"MIK" (space) message & send to 7575

اِک اور دریا کا سامنا ہے…

کورونا وائرس کی نئی لہر نے قوم کو ایک بار خلجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وائرس کی تباہ کاریاں اپنی جگہ اور حالات کی ستم ظریفانہ اٹکھیلیاں اپنی جگہ۔ ایک سال سے بھی زائد مدت کے دوران قوم نے کورونا وائرس کو ختم کرنے کے اقدامات کے نام پر جو کچھ بھگتا ‘اُس کا تقاضا ہے کہ نئی لہر کا سامنا کرنے کے لیے بھرپور تیاریوں کا ڈول ڈالا جائے۔ حکومت کہتی ہے کہ کورونا کی نئی لہر زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس نے برطانیہ اور چند دوسرے ممالک میں غیر معمولی تباہ کاری کا بازار گرم کیا ہے۔ ایک سال قبل جب یہ وبا نازل ہوئی تھی تب بھی جانی نقصان کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک کی زیادہ شامت آئی تھی۔ پاکستان جیسے ممالک نے کورونا وائرس کا تو جیسے تیسے سامنا کرلیا مگر حکومت نے لاک ڈاؤن کے نام پر جو کچھ کیا وہ آسانی سے جھیلا نہ گیا۔ معاشی بگاڑ کے ہاتھوں کروڑوں افراد شدید مشکلات سے دوچار ہوئے۔ گزشتہ مارچ سے اب تک کورونا وائرس کے ہاتھوں جو کچھ اس قوم پر بیتی ہے اُس کے اثرات نہ صرف یہ کہ موجود ہیں بلکہ جانے کا نام بھی نہیں لے رہے۔ ایسے میں مزید لاک ڈاؤن کی خبروں نے لوگوں کی جان نکال دی ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ لاک ڈاؤن کے ذریعے ہی کورونا کی نئی لہر پر آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے۔
کورونا وائرس سے لڑنے میں مدد دینے والی ویکسین آچکی ہے اور اُس کا اطلاق بھی تیزی سے کیا جارہا ہے مگر اس کے باوجود بعض معاملات الجھے ہوئے ہیں اور قوم کی ذہنی الجھن میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ایک طرف تو حکومت کہتی ہے کہ بھیڑ سے کورونا وائرس پھیلتا ہے اور دوسری طرف سندھ مزارات کو بند کرنے کے اعلان کے بعد دو ایک مزاروں کو خصوصی طور پر کھولا، جس پر لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ لوگوں کے جذبات سے زیادہ عطیات کی فکر لاحق ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عوام کے دیے ہوئے عطیات کا کوئی حساب بھی ممکن نہیں کہ کون کون کتنا لے اُڑتا ہے! ایک طرف شاپنگ سنٹرز اور ریسٹورنٹس کی بندش کی باتیں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف سکولوں کے بارے میں تاحال تذبذب برقرار ہے۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ ایسے میں کورونا کی روک تھام کے نام پر اجتماعات پر پابندی کا بھی ڈول ڈالا گیا ہے۔ بہت سے ذہنوں میں یہ خیال ابھر رہا ہے کہ کورونا کی وبا کی روک تھام کے نام پر کہیں اجتماعات و تقریبات کی راہ روکنا تو مقصود نہیں؟ گزشتہ برس اجتماعات پر پابندی عائد کرکے قوم کو بے مزا کیا گیا تھا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بار بھی اس نوعیت کے اقدامات سے لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھیں۔ یہ بالکل فطری عمل ہے۔ ایک ہی معاشرے میں دو معاملات کے لیے یکسر متضاد رویہ اپنانے کی صورت میں لوگوں کے ذہن کیوں نہ الجھیں؟
کورونا کی وبا نے کہاں کتنی تباہی پھیلائی ہے‘ پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر ہاں! پاکستان میں اس وبا نے جانی نقصان کم اور معاشی و معاشرتی نقصان زیادہ کیا ہے۔ معیشت کی خرابی نے بدحالی سے دوچار قوم کی الجھنوں میں اضافہ کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرتی خرابیاں بھی خوب پنپ رہی ہیں۔ ایک سال کے دوران قوم پر جو کچھ بیتی اُس سے بہت کچھ سیکھنا تھا مگر شاید کچھ بھی نہیں سیکھا گیا۔ عمومی سطح پر وہی بے نظمی اور بے ترتیبی ہے جو کورونا کی وبا کے وارد ہونے سے پہلے تھی۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں اب بھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ سب سے بڑھ کر تو نظم و ضبط ہے۔ نظم و ضبط کا مطلب ہے وقت کی قدر کرتے ہوئے زندگی بسر کرنا۔ جب سبھی کچھ سوچا سمجھا ہو، ایک نظم یا نظام کے تحت ہو تو خرابیوں کے پنپنے کی گنجائش کم رہ جاتی ہے۔ قوم نے باقی دنیا کے ساتھ کورونا وائرس کا سامنا کیا اور لاک ڈاؤن کی شکل میں معاشی بگاڑ بھی جھیلا مگر جو کچھ سیکھنا چاہیے تھا وہ نہیں سیکھا کیونکہ یہ بات عمومی طرزِ فکر و عمل سے جھلک رہی ہے۔ ایک سال کے دوران تعلیم کا خاصا ہرج ہوا ہے۔ والدین پریشان ہیںکہ بچوں کو پڑھنے میں دلچسپی لینے کی تحریک کیسے دیں اور طلبہ کا یہ عالم ہے کہ کبھی تو چاہتے ہیںکہ سکول فوراً کھل جائیں اور کبھی اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ فی الحال سکول بند ہی رہیں۔ گویا ؎
نظر میں الجھنیں، دل میں ہے عالم بے قراری کا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا سُکوں پانے کہاں جائیں؟
حکومت کو ایسا بہت کچھ کرنا پڑ رہا ہے جو اُس کی مرضی کا نہیں مگر باقی دنیا کر رہی ہے اِس لیے ایسا کرنے سے متعلق دباؤ برقرار ہے۔ عالمی سطح پر کیے جانے والے فیصلوں کو تسلیم کرنا اور اُن کے مطابق اقدامات کرنا پاکستانی جیسے ممالک کی مجبوری ہے مگر حکومتی مجبوریوں کے باوجود بہت کچھ ایسا ہے جو عوام پر لازم ہے۔ حالات کی چکی میں پسنے والے لوگوں کو کسی مقام پر ٹھہر کر کچھ نہ کچھ ایسا طے کرنا چاہیے جس سے اُن کی زندگی میں ٹھہراؤ اور سکون آئے۔ گزر بسر کی سطح پر جینے والے بھی اپنے لیے بہت کچھ سوچ سکتے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ وہ سوچنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہاں تو پھر اُن کی راہ میں کوئی بھی مشکل حائل نہیں ہوسکتی۔
ہمارا معاشرہ ایک زمانے سے بے ہنگم ہے۔ زندگی کی عمومی روش میں نظم و ضبط ہے نہ ترتیب۔ وقت کی قدر و قیمت کا احساس نہ ہونے کے برابر ہے۔ وقت کے ضیاع کو عمومی چلن کا سا درجہ ملا ہوا ہے۔ کسی بڑے مقصد کا تعین کرکے اُس کے حصول کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ مفقود ہے۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے درکار جوش و خروش کا نام و نشان نہیں مل رہا۔ محض گزارے کی سطح پر جینے کو زندگی سمجھ لیا گیا ہے۔ دنیا کا کام ہے بدلتے رہنا۔ بدلتی ہوئی دنیا کا ساتھ دینا ہی بہترین آپشن ہے۔ جو معاشرے خود کو بدلنے کی راہ پر گامزن نہیں ہوتے وہ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر بقا ممکن بھی ہو تو خاصے تحقیر آمیز انداز سے۔ عزتِ نفس کے ساتھ جینا، غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈھنگ کی زندگی بسر کرنا راستے میں پڑی ہوئی چیز نہیں۔
جس نازک وقت کا راگ ایک مدت سے الاپا جارہا تھا وہ واقعی آچکا ہے۔ ایک دنیا ہے کہ خود کو بدلنے پر آمادہ ہے۔ ایسے میں پاکستانی معاشرے کو بھی تبدیل ہونا ہی پڑے گا۔ یہ کام اصلاً حکومتی سطح پر شروع کیا جانا چاہیے مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ حکومتوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ حکمراں طبقہ تبدیلی کے لیے کوشاں ہوتا بھی ہے تو خاص فریم ورک میں رہتے ہوئے۔ وہ چاہتا ہے کہ معاشرے میں کوئی بھی ایسی تبدیلی رونما نہ ہو جس سے اُس کی حیثیت متاثر ہو۔ کورونا وائرس کی تازہ لہر کو کنٹرول کرنے کے نام پر کیے جانے والے اقدامات سے معاشی خرابیوں کا بڑھنا بھی خارج از امکان نہیں۔ ایسے میں عوام کو سوچنا ہے کہ ان کے لیے کسی بھی معاملے میں کہاں تک گنجائش ہے۔ حکومت عوام کے لیے کیا کرسکتی ہے اور کیا کرتی ہے‘ اِس سے ہٹ کر عوام کو خود طے کرنا ہے کہ وہ کس حد تک جاسکتے ہیں، کس طور اپنا بھلا کرسکتے ہیں۔ کورونا کی نئی لہر اس امر کی متقاضی ہے کہ پاکستانی قوم اپنے شب و روز یعنی معمولات تبدیل کرے، فضول سرگرمیوں کو خیرباد کہا جائے اور کام کی باتوں پر توجہ دی جائے۔ دنیا تبدیل تو ہوتی ہی ہے اور مسائل بھی پیدا کرتی ہے مگر جب اِسے باضابطہ شعوری کوششوں کے ذریعے یعنی ایجنڈے کے تحت، پالیسیوں کے ذریعے تبدیل کیا جاتا ہے تب کمزور معاشروں کے لیے پیچیدگیاں اور بڑھ جاتی ہیں۔ اس وقت دنیا کو تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ عشروں بلکہ صدیوں سے بے عملی کی زندگی بسر کرنے والے معاشروں کے لیے جاگنے اور کچھ مثبت کرنے کا وقت آگیا ہے۔ وقت ضائع کرنے کا آپشن اب نہیں بچا۔ اب بھی نہ جاگنے والوں کے لیے صرف شکست و رسوائی بچے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں