حالات کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ یہ صرف جبر ڈھاتے ہیں۔ حالات خواہ کسی قسم کے ہوں‘ جبر ڈھاکر ہی رہتے ہیں۔ جس کے لیے موافق ہوں اُس کے لیے تو خیر ہے، دوسروں کے لیے تو یہ جبر ہی کی ایک صورت ہوتے ہیں۔ کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں یعنی جو آج حالات کی دستبرد سے محفوظ ہے اُسے کل حالات کے جبر کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ نشیب و فراز کے مراحل ہر انسان اور قوم کی زندگی میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ نشیب و فراز کا ہر مرحلہ ہمیں کچھ نہ کچھ سکھانے کے لیے ہوتا ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے پاکستانیوں کو بھی حالات کے اتار چڑھاؤ سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ وقت کا کام گزر جانا ہے مگر وہ بہت کچھ دیتا ہوا گزرتا ہے۔ جن پر وقت کی نوازش ہوتی ہے وہ شاداں و فرحاں دکھائی دیتے ہیں۔ جن کے لیے وقت کڑا ثابت ہو اُنہیں بھی کچھ نہ کچھ سیکھنے تو ملتا ہی ہے۔ کوئی سیکھنے سے یکسر گریزاں ہو تو اور بات ہے۔ قوم کی حیثیت سے ہمارے حالات ایک زمانے سے دگرگوں ہیں۔ معاملات پیہم خرابی کی طرف جارہے ہیں۔ ایسے میں وقت کی گردش جو کچھ سکھا سکتی ہے وہ ہمارے لیے بھی ہے مگر ہم اِس طرف متوجہ نہیں ہو رہے ع
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
ایسا کیوں ہے کہ ہم حالات کے حوالے سے بہت نمایاں حد تک بے حس ہیں اور کچھ سیکھنے کے قائل ہی نہیں؟ حالات سے کچھ سیکھنے کے قائل ہوں تو اس طرف مائل بھی ہوں۔ مسائل بڑھتے جارہے ہیں، مشکلات پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہم کچھ سیکھنے کیلئے تیار نہیں۔ مسائل کا ایک بنیادی وصف یہ بھی تو ہے کہ اگر اُنہیں حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے توبڑھتے جاتے ہیں اور اُن کی پیچیدگی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ بہت کچھ ہے جو ہمارے دامن میں آنے کیلئے بے تاب ہے مگر ہم اس حوالے سے سوچنے اور کچھ کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ کم و بیش چار عشروں سے ہمارے لیے سیاست صرف خرابی کا نام ہے۔ کرپشن کے دریا پیہم پھیلتا جارہا ہے اور گہرائی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ ایک تماشے کی طرح ہے۔ تماشا دیکھا جارہا ہے مگر تدارک کے لیے کچھ کیا نہیں جارہا۔
ہر قوم اور ہر معاشرے کی اپنی پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ ہر قوم کا ایک عمومی مزاج ہوتا ہے جس کی بنیاد پر اُس کی راہِ حیات کا تعین ہوتا ہے۔ بہت سی اقوام نے عشروں نہیں‘ صدیوں کی محنت کے ذریعے اپنا مزاج تبدیل کرکے دنیا کمائی۔ مغربی معاشرے اس حوالے سے نمایاں اور روشن ترین مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ آج یہ معاشرے پوری دنیا کے لیے ترقی و خوشحالی کی نمایاں مثال ہیں۔ ان معاشروں کی خامیاں اور خرابیاں اپنی جگہ مگر یہ حقیقت تو تسلیم کرتے ہی بنے گی کہ انہوں نے اندرونی سطح پر قابلِ رشک معیارِ زندگی ممکن بنایا ہے۔ آج مغرب کے ترقی یافتہ اور باقی دنیا کے پس ماندہ معاشروں میں صدیوں کا فرق و فاصلہ ہے۔ ترقی اور خوش حالی یقینی بنانے کیلئے جتنی محنت مغربی معاشروں نے کی ہے اُن کے بارے میں پس ماندہ معاشروں نے تو ابھی سوچا بھی نہیں۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں جو کچھ کرنا ہے وہ بھی ابھی تک سوچنے کی منزل سے نہیں گزرا۔ عمومی سطح کے بہت سے مسائل اور پیچیدگیاں ہمیں یوں گھیرے ہوئے ہیں کہ ہم اُن سے بلند ہوکر کچھ بڑا سوچنے کے قابل ہی نہیں ہو پارہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ زندگی کا عمومی معیار بلند کرنے کے حوالے سے بھی ہم اب تک سنجیدہ نہیں۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ کر تن بہ تقدیر ہو بیٹھا ہے۔ تدبیر کو زحمتِ کار دینے کا مزاج ہے کہ پنپنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ تساہل کیوں ہے اور بڑھتا ہی کیوں جارہا ہے؟ کیا یہ بے حسی ہمارا مقدر ہوکر رہ گئی ہے؟ کیا ہمیں اب عمل کی راہ پر گامزن ہونے کی لگن کبھی نصیب نہیں ہوگی؟ حالات کو سمجھنے اور اُس ادراک سے مطابقت رکھنے والی طرزِ حیات کیا اب ہمارے حصے میں نہیں؟ اِن میں سے ہر سوال پر غور کرنا اور اُس کا جواب تلاش کرنا ہم پر لازم ہے مگر ہم اِس طرف مائل ہی نہیں ہو رہے۔ وقت اگرچہ اپنی فطری رفتار ہی سے گزرتا ہے مگر ادراک کا فرق اُس کی رفتار گھٹاتا، بڑھاتا ہے۔ ہمارے لیے وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ معیاری زندگی بسر کرنے کے لیے جو کچھ کرنا لازم ہے وہ ہم نہیں کر رہے کیونکہ ہم ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے۔
بہت سے معاملات ایسے ہیں جو زندگی کا حصہ ہونے کے تعلق سے ہمارے لیے عام ہیں۔ چار پانچ ہزار سال کے دوران انسان نے جو کچھ سیکھا ہے اُس کا نقطۂ کمال ہمیں دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا بھر کے انسانوں نے مختلف ادوار میں جو محنت کی‘ اُس کا حاصل آج ہمیں میسر ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے ہم نے یکسر نظر انداز کر رکھا ہے۔ اب ہمارے کاندھوں پر کچھ ایجاد یا دریافت کرنے کی ذمہ داری تو نہیں مگر ہاں! معاشرتی معاملات درست کرنے کی ذمہ داری ضرور ہم پر عائد ہوتی ہے۔ انسان کی نفسی ساخت پیچیدہ تر ہوتی جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہنی خلجان و خلفشار بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اس حوالے سے انسان کو بہت کچھ کرنا ہے۔ آج کے انسان کو ذہنی پیچیدگیوں سے بچ کر دکھانا ہے، اپنے اخلاق درست رکھنے ہیں، معاشرتی معاملات کو خرابی سے بچانا ہے۔ جو اس مرحلے سے کامیاب گزرا وہی کامیاب کہلائے گا۔ ایک قوم اور معاشرے کی حیثیت سے پاکستانیوں کو بھی معاشرتی معاملات کی درستی اور نفسی ساخت میں در آنے والی پیچیدگیوں کو دور کرنے کے حوالے سے بہت کچھ کرنا ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات تو ہو نہیں سکتا۔ دنیا بھر میں لوگوں کے ذہن بری طرح الجھے ہوئے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی عام آدمی کی ذہنی الجھنیں کم نہیں البتہ ان کی نوعیت مختلف ہے۔ جہاں مادی معاملات درست کیے گئے ہیں وہاں نفسی اور ذہنی خرابیاں بڑھی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کا گراف بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ الجھنیں ہوں یا غم، سب کو اپنے اپنے حساب اور حصے کے مطابق مل کر ہی رہتے ہیں۔ وقت یا حالات کی پیدا کردہ پیچیدگیاں خود بخود دور نہیں ہوتیں۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر مستقل نوعیت کی جدوجہد ہی ان خرابیوں کو دور اور مسائل کو حل کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ زندگی قدم قدم پر فکر و عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ جو لوگ فکر و عمل سے بے بہرہ رہتے ہیں جی تو وہ بھی لیتے ہیں مگر ایسی زندگی کا کیا درجہ ہوتا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ''بے فکری‘‘ اور بے عملی پر مبنی زندگی اپنی اصل میں تو زندگی ہوتی ہی نہیں۔ ایسی حالت میں تو صرف سانسوں کی گنتی پوری کی جاتی ہے۔
حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے سوچنا سیکھیں اور عمل کی طرف آئیں۔ عمل پسندی اختیار کیے بغیر ہم ڈھنگ سے جی نہیں سکتے۔ دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ معاشی ڈھانچے بدل رہے ہیں، معاشرتی سطح پر بھی پیچیدگیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ طاقتور ممالک اپنی طاقت میں واقع ہونے والی کمی سے گھبراکر کمزور ممالک کو زیادہ سے زیادہ خرابیوں میں گھرا ہوا رکھنے پر متوجہ ہیں۔ ابھرتی ہوئی قوتوں کی راہ روکنے پر بھی توجہ دی جارہی ہے تاکہ مغرب پر مشتمل عالمی اشرافیہ کے لیے بقا کا مسئلہ زیادہ پیچیدگی اختیار نہ کرے۔ ایسے میں پاکستان جیسے معاشروں کا جاگنا اور فکر و عمل کی راہ پر گامزن ہونا لازم ہے۔ پاکستان کی اپنی مخصوص پیچیدگیاں ہیں۔ بیرونی سطح پر ہمیں بھی وہی کرنا ہے جو دوسرے بہت سے پس ماندہ معاشروں کو کرنا ہے مگر اندرونی سطح پر زیادہ فکر و عمل کی ضرورت ہے۔ نفسی اور معاشرتی الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں۔ کروڑوں پاکستانی شدید ذہنی الجھنوں کے ساتھ جی رہے ہیں جس کے نتیجے میں اُن کی سوچنے اور کام کرنے کی صلاحیت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہیں۔ ہمیں جاگنا ہے اور جلد از جلد جاگنا ہے۔