"MIK" (space) message & send to 7575

کائنات کا مطالبہ

کائنات کن خطوط پر اُستوار ہے یہ تو اس کائنات کا خالق ہی جانے‘ ہم کچھ بنانے پر قدرت نہیں رکھتے، ہاں! سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس حد تک سمجھ پاتے ہیں اُسی کی بنیاد پر اپنے لیے لائحۂ عمل مرتب کرتے ہیں۔ اِتنی بات تو بچہ بھی جانتا ہے کہ کائنات میں تین معاملات بہت نمایاں ہیں۔ سادگی (یا عمومیت)، اعتدال اور انتہا۔ ابتدائی درجہ کم خطرناک ہوتا ہے مگر زیادہ فائدہ بھی نہیں پہنچاتا۔ اعتدال کی منزل ہمیں بہت کچھ دیتی ہے اور جو کچھ دیتی ہے اُس سے حِظ اٹھانے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ تیسری منزل (یعنی انتہا) خطرناک ہے۔ یہ کائنات دو اور دو چار کے اصول پر کام کرتی ہے۔ یہی سب سے بڑی اٹل حقیقت ہے۔ کائنات کی طرح ہماری زندگی کے تمام معاملات بھی اِسی اصول کے تحت کام کرتے ہیں۔ اعتدال کی راہ سے ہٹنے والے ناکام رہتے ہیں۔ زندگی کا ہر معاملہ بلکہ پوری کائنات گھوم پھر کر یہی مطالبہ کرتی ہے کہ اعتدال کی راہ پر گامزن رہیے اور پُرلطف زندگی بسر کیجیے۔ خالص فلسفیانہ انداز سے نہ سوچئے اور سادہ اندازِ نظر اپنائیے تب بھی آپ یہی دیکھیں گے کہ زندگی اوّل تا آخر اعتدال پسندی کا کھیل ہے۔ ہم شعور کی منزل میں قدم رکھنے کے بعد آخری سانس تک کبھی اعتدال کی راہ پر گامزن رہتے ہیں اور کبھی انتہائے فکر و عمل کو اپناتے ہیں۔ جب معاملات ہاتھ سے نکلنے لگتے ہیں تب ہم انتہا پسندی چھوڑ کر اعتدال کی طرف آتے ہیں۔ اعتدال کی راہ پر زیادہ دیر گامزن رہا نہیں جاتا کیونکہ دل قدم قدم پر عجلت پسندی کی طرف جانے پر اُکساتا رہتا ہے اور ہم ؎
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
کے مصداق دل کے ہاتھوں الجھنوں کا شکار رہتے ہیں۔ کسی بھی کامیاب انسان کے معاملات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُس نے اپنے حواس اور اعصاب پر قابو پانے کے بعد ہی کچھ کرنے کی صلاحیت و سکت کو پروان چڑھایا۔ عجلت پسندی ہمیں اعتدال کی راہ سے ہٹادیتی ہے۔ زندگی سربسر تحمل، توازن اور اعتدال کا کھیل ہے۔ ہم بہت سے معاملات میں یکسر بے بس ہوتے ہیں مگر اتنے بے بس بہرحال نہیں ہوتے کہ اپنے لیے معقول ترین، موزوں ترین راہ منتخب نہ کرسکیں۔ جب معاملات ہاتھ میں نہ رہیں تب بھی اپنے وجود پر اختیار باقی رہتا ہے۔ ایسے میں ہمیں طے کرنا ہوتا ہے کہ زندگی کو کس طرف لے جانا ہے۔ وسائل کی مدد سے ہم اپنے مسائل حل کرکے زندگی کا معیار بلند کرتے ہیں۔ وسائل کسی بھی شکل میں ہوسکتے ہیں۔ دستیاب وسائل میں وقت سب سے نمایاں اور توجہ طلب ہے۔ وقت کی مؤثر تفہیم ہی ہمیں کچھ بننے اور کچھ کر گزرنے کی حقیقی تحریک دیتی ہے۔ وقت کو مؤثر طریقے سے بروئے کار لانے کے معاملے میں ہمیں کبھی کبھی سفاکی کی حد تک سنجیدہ ہونا پڑتا ہے مگر غور سے دیکھیے گا تو اندازہ ہوگا کہ وقت ہی کے معاملے میں ہم سب سے زیادہ لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
جو کچھ قدرت نے ہمیں عطا کیا ہے وہ بالعموم مفت میسر ہے مگر اور بہت کچھ ہمیں تگ و دَو کے ذریعے حاصل کرنا پڑتا ہے۔ یہ تگ و دَو زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ زندگی کو آسان بنانے کے لیے ہمیں جو کچھ درکار ہے وہ یونہی نہیں مل جاتا۔ قدرت کے عطا کردہ وسائل کی بھی قیمت ادا کرنا ہی پڑتی ہے۔ جو کچھ ہمیں قدرت کی طرف سے عطا کیا گیا ہے اُس کی قیمت یہ ہے کہ اُس سے مستفیض ہونے یا اُسے بروئے کار لانے کے معاملے میں منصوبہ سازی کی جائے، کوشش کی جائے کہ کسی بھی سطح پر معاملہ ضیاع تک نہ پہنچے۔ جو کچھ محنتِ شاقّہ کے ذریعے حاصل کیا گیا ہو اُسے ضائع ہونے سے بچانے پر جتنی توجہ دی جاتی ہے اُتنی ہی توجہ قدرت کے عطا کردہ وسائل کا ضیاع روکنے پر بھی دی جانی چاہیے۔ دانش کا تقاضا تو یہی ہے۔ ہم زندگی بھر جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ اگر اچھا ہو تو سبب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے اعتدال کا خیال رکھا ہوتا ہے اور اگر بگڑ جائے تو سوچنے پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم سے ہی کہیں کوئی کوتاہی سرزد ہوئی جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
سب سے بڑی دولت وقت ہے اس لیے جو کچھ بھی کرنا ہے اُس کے لیے وقت کو ذہن نشین رکھنا لازم ہے۔ ہمیں سب سے زیادہ دانش مندی وقت کو بروئے کار لاتے وقت دکھانی ہے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرے تو سمجھ لیجیے باقی تمام مراحل آسان ہوئے۔ وقت کے معاملے میں قدرت فیاض بھی ہے اور عادل بھی۔ سب کو برابری کی بنیاد پر وقت دیا گیا ہے۔ ہمارے لیے ہر دن اُتنا ہی بڑا ہوتا ہے جتنا دنیا بھر کے باقی تمام افراد کے لیے۔ کسی کا دن چوبیس گھنٹے سے ایک سیکنڈ زیادہ کا نہیں ہوتا۔ ہاں! ہم نے وقت کے حوالے سے جو سوچ اپنا رکھی ہے وہ عاقلانہ و عادلانہ نہیں۔ تھوڑی سی توجہ دینے پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان جیسے معاشروں میں وقت کو بالکل سرسری طور پر لیا جاتا ہے، اس کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی توفیق کم ہی لوگوں کو نصیب ہو پاتی ہے۔ ہمیں روئے ارض پر جتنا وقت دیا گیا ہے وہ ہر اعتبار سے امانت ہے۔ قدرت کی امانت کو ہمیں معقول ترین طریقے سے بروئے کار لانا ہے تاکہ تعمیری سرگرمیوں کے ذریعے اِس دنیا کو کچھ دینا ممکن ہو۔ وقت کا ضیاع گناہ کے زُمرے میں آتا ہے۔ کسی بھی کامیاب معاشرے کے معاملات کا تجزیہ کیجیے گا تو پائیے گا کہ اُس نے وقت کو سب سے بڑی دولت گردانتے ہوئے اُس کی قدر کی تو بات بنی، کچھ بننا اور کر دکھانا ممکن ہو پایا۔ اس حقیقت کو نظر انداز کرنے سے وہ اپنا اچھا خاصا نقصان کرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی کماحقہٗ سبق نہیں سیکھتے۔ وقت کے حوالے سے سنجیدگی کا حامل ہونا دنیا کے ہر انسان پر لازم ہے۔ ہمیں ایک ایک سانس کو اِس شعور اور احساس کے ساتھ بروئے لانا ہے کہ ہمارا بھی کچھ بھلا ہو اور دنیا کو بھی کچھ ملے۔ کیا ہم ایسا کرتے ہیں؟ وقت کا درست استعمال یقینی بنانے پر خاطر خواہ توجہ دی جاتی ہے؟ سچ یہ ہے کہ وقت کے معاملے میں ہم بالعموم ابتدائی درجے کی سنجیدگی بھی اختیار نہیں کرتے۔ وقت کو بہترین یا موزوں ترین طریقے سے بروئے کار لانے کے لیے لازم ہے کہ غیر لچک دار اصولوں کے تحت منصوبہ سازی کی جائے۔ یہ ناگزیر مرحلہ ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ منصوبہ سازی کے بغیر معیاری زندگی بسر کی جاسکتی ہے تو اُس کی سادہ لوحی پر صرف مسکرایا جاسکتا ہے۔ یہ کائنات اعتدال پر قائم ہے اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ صرف مثبت طرزِ فکر و عمل کے پروان چڑھنے سے مقصدِ تخلیق حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ڈھنگ سے جینے کا معقول و معروف طریقہ یہ ہے کہ انسان اس کائنات میں اپنے مقام کو پہچانے، اپنی ذمہ داریوں سے کماحقہٗ واقف ہو اور جو کردار قدرت نے اُس کے لیے متعین کیا ہے اُسے ادا کرنے پر کمربستہ بھی ہو۔ اس کے لیے وقت کی حقیقی قدر سے رُوشناس ہونا لازم ہے۔ معلوم کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے افادیت۔ جس میں جتنی افادیت ہوتی ہے وہ اُتنا ہی نمایاں اور قابلِ ستائش ٹھہرتا ہے۔
رات کو ٹمٹماتے ہزاروں ستارے ہمیں ذرّوں جیسے دکھائی دیتے ہیں جبکہ وہ سُورج سے بھی بڑے اور روشن تر ہیں۔ پھر بھی ہمارے لیے سُورج زیادہ اہم ہے کیونکہ ہمارے لیے اُس کی افادیت زیادہ ہے۔ ہر اُس انسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو کائنات کے بنیادی اصول کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے یعنی اپنے وقت، صلاحیت اور سکت کو عمدگی سے بروئے کار لاتے ہوئے اپنے لیے بھی بہت کچھ ممکن بناتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ یہ کائنات متقاضی ہے کہ آپ اِس میں اپنے کردار کے حوالے سے سنجیدہ ہوں۔ جو صلاحیت و سکت قدرت نے عطا کی ہے اُسے بروئے کار لانے کیلئے آپ کو منصوبہ سازی کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ اور ہاں! مقصدیت بھی ذہن نشین رہے۔ آپ کی زندگی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اپنے لیے ہی نہیں بلکہ دوسروں کیلئے بھی مفید ثابت ہونے کی کوشش کرتے رہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں