مودی سرکار نے تو جیسے ملک کا بیڑہ غرق کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کے لیے اقتدار ہی سب کچھ ہے۔ اُنہیں اِس بات سے کچھ بھی غرض نہیں کہ اقتدار کو برقرار رکھنے بلکہ طُول دینے کے عمل میں ملک و قوم پر کیا گزرتی ہے، پورے ریاستی ڈھانچے کا کیا بنتا ہے۔ نفرت کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنے والی جماعتیں ایسے ہی گُل کھلایا کرتی ہیں۔ بھارت میں کسانوں کا احتجاج کئی ماہ سے جاری ہے۔ ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں نے پُرانی دِلّی پر دھاوا بول رکھا ہے۔ اتر پردیش اور دیگر ریاستوں سے بھی ''ریاست زدہ‘‘ کسان بڑی تعداد میں آکر احتجاج میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ بھارت بھر کے کسان پریشانی سے دوچار ہیں۔ قرضوں میں ڈوبے ہوئے کسانوں کی خودکشی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، گجرات اور مہاراشٹر کے کسان بھی شدید مشکلات سے دوچار ہیں اور ایک عرصے سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ امتیازی نوعیت کے زرعی قوانین منسوخ کرکے ایسے قوانین لائے جائیں جن کی مدد سے کسانوں کا جینا آسان بنایا جاسکے۔
26 جنوری کو بھارت میں یومِ جمہوریہ منایا جاتا ہے۔ اب کے واقعی یومِ جمہوریہ منایا گیا کیونکہ جمہور (کسانوں) نے لال قلعے پر دھاوا بول کر وہاں اپنی انجمنوں کے اور مذہبی پرچم لہرادیے۔ پرچم وہاں لہرائے گئے جہاں صدر و وزیر اعظم ہر سال 26 جنوری اور 15 اگست کو قومی پرچم لہراکر قوم سے خطاب کرتے ہیں۔ اقوام کی زندگی میں ہر معاملے کو علامتی انداز سے دیکھا جاتا ہے۔ بھارتی یومِ جمہوریہ کے موقع پر احتجاج کرنے والے کسانوں کا لال قلعے پر دھاوا بول کر وہاں اپنی انجمنوں کے اور مذہبی پرچم لہرانا کتنا علامتی ہے‘ یہ بات سیاست کا ہر طالب علم اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔
کسان مزدور سنگھرش کمیٹی نے 26 جنوری کے حوالے سے حکومت کے دیے ہوئے ٹائم ٹیبل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ویسے تو کسان اگست سے احتجاجی دھرنے دے رہے تھے مگر دِلّی کے داخلی راستوں پر کسانوں کا دھرنا 26 نومبر کو شروع ہوا تھا۔ حکومت چاہتی تھی کہ یومِ جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کو احتجاج سے روکا جائے مگر سپریم کورٹ نے کسانوں کے حقِ احتجاج کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت سے کہا تھا کہ وہ کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرے۔ یومِ جمہوریہ پر جب احتجاجی کسانوں نے لال قلعے کی طرف بڑھنا شروع کیا تب وسطی دِلّی میں پولیس ایکشن کے دوران ٹریکٹر الٹنے سے ایک کسان شدید زخمی ہوا اور موقع ہی پر دم توڑ گیا۔ اس کے بعد کسان بے قابو ہوگئے اور لال قلعے پر چڑھائی کردی۔ مشتعل کسانوں نے لال قلعے کے گنبد پر سے بھارتی پرچم اُتار پھینکا اور خالصتان کا پرچم ''نشان صاحب‘‘ لہرادیا۔ احتجاجی کسان کہتے ہیں کہ ہم نے حکومت کو پیغام دے دیا ہے۔ کسان چاہتے ہیں کہ حکومت تین متنازع زرعی قوانین ختم کرکے اُن کی جگہ معتدل اور متوازن قوانین لائے۔ کسان یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے حکومت کو پیغام دے دیا ہے مگر حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی پیغام کو وصول کرنے یعنی سُدھرنے پر آمادہ نہیں۔ مودی سرکار کو تو کسانوں سے ضد سی پڑی ہے۔
راہل گاندھی نے ایک ٹویٹ میں کسانوں سے پُرامن رہنے کی اپیل کرنے کے ساتھ ساتھ مودی سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ قوم کے بہترین مفاد میں کسان دشمن قوانین واپس لیے جائیں اور ایسے قوانین وضع کیے جائیں جن سے کسانوں کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے اور ان کے مسائل حل ہوں۔ کانگریس اور دیگر جماعتیں کئی ماہ سے حکومت پر زور دیتی آئی ہیں کہ کسانوں کے احتجاج کو خطرناک شکل اختیار کرنے سے روکنے کے لیے ان کی بات سُنے اور اُن کی تشفّی کی خاطر ضروری اقدامات کرے۔ سَمُیکت کسان مورچہ کا موقف ہے کہ 6 ماہ سے کئی ریاستوں کے کسانوں کا احتجاج جاری ہے اور 2 ماہ سے ہم دہلی کے داخلی راستوں پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ساری خرابی اِس بات سے پیدا ہوئی ہے کہ مودی سرکار نے مسائل پوری توجہ سے سُنے ہی نہیں، اُنہیں ماننا اور حل کرنا تو بہت بعد کا مرحلہ ہے۔ بھارت نے کم و بیش تین عشروں تک پڑوسی ممالک کا ناک میں دم کیا۔ سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش تو بغل بچے کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ تینوں محلِ وقوع اور طاقت کے نقطۂ نظر سے اس قابل ہی نہیں کہ بھارت کو منہ توڑ جواب دے سکیں۔ نئی دہلی کو جواب دینے کی طاقت اگر ہے تو اسلام آباد میں۔ پاکستان کو بھی بھارت نے اب تک خاصا نقصان پہنچایا ہے؛ تاہم ایسی پوزیشن میں نہیں لاسکا کہ ہمت ہاری جائے، تھک ہار کر اُس کی بالا دستی قبول کرلی جائے۔ مودی سرکار اب تک تو خطے کے مظلوموں کی بد دعاؤں اور دُہائیوں کا نتیجہ ثابت ہوئی ہے۔ بھارت ایک زمانے سے خطے کی سب سے بڑی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین کے ہوتے ہوئے ایسا کر پانا اُس کے لیے ناممکن سا ہے۔ کئی عشروں کی محنت کے نتیجے میں بھارت نے اپنے لیے عالمی سیاست و معیشت میں تھوڑی بہت گنجائش پیدا کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار نے یہ گنجائش ٹھکانے لگانے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔
بھارت میں لسانی، ثقافتی اور مذہبی نیرنگی غیر معمولی ہے۔ بہت سی خرابیوں اور تنازعات کے باوجود مختلف اور متضاد پس منظر سے تعلق رکھنے والے بھارت میں صدیوں سے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ 1947ء میں پاکستان کے قیام کی شکل میں بھارت کو ایک ایسا زخم کھانا پڑا جس کا مندمل ہونا آسان نہ تھا مگر حیرت انگیز امر ہے کہ بھارت کے بیشتر قائدین نے ملک کو انتہا پسندی اور مذہبی بنیاد پر پھیلائی جانے والی منافرت کی طرف جانے نہیں دیا۔ چند عشروں تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا۔ اِس کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتہا پسند جماعتوں اور تنظیموں کے ٹولے ''سنگھ پریوار‘‘ کی مدد سے اقتدار کے ہر مآخذ پر قبضہ کرنا شروع کیا تاکہ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کی منزل کی طرف لے جایا جاسکے۔
اس وقت احتجاج کرنے والے کسانوں میں سکھ نمایاں ہیں۔ ان کا جوش و جذبہ مثالی ہے۔ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر جھکنے یا ہار ماننے کا اشارہ نہیں دیا۔ یوں کسانوں کا احتجاج اب مودی سرکار کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ پنجاب اور ہریانہ میں صورتِ حال خاصی دھماکا خیز ہے۔ امتیازی نوعیت کے قوانین سے تنگ آئے ہوئے کسانوں کا تحمل جواب دے چکا ہے۔ وہ اب کسی فیصلے تک پہنچنے ہی کے لیے میدان میں نکلے ہیں۔ مودی سرکار سے وابستہ شخصیات کی بے عقلی معاملات کو خطرناک حد تک بگاڑ سکتی ہے۔ نریندر مودی نے اب تک کم و بیش تمام ہی اہم معاملات میں شرمناک حد تک ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ملک کے اہلِ دانش سمجھا سمجھاکے تھک چکے ہیں مگر نریندر مودی کچھ سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ اُنہوں نے پہلے مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کی لہر پیدا کی۔ اس لہر پر چڑھ کر انتہا پسند ہندوؤں نے ملک بھر میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا۔ اس سے بہت پہلے بھی مسلمانوں کو ستایا جاچکا تھا؛ تاہم بعد میں مسیحیوں اور سکھوں کو نشانے پر لینے کا عمل شروع کیا گیا۔ پھر مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ ہنگامی حالت نافذ کرکے پوری مقبوضہ وادی کو باقی دنیا سے کاٹ دیا گیا۔ یہ سب کچھ عالمی برادری میں بھارت کو مطعون ٹھہرانے کے لیے کافی ہے۔ مودی سرکار کی جانبدارانہ اور انتہائی منافرت آمیز پالیسیوں کے باعث بھارتی معاشرے پر مرتب ہونے والے شدید منفی اثرات اب واضح ہوتے جارہے ہیں۔ مودی سرکار نے کسانوں کو ناراض کرکے اپنے لیے کسی حد تک تو قبر کھود ہی ڈالی ہے۔ مودی سرکار کے لیے فیصلے کی گھڑی آچکی ہے۔ پالیسیوں کے معاملے میں اُسے پسپائی اختیار کرنا پڑے گی۔ نریندر مودی اور اُن کے ٹولے نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو بہت دیر ہو جائے گی اور خرابیوں کا سلسلہ روکنا اُن کے بس کی بات نہ رہے گا۔ نریندر مودی اور اُن کے ساتھی شاید بھول گئے تھے کہ منافرت کی آگ اپنے بھڑکانے والے کو بھی خاکستر کرنے سے گریز نہیں کرتی۔