قوم مسائل میں گھری ہوئی ہے اور جو قوم کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں وہ کچھ کرنے پر مائل ہی نہیں ہوتے۔ ایک تماشا لگا ہوا ہے اور جنہیں اِس تماشے کے موزوں ڈراپ سین کا اہتمام کرنا ہے وہ محض تماش بین کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بے حسی کی چادر تانی ہوئی ہے اور یہ چادر اُتارنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جارہا۔ کہیں کوئی صاحب چلتے چلتے دل تھام کر سرِ راہ گر پڑے۔ کسی نے آواز لگائی ۹کہ یہاں کوئی ڈاکٹر ہے؟ ایک صاحب آگے بڑھ کر بولے ہاں میں ہوں ڈاکٹر! کیا ہوا؟ بتایا گیا کہ ان صاحب کو دل کا دورہ پڑا ہے شاید۔ وہ صاحب بولے: معاف کرنا بھائی! میں فلسفے کا ڈاکٹر ہوں! وہ شخص بولا: یہ صاحب موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ ''ڈاکٹر‘‘ نے کمالِ استغنا کے ساتھ انتہائی عالمانہ و فلسفیانہ لہجے میں کہا: کون سی نئی بات ہے، ہم سبھی مرنے والے ہیں کہ یہ دنیا کسی کے لیے ابدی قیام گاہ نہیں۔
اِسے کہتے ہیں ماروں گھٹنا پُھوٹے آنکھ۔ آپ کہیں زمین کی اور کوئی سُنے آسمان کی۔ مسئلہ کچھ اور اُس کا حل کچھ۔ پاکستانی قوم کا یہی تو بنیادی مسئلہ، المیہ اور مخمصہ ہے کہ اُس کے مسائل کو اوّل تو کوئی سمجھتا نہیں اور اگر سمجھ لے تو اُن کے حل کی طرف مائل نہیں ہوتا اور اگر مائل ہو تب بھی جو حل درکار ہے وہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ دل بیٹھا جارہا ہے اور دوا دی جارہی ہے ہاضمہ درست کرنے۔ تکلیف جگر میں ہو تو گردوں کا علاج تجویز کیا جاتا ہے۔
ملک و قوم پر ایک زمانے سے عجیب بے دِلی سی چھائی ہوئی ہے۔ شش و پنج کی کیفیت ہے کہ جان نہیں چھوڑتی۔ اوّل تو حوصلے ماند پڑے ہوئے ہیں۔ کسی کو تحریک دینے کی کوشش کیجیے تو ٹس سے مس نہیں ہوتا اور اگر کوئی کچھ کرنے پر مائل بھی ہو تو پہلے اُس کے ذہن سے کچرا نکالنا پڑتا ہے۔ یاروں نے ٹھان رکھی ہے کہ اوّل تو کچھ کرنا نہیں اور اگر کچھ کرنے کا ذہن بن بھی جائے تو شرحِ صدر کی منزل سے دور رہنا ہے تاکہ کچھ کرنا ہی نہ پڑے۔ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ جنہیں دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنی بیماریوں کا بھی ٹھیک سے علم نہیں اور علاج کا کچھ تجربہ نہیں وہ معالج بن بیٹھے ہیں۔ قوم کی رہنمائی پر وہ‘ از خود نوٹس کے تحت‘ مامور ہیں جنہیں اب تک راہ شناخت کرنے کا شعور بھی عطا نہیں ہوا، جن کا اپنا وجود سر بسر کجی سے عبارت ہے‘ انہوں نے قوم کے دل و دماغ کی ٹیڑھ دور کرنے پر کمر باندھ رکھی ہے۔ ایک زمانے سے معاملہ یہ ہے کہ قوم مسیحا تلاش کر رہی ہے اور جنہیں مسیحا بننے کا خبط ہے وہ ذاتی مفادات کی چوکھٹ پر خود کو قربان کیے جارہے ہیں۔ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ فطری علوم و فنون کی بے مثال پیش رفت نے ایسا بہت کچھ ممکن بنادیا ہے جو ابھی کل تک کم و بیش جادو کے زُمرے میں تھا۔ دو ڈھائی صدی پہلے کے کسی انسان کو اگر آج کچھ دیر کے لیے پھر زندگی ملے تو زندگی کو سو طرح کی آسائشوں سے مزیّن دیکھ کر وہ حیرت سے مر جائے۔بات کچھ یوں ہے کہ انسان نے اپنے لیے عجیب راستے چُن لیے ہیں۔ ایک طرف تو مسائل ہیں جنہیں حل کرنا لازم ہے اور دوسری طرف اُن مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنے والے اُنہیں زیادہ سے زیادہ پیچیدہ بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ع
کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ تماشا کیا ہے
لطیفہ سمجھیے یا ستم بالائے ستم، قصہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنے مسائل کے ہاتھوں پریشان ہیں اور اُن کا حل چاہتے ہیں وہ بھی جب مسائل کی پیچیدگی میں اضافہ دیکھتے ہیں تو مزید پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ صورتِ حال سے حِظ اٹھانے کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ جب مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی تو متعلقین اُن مسائل میں گھرے رہنے ہی کو تفریحِ طبع کا ذریعہ قرار دے لیتے ہیں۔ یہ قوم ہر اُس معاملے پر ہنستی ہے جس کے حوالے سے دوسری اقوام کے لوگ جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایک دور تھا کہ بد عنوانی کے مرتکب ہر انسان کو شدید نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ جس کے بارے میں یقین ہو جاتا تھا کہ وہ ناجائز دولت کمارہا ہے اُس سے میل جول رکھنے میں قباحت محسوس کی جاتی تھی اور کوشش ہوتی تھی کہ اُس سے زیادہ تعلق نہ رکھا جائے۔ وقت گزرتا گیا اور بد عنوانی کے ذریعے زندگی کا ''معیار‘‘ بلند کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ معاملات اب مفاہمت و مصالحت کی منزل میں ہیں یعنی جن کے بارے میں سو فیصد بھی یقین ہو کہ جعل سازی یا رشوت کی کمائی کھارہے ہیں اُن سے میل جول میں ذرّہ بھر قباحت محسوس نہیں کی جاتی اور اِس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ جن کی ناجائز کمائی بہت زیادہ ہو‘ اُن سے میل جول بڑھانے میں دلچسپی بھی لی جاتی ہے تاکہ اُس کمائی میں سے کچھ اِدھر بھی آتا رہے۔ جو لوگ خود ناجائز نہیں کماتے وہ بھی کسی کی ناجائز آمدن سے کچھ وصول کرنے میں الجھن محسوس نہیں کرتے۔ ؎
وائے ناکامی، متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
جنہیں اللہ نے اس قوم کے معاملات درست کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے وہ اِس طرف ذرا بھی متوجہ نہیں۔ اُنہیں صرف اختیارات سے غرض ہے۔ جو کچھ کرنا ہے اُس کے بارے میں سوچنے کی انہیں فرصت نہیں۔ اور اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تو ہے کہ قوم اُن سے کچھ پوچھتی ہے نہ حساب طلب کرتی ہے۔ معاملہ سیاست دانوں کا ہو یا افسر شاہی کا، لوگ اطمینان سے بیٹھے ہیں۔ سیاست کا معاملہ یہ ہے کہ پانچ عشروں سے بھی زائد مدت سے جو منتخب ایوانوں میں آتے رہے ہیں وہی آج بھی آرہے ہیں۔ سیاست خانوادوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی ہے۔ نام نہاد سیاسی جماعتیں بھی اپنی اصل میں تو خانوادے ہی ہیں۔ یہ خانوادے ایسا کچھ بھی کیوں کرنے لگے جس سے قوم کے مسائل حل ہوں اور اُن کے لیے اقتدار کے مزے مزید لُوٹنے کی گنجائش گھٹے؟ اور دوسری طرف ریاستی مشینری ہے جو کچھ بھی نہیں کر رہی، یہ مشینری بھی اب خانوادوں کی سی شکل اختیار کر چکی ہے۔ سیاست دان کا بیٹا سیاست دان بنتا ہے تو افسر کا بیٹا بھی افسر بنتا ہے۔ عام آدمی کو تو بس یہ تماشا دیکھتے رہنا ہے اور ذرا آگے بڑھ کر داد بھی دینا ہے۔ کسی بھی معاشرے پر جب بے حسی محیط ہو تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ عام آدمی جب اپنے مسائل حل نہیں کرسکتا یا اختیار و وسائل رکھنے والے متعلقین کو اِن مسائل کے حل کی تحریک نہیں دے سکتا تو اُن سے حِظ اٹھانا شروع کر دیتا ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی نے خوب کہا ہے ؎
بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا
ایسے میں اگر کسی کو اُس کے مسائل یاد دلائیے، اُن کے موثر حل کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کیجیے تو سادہ سا جواب ملتا ہے کہ اب کیا ہوسکتا ہے اور کیا ہوگا۔ عام آدمی حالات کے آگے سپر ڈال چکا ہے۔ ولولے کو خیرباد کہتے ہوئے پژمردگی کو اپنالیا گیا ہے۔ بے حسی کی گہرائی و گیرائی بڑھتی جاتی ہے۔ ایسی ہی حالت کو بیان کرتے ہوئے اقبالؔ نے حل بھی تجویز کیا تھا ؎
دلِ مردہ دل نہیں ہے، اِسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے اُمتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
بے حسی کسی بھی اعتبار سے زندگی بھر کے لیے اپنایا جانے والا معاملہ نہیں۔ اِس کا علاج سبھی کو کرنا ہے اور اچھا ہے کہ یہ علاج مل کر کیا جائے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ع
بے حسی کی چوکھٹ ہے اور سر ہمارے ہیں
یہ کیفیت جلد از جلد ختم ہونی چاہیے۔ کسی بھی بڑی خرابی کا احساس ہو جائے تو اُس کی تفہیم لازم ہے اور تفہیم کی منزل سے گزرنے کے بعد اُس خرابی کو برداشت کرتے رہنا اپنے وجود سے غداری ہے۔ ہمیں خرابیوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے خلق نہیں کیا گیا۔ خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کے معاملے میں تاخیر کے طعنے سے ڈرنا منع ہے۔