہ ہے ہی نہیں۔ کالج کے شب و روز یوں گزرتے تھے کہ ایک ایک پل پوری زندگی کا لطف دیتا تھا۔ سکول اور کالج کا زمانہ انسان کے حافظے سے کبھی مٹتا نہیں۔ کوئی کتنی ہی اور کیسی کوشش کرلے، بچپن، لڑکپن اور عنفوانِ شباب کے زمانے کو اپنے حافظے سے کھرچ کر پھینک نہیں سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ اِن تینوں زمانوں کی تلخ یادیں بھی کچھ نہ کچھ مزا دے جاتی ہیں۔ اب سوچئے کہ یہ زمانے اچھے گزرے ہوں تو دل و دماغ کا کیا عالم ہوگا! ہمارا بھی یہی معاملہ ہے۔ تمام کلاس فیلو مجموعی طور پر مخلص اور ''بِنداس‘‘ تھے۔ ہر ایک کو اپنے سے زیادہ دوسروں کے مفاد کا خیال رہتا تھا اور اگر کوئی کچھ کہہ دے تو بُرا ماننے کا دورانیہ ڈیڑھ‘ دو گھنٹے سے زیادہ نہ ہوتا تھا۔ اُس دور کو گزرے تین دہائیوں سے زائد عرصہ ہو چلا مگر اب بھی کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم دوستوں کے ساتھ پارک میں بیٹھے گپ شپ لگارہے ہیں۔ کالج کے باہر نیم کا خاصا سال خوردہ اور گھنا درخت تھا۔ کالج کی عمارت بدل گئی ہے مگر یہ درخت اب بھی کھڑا ہے۔ کالج کے زمانے میں یہ طے کرنا خاصا دشوار ہوتا تھا کہ ہم کلاس روم کو زیادہ وقت دیتے تھے یا نیم کے درخت کو۔ کالج کی انتظامیہ نے ''پالیسی‘‘ کے تحت وہاں کوئی بینچ نہیں رکھا تھا اس لیے ہم اپنے احباب کے ساتھ نیم کے درخت کی چھاؤں میں کھڑے ہوکر بتیاتے تھے۔ ہمارے حلقۂ احباب میں الیاس اور مقصود الحسن کے ساتھ ساتھ نجیب احمد مرحوم بھی تھے جو بعد میں پی ایس ایف کے صدر بنے اور پھر قتل کردیے گئے۔ نجیب کی معیت میں سید مقصود الحسن بھی سیاسی رجحانات کے حامل ہوئے۔ اُن کی شخصیت بھی باغ و بہار تھی۔ نجیب احمد میں ''انقلابیت‘‘ بہت نمایاں تھی۔ ذرا سی بات پر بم کی طرح پھٹ پڑتے تھے۔ اُنہیں کنٹرول کرنے کی ہمت کم ہی لوگوں میں تھی جن میں مقصود الحسن بھی شامل تھے۔
اقبال انصاری، عامر پرویز اور افضل حسین سے تو خیر ایک طویل مدت تک دعا سلام رہی اور ملنا ملانا بھی ہوتا رہا۔ کالج کے زمانے کے دوستوں میں اب صرف عامر پرویز ہیں جن سے ہمارا محض ٹیلی فونک رابطہ ہی برقرار نہیں بلکہ ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ مقصود اب امریکا میں ہیں۔ ان سے فون پر رابطہ رہتا ہے۔ فاروق کاروباری برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور آج کل کراچی کے صنعتی علاقے میں ایک بڑا کاروباری ادارہ چلاتے ہیں۔ ان سے بھی رابطہ ہے۔ بھائی الیاس اسلام آباد میں سکونت پذیر ہیں اور پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ ڈیلنگ کا ہنر انہیں کالج کے زمانے میں بھی خوب آتا تھا۔ وہ حلقۂ احباب کے ہر رکن سے بہت اچھی طرح ڈیل کرتے تھے اور یوں سب کی آنکھوں کا تارہ تھے۔ ڈیڑھ سال قبل جب انہوں نے ہم سے ایک طویل مدت کے بعد رابطہ کیا تو دل کو ایسی خوشی ملی تھی کہ ہم کبھی بیان نہیں کرسکتے۔ تب سے اب تک بات ہوتی رہی ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے کالج کے زمانے کی ایک ایسی تصویر بھیجی جو ہمارے حافظے میں بھی نہیں تھی۔ کالج انتظامیہ ہمیں ایک بار پاکستان سٹیل کے مطالعاتی دورے پر لے گئی تھی۔ بھائی الیاس نے جو تصویر بھیجی وہ بس میں بیٹھنے کے بعد کی ہے۔ تصویر میں بھائی الیاس چین کی بنسی بجارہے ہیں اور ہمارا ''رُخِ پُرنور‘‘ ان کے عقب میں دکھائی دے رہا ہے۔ ہماری بیٹی صباحت بھی ہمارا کالج کے زمانے کا ''ورژن‘‘ دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور بھائی الیاس کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا۔ بھائی الیاس نے کالج کے زمانے سے خود بھی حِظ اٹھایا اور ہمارے لیے بھی حِظ اٹھانے کی گنجائش پیدا کی۔ بھائی الیاس کا داخلہ کھیلوں کی بنیاد پر ہوا تھا۔ ابتدا میں ہم یہ سمجھے کہ وہ صرف ہاکی پلیئر ہیں مگر بہت جلد معلوم ہوا کہ وہ تو فلوٹ پلیئر یعنی نَے نواز بھی ہیں۔ اُنہیں گانے کا بھی شوق تھا۔ خاصے سُریلے تھے اس لیے ہم ذرا سی فرصت ملنے پر اُن کے گرد جمع ہو جاتے تھے۔ فرمائش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کیونکہ ''ہر گھڑی تیار، کامران ہیں ہم‘‘ کے مصداق وہ ہمیں سُر سنگیت سے شرابور کرنے کے موڈ میں رہتے تھے۔ اُن کی دیکھا دیکھی مقصود بھی گانے کی طرف مائل ہوئے۔ بھائی الیاس ہم سے کچھ ناراض سے ہیں۔ یہ بات بھی امریکا سے مقصود کے ذریعے ہم تک پہنچی۔ انہوں نے بھائی الیاس کا موقف بیان کیا کہ وہ اول و آخر ہاکی پلیئر تھے۔ نَے نوازی اور گلوکاری اگر اُن کی زندگی کا حصہ تھی بھی تو ثانوی حیثیت میں۔ معاملہ یوں ہے کہ آج کل مقصود پاک و ہند کے مقبول ترین گانوں پر طبع آزمائی کر رہے ہیں اور طبع آزمائی کے نتائج سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ بھی کر رہے ہیں۔ ہم نے چند آئٹم سُن کر کہا کہ بھائی الیاس نے کالج کے زمانے میں گانے کے حوالے سے کئی احباب میں آتشِ شوق بھڑکائی تھی۔ اب معلوم ہوا ہے کہ بھائی الیاس کو یہ بات ''الزام‘‘ محسوس ہوئی ہے۔ ہم نے مقصود سے عرض کیا کہ کہو تو ہم اُن سے دست بستہ معذرت کرلیں۔ انہوں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں، بھائی الیاس کا غصہ کچھ دنوں رفع ہو جائے گا۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم میں اِتنی ہمت کہاں کہ دو چار دن بھی ان کی ناراضی برداشت کرسکیں۔
بھائی الیاس سے ہمارا تعلق خاصا سُریلا رہا ہے۔ ہم یہ برداشت کر ہی نہیں سکتے کہ یہ سُریلا تعلق کسی بھی نوعیت کے بے سُرے پن کی نذر ہو۔ جو دور ہمارے نصیب میں لکھا گیا ہے وہ ہے ہی ایسا کہ جو کچھ سلامت رہ جائے‘ وہ غنیمت ہے۔ اب نہ وہ دوستیاں رہیں اور نہ وہ دشمنیاں ہی بچی ہیں۔ ہر چیز مفادات کی چوکھٹ پر قربان کردی گئی ہے۔ کوئی اگر جوش و خروش سے ملے تو دل میں گمان سا گزرتا ہے کہ وہ کسی ضرورت کے ہاتھوں مجبور تو نہیں۔ اور اگر دوستی کے معاملے میں احتیاط برتی جائے تو لوگ مغرور سمجھنے لگتے ہیں! یادیں خواہ کسی دور کی ہوں، ہمارا سب سے بڑا ذاتی سرمایہ ہوتی ہیں۔ بچپن کی یادیں انسان کے حافظے سے کبھی حذف نہیں ہوتیں۔ ان یادوں کے گرد تانا بانا بُن کر ہی ہم اپنے لیے بہت سے حسین تصورات قائم کرتے ہیں۔ اور کالج کے حسین زمانے کی یادیں...؟ اِنہیں تو یادوں کا درجۂ کمال یا زندگی کا حاصل کہیے۔ بچپن کی طرح لڑکپن (سکول) اور ابتدائے عہدِ شباب (کالج) کے زمانے ہمارے حافظے کی زمین میں کھونٹوں کی طرح گڑے رہتے ہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے، اِن زمانوں کی حسین و دل فریب غلامی سے خود کو آزاد کرا نہیں سکتا۔ اور ایسی کوئی کوشش کرنی چاہیے بھی نہیں۔ سید مقصود الحسن کا مشورہ اپنی جگہ مگر ہم چاہیں گے کہ بھائی الیاس کی ناراضی کا دائرہ وسعت اختیار نہ کرے۔ ہمارے کون سے سو‘ دو سو دوست ہیں۔ لے دے کر آٹھ دس احباب ہیں جن سے ہم صرف بتیاتے ہی نہیں بلکہ تھوڑا بہت فری بھی ہولیتے ہیں۔ زندگی نے جو پوٹلے سَر پر دھرے ہیں وہ تو ہم بخوشی ڈھولیتے ہیں مگر بخدا دوستوں کی ناراضی کا بوجھ کسی صورت اٹھایا نہیں جاتا۔ بھائی الیاس شوق سے گائیں اور جتنوں کو چاہیں اِس شوق کے ساحل پر لاکر ڈبوئیں مگر خدارا ہمیں ''جا، میں تو سے ناہی بولوں‘‘ کے تالاب میں غوطے کھانے پر مجبور نہ کریں۔ عملی زندگی نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا ہے اور ہم ہر خسارہ جھیل گئے ہیں مگر دوست وہ اثاثہ ہیں جس سے محروم ہونے کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔