"MIK" (space) message & send to 7575

یہی تو عمر ہوتی ہے

طٰہٰ عاطف پندرہ سال کا ہے، یہ عمر پڑھنے کی ہوتی ہے، طٰہٰ بھی پڑھتا ہے مگر معاملہ صرف پڑھائی تک محدود نہیں۔ وہ کام بھی کرتا ہے۔ ایک سٹور پر سیلزمین کی حیثیت سے ملازمت کرنے کے ساتھ ساتھ طٰہٰ گھر کے امور کا بھی خیال رکھتا ہے۔ چھوٹی بہن اور اُس سے چھوٹے بھائی کی نگرانی بھی کرتا ہے اور پڑھائی میں اُن کی مدد بھی کرتا ہے۔ ہمارے ہاں دیہی معاشرے میں تو بچوں کو بھی کام پر لگالیا جاتا ہے مگر شہروں میں یہ رجحان عام نہیں۔ شہری زندگی کا عمومی چلن یہ ہے کہ بچے گریجویشن تک بچے ہی رہیں یعنی اُنہیں عملی زندگی کی ''بھٹی‘‘ میں نہ جھونکا جائے۔ عام تصور یہ ہے کہ چھوٹی عمر میں کام پر نہ لگایا جائے اور کوئی ہنر بھی نہ سکھایا جائے۔ کالج تک کی زندگی کو حِظ اٹھانے کی عمر تصور کیا جاتا ہے۔ اگر کسی سے کہیے کہ بچے کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ کوئی ہنر بھی سکھلائیے تو جواب ملتا ہے ایسی بھی کیا جلدی ہے، ذرا پڑھائی مکمل کرلے تو کوئی کام بھی سیکھ ہی لے گا۔ سکول اور کالج کی زندگی سے پورا لُطف اٹھالے‘ اِس کے بعد مرتے دم تک کام ہی تو کرنا ہے۔ جب والدین کی طرف سے ایسی ''ماہرانہ رائے‘‘ سننے کو ملتی ہے تو مشورہ دینے والے کے پاس چُپ سادھ لینے کے سوا چارہ نہیں رہتا۔
دنیا بھر میں عمومی رجحان یہ ہے کہ بچہ جیسے ہی ہوش سنبھالے اور معاملات کو سمجھنے لگے تب اُسے عملی زندگی کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ اگر کسی گھرانے کو مالی مشکلات کا سامنا نہ بھی ہو تو لازم سمجھا جاتا ہے کہ بچے کو عملی زندگی سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ عملی زندگی میں رونما ہونے والے معاملات سے کماحقہٗ واقف ہو جائے۔ فی زمانہ بچوں میں ''باخبری‘‘ کی سطح بہت بلند ہے۔ تین چار عشرے پہلے کم و بیش 20 سال کی عمر میں جو سمجھ بوجھ پیدا ہوتی تھی وہ اب آٹھ دس سال کی عمر میں پیدا ہو جاتی ہے۔ بچے وقت سے پہلے بڑے ہو رہے ہیں۔ عملی زندگی میں جس نوعیت کی دانائی درکار ہوتی ہے وہ آج کے بچوں میں بہت چھوٹی عمر سے دکھائی دینے لگتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بچے عملی زندگی کے لیے بہت چھوٹی عمر سے تیار ہونے لگتے ہیں۔ ایسے میں اگر اُنہیں کچھ کر دکھانے کے لیے موزوں ترین مواقع نہ ملیں تو ذہن الجھ جاتے ہیں۔ جو دانائی کسی حد تک پنپ چکی ہو وہ توجہ کے ساتھ ساتھ اظہار کا موقع بھی چاہتی ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بچپن اور لڑکپن بنیادی طور پر اس لیے ہوتے ہیں کہ اُن سے محظوظ ہو جائے۔ زندگی میں بہت رنگینی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رنگینی بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں اگر بچوں کو عملی زندگی کی پگڈنڈی پر چلنے کو کہا جائے تو؟ ایسا کرنا بظاہر انصاف نہیں، لیکن اگر زمینی حقیقتوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے سوچا جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ فی زمانہ کسی بھی بچے کو چھوٹی عمر سے بھرپور زندگی کے لیے تیار کرنا حقیقی دانش مندی ہے۔ اب کوئی بھی بچہ خاصی چھوٹی عمر سے ماحول آشنا ہو جاتا ہے اور بہت سے معاملات اُسے سمجھانے بھی نہیں پڑتے۔ ایسے میں لازم ہے کہ اُسے عملی زندگی کے لیے بھی چھوٹی عمر ہی سے تیار کرنا چاہیے۔ عام آدمی مالی مشکلات سے دوچار رہتا ہے مگر اپنی اولاد کو سہارا بنانے پر متوجہ نہیں ہوتا۔ کراچی جیسے بڑے اور مواقع سے بھرے ہوئے شہر میں عمومی چلن یہ ہے کہ بیس بائیس سال کی عمر تک کچھ کرنے کو کہا نہیں جاتا۔ بچہ جب سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہوئے لڑکپن کی حدود سے نکل کر شباب کے میدان میں قدم رکھتا ہے تب اُسے کچھ کر دکھانے اور ''یافت‘‘ (آمدن) یقینی بنانے کے لیے موزوں پلیٹ فارم اور موقع کی تلاش ہوتی ہے۔ یہ موقع اگر موزوں وقت پر نہ ملے تو ذہن الجھنے لگتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ خاصی بڑی عمر میں عملی زندگی شروع کرنے والے یعنی گھر کے لیے کمانے کی خاطر میدان میں آنے والوں کو محض الجھنوں ہی کا سامنا نہیں ہوتا بلکہ وہ مسابقت کو بھی اچھی طرح سمجھنے اور اُس سے کماحقہٗ نمٹنے کی اہلیت پیدا کرنے میں اِتنی مشکلات محسوس کرتے ہیں کہ بسا اوقات بہت ہاتھ پاؤں مارنے پر بھی ابتدائی مراحل میں شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عام آدمی اپنے بچوں کو عملی زندگی کے لیے موزوں مرحلے میں تیار کرنے پر توجہ نہیں دیتا جبکہ ایسا کرنا اُس کے لیے لازم ہوتا ہے کیونکہ اُسے گھر بہتر طور پر چلانے کے لیے اضافی آمدن درکار ہوتی ہے جو اولاد کے ذریعے ہی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ یہ تو ہوئی اُن کی بات جن کے لیے مالی مشکلات بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کی دولت کا کچھ حساب ہی نہیں۔ آپ سوچیں گے اُن کے بچوں کو تو کچھ کمانے کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ کا ایسا سوچنا کچھ غلط نہیں کیونکہ پیسہ کمانا اُن کا مسئلہ نہیں۔ اگر کاروبار جما ہوا ہو تو پیسہ آتا ہی چلا جاتا ہے۔ غیر معمولی سطح پر دولت کے حامل افراد یا گھرانوں کے لیے بنیادی مسئلہ دولت کمانا نہیں بلکہ مالی حیثیت برقرار رکھنے کا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بے حد مالدار افراد اپنے بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے عملی زندگی کی ''بھٹی‘‘ میں جھونکتے ہیں! خالص کاروباری گھرانے اپنی اولاد کی تعلیم کے دوران تربیت کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ اپنے بچوں کو اٹھتی جوانی میں بہت کچھ سونپنا کاروباری افراد یا گھرانوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ اُن کا بنیادی مسئلہ دولت کمانا نہیں بلکہ اُسے بچانا اور پروان چڑھانا ہوتا ہے۔ جو کچھ اُنہوں نے عشروں کی محنت شاقّہ سے حاصل کیا ہو اُسے برقرار رکھنے اور آگے بڑھانے کے لیے لازم ٹھہرتا ہے کہ اولاد کو چھوٹی عمر سے تیار کیا جائے اور لڑکپن کی حدود سے نکل کر عنفوانِ شباب کی حدود میں قدم رکھتے ہی اُن سے کام لیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ عام آدمی کے برعکس کاروباری گھرانوں کی اولاد خاصی چھوٹی عمر سے دکان پر یا دفتر و کارخانے میں محض دکھائی ہی نہیں دیتی بلکہ کچھ نہ کچھ کر بھی رہی ہوتی ہے۔
بچپن کا دور مکمل ہوتے ہی اگر کسی کو ہنر مند بنانے یا کمانے کے قابل بنانے پر توجہ دی جائے تو اُس میں احساسِ ذمہ داری بھی تیزی سے پنپنے لگتا ہے۔ اپنے زورِ بازو سے کمائی ہوئی دولت انسان میں عجیب طرح کا اعتماد پیدا کرتی ہے۔ بارہ سے پندرہ سال کی عمر کے دوران کوئی ہنر سیکھنے یا کسی دکان پر لوگوں سے معاملات طے کرنے کا فن سیکھنے والوں میں غضب کا اعتماد پیدا ہوتا ہے جو مرتے دم تک کام آتا رہتا ہے۔ اپنی محنت سے کمانے کا لطف اگر چھوٹی عمر سے حاصل ہو تو کیا کہنے۔ ایسے میں انسان بڑی زندگی کے لیے زیادہ آسانی سے تیار ہو پاتا ہے۔ تاجر اپنے بچوں کو دکان پر بٹھاتے ہیں تاکہ وہ گاہکوں سے بات کرنے، معاملات طے کرنے کا ہنر سیکھیں جبکہ صنعت کار اپنے بچوں کو باقاعدگی سے کارخانے لے جاتے ہیں تاکہ اُنہیں ایک طرف تو یہ اندازہ ہو کہ مزدور اور ہنر مند کس ماحول کام کرتے ہیں، اُن کی مشکلات کیا ہیں اور دوسری طرف یہ بھی سیکھنے کو ملے تو اُن سے کس طور نمٹا جاتا ہے، اُن کے مسائل کس طور حل کیے جاتے ہیں۔ قصہ مختصر، عام آدمی کو زندگی کے عملی پہلو کے بارے میں اہلِ ثروت کی فکری ساخت اور معمولات سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ طٰہٰ کا کیس اس لیے بھی مثالی نوعیت کا ہے کہ وہ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد بھی گھر کی چار دیواری کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نہیں بھول پایا۔ بڑوں سے شفقت پاکر مالی اعتبار سے اُن کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ چھوٹوں کی نَفسی ضرورتوں کا خیال رکھنا بھی خاصا قابلِ ستائش ہے۔ طٰہٰ نے جس عمر میں عملی زندگی شروع کی ہے وہی تو عام آدمی کے لیے آگے بڑھنے کی عمر ہوتی ہے۔ یہی وہ عمر ہے جس میں انسان اپنے اندر بھرپور اعتماد کا پودا لگاسکتا ہے۔ اعتماد کا پودا اگر بروقت درخت بن جائے تو اُس کا پھل انسان مرتے دم تک کھاتا ہے اور کبھی کسی ایسی ناکامی سے دوچار نہیں ہوتا جو اُس کے حواس اور اعصاب کو شَل کردے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں