"MIK" (space) message & send to 7575

پیار جھوٹا نہ ہو‘ پیار کم ہی سہی

قوم شدید نوعیت کے ذہنی خلفشار سے دوچار ہے۔ نفسی پیچیدگیوں کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ معاملات یوں الجھے ہوئے اور ایک دوسرے میں پیوست ہیں کہ کسی بات کا کوئی سِرا دکھائی نہیں دے رہا۔ ہر شعبہ بدنظمی سے ایک قدم آگے جاکر اب بے نظمی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ریاستی مشینری کو بظاہر صرف اس بات سے غرض ہے کہ عوام کی جیب سے نکالی ہوئی دولت کے ذریعے صرف اُس کے پُرزے مزے کرتے رہیں۔ عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ تو تب دی جائے جب اُن کا وجود تسلیم کیا جائے۔ ریاستی مشینری نے اب تک عوام کے مسائل کو مسائل کا درجہ ہی نہیں دیا تو اُن کے حل کی طرف کیسے بڑھے؟ عمران خان صاحب نے جب زمامِ حکومت سنبھالی تھی تب قوم نے سوچا تھا کہ خان صاحب نے جس تبدیلی کا خواب دیکھا ہے اُسے شرمندۂ تعبیر کرنے کا موقع اُن کے ہاتھ آیا ہے تو شاید اب وہ کچھ کرکے دکھائیں گے مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
مشکل یہ ہے کہ عمران خان کو نیک نیت مان بھی لیا جائے تو مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔ اُن کی راہوں میں کانٹے ہی کانٹے ہیں ۔ وہ کرکٹر رہے ہیں مگر پھر بھی اتنی سی بات اُن کی سمجھ میں نہیں آرہی کہ ہر عظیم اننگز کا آغاز صفر سے ہوتا ہے۔ خان صاحب زمینی حقیقتوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے چل رہے ہیں۔ وہ اب تک اس گمان میں مبتلا ہیں کہ کریز پر پہنچنے کے بعد کھاتا کھولے بغیر ففٹی یا سینچری سکور کرنا ممکن ہے! وہ یہ تسلیم کرنے کیلئے بظاہر تیار ہی نہیں کہ ہر عظیم اننگز کھاتا کھولے جانے کے بعد ہی آگے بڑھتی ہے۔ دن کے اختتام پر تماشائی جسے ڈبل یا ٹرپل سینچری سکور کرنے پر داد دے رہے ہوتے ہیں وہ بیٹسمین گراؤنڈ میں قدم رکھتے وقت صفر پر تھا۔ ہر بڑی اننگز صبر و تحمل اور مثبت رویہ چاہتی ہے۔ سنگلز اور ڈبلز لینے کی صورت میں سکور بورڈ متحرک رہتا ہے اور انفرادی اننگز پروان چڑھتی جاتی ہے۔ کوئی محض چوکوں یا چھکوں کی بنیاد پر اپنی اننگز کو مضبوط نہیں کرسکتا۔ عمومی سطح پر بیٹنگ کرتے ہوئے جاوید میاں داد کی طرح سنگلز اور ڈبلز لیتے ہوئے فیلڈرز کو متحرک رکھنا پڑتا ہے تاکہ وہ تھک جائیں اور ایک وقت وہ بھی آئے کہ جہاں سنگل کی گنجائش وہاں‘ فیلڈرز پر طاری ہونے والی تھکن کی بدولت‘ ڈبل لینا آسان ہو جائے۔
عام پاکستانی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد بھی کرکٹ کے زمانے کو اپنے ذہن سے کھرچ کر نہیں پھینکا ہے اور آج بھی کپتان والی ذہنیت کے ساتھ جی رہے ہیں۔ وہ کامیاب کپتان رہے ہیں مگر اس حقیقت کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں کہ کھیلوں کی ٹیم کی کپتانی اور قوم کی راہ بری میں بہت فرق ہے۔ کپتان کو حکم دینا ہوتا ہے اور باقی ٹیم کو حکم ماننا ہوتا ہے۔ قوم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ محض احکام کی پابند نہیں ہوتی بلکہ اپنے سوالوں کے جواب بھی چاہتی ہے۔ کسی بھی پالیسی پر قوم کا کچھ سوال پوچھنا حیرت انگیز ہے نہ ناپسندیدہ۔ قوم کی راہبری پر مامور ہونے والوں کو ایسی صورتحال کیلئے تیار رہنا چاہیے جس میں لوگ سوال کریں اور اُن سوالوں کا جواب دینا لازم ہو۔
ڈھائی سال کے دوران عمران خان صاحب اور اُن کی ٹیم نے پالیسیوں میں استقامت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حکمرانی کا یہ موقع محض تجربات کی نذر کیا جارہا ہے۔ عمران خان ٹیم میں تبدیلی کے مرحلے سے اتنی بار گزرے ہیں کہ اب تو قوم پر اکتاہٹ سی طاری ہوگئی ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ عمران خان سمجھ ہی نہیں پارہے کہ ٹیم کو چلانے اور ملک کو چلانے میں بہت بڑا فرق ہے۔ ملک چلانے کے معاملے میں محض احکام جاری کرنا کافی نہیں ہوتا۔ قوم کسی بھی معاملے میں جب وزیر اعظم کے منہ سے کوئی نئی بات سُنتی ہے تو وضاحت چاہتی ہے۔ ٹیم میدان میں ہو تو کوئی بھی کھلاڑی کسی بھی ہدایت پر وضاحت کا طالب نہیں ہوسکتا۔ کپتان کا فیصلہ ماننا ہی پڑتا ہے۔ قوم اپنے کسی بھی لیڈر کا کوئی بھی حکم بلا چُوں چرا تسلیم نہیں کرتی۔ وہ خدشات اور تحفظات کے حوالے سے وضاحت چاہتی ہے۔
حکومت اس وقت بظاہر بند گلی میں ہے۔ پالیسیوں میں توازن ہے نہ تسلسل۔ علاقائی اور عالمی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور ہم اُس سے تجارت کی بات کر رہے تھے۔ بھارت سے تجارت قوم کے مفاد میں ہوسکتی ہے مگر اس کے لیے اصولی موقف کو تو داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا‘ کشمیریوں کی جدوجہد کو تجارتی مفادات کی چوکھٹ پر تو ذبح نہیں کیا جاسکتا۔
یہ حقیقت بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ وزیر اعظم اور اُن کی ٹیم کی کمزوریاں چاہے جتنی بھی ہوں‘ اُنہیں کام بھی نہیں کرنے دیا جارہا۔ ہر شعبے کی مافیا اس وقت کھل کر اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے۔ کسی ایک معاملے کو درست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو دوسرے کئی معاملات خراب کردیے جاتے ہیں۔ آٹا‘ چینی‘ گھی اور تیل جیسے معاملات پر بھی وزیر اعظم کا کوئی اختیار دکھائی نہیں دے رہا۔
ایک طرف اپوزیشن اپنا کھیل پوری قوت سے کھیل رہی ہے یعنی معاملات کو زیادہ سے زیادہ الجھاکر بہتر گورننس کی راہ میں دیوار بنی ہوئی ہے اور دوسری طرف صنعتکار اور تاجر بھی مذموم حرکتوں سے باز نہیں آرہے۔ عام تاجر بھلے ہی نیک نیتی کے حامل ہوں مگر بڑے مالیاتی‘ صنعتی اور تجارتی گروپ بہرحال مسائل ہی پیدا کر رہے ہیں۔ سب کی کوشش یہ ہے کہ حکومتی ٹیم ناکام ہو جائے۔ ہر شعبے کی مافیا نے ریاستی مشینری کے پُرزوں کو بھی ساتھ ملالیا ہے۔ ایسے میں مفادِ عامہ کا تصور خاک میں مل کر رہ گیا ہے۔
وزیر اعظم کی حیثیت سے عمران خان کتنے اختیارات کے حامل ہیں اور اُن کی ٹیم کہاں تک جاسکتی ہے یہاں یہ بحث مقصود نہیں مگر ہاں‘ عمران خان کے لیے یہ مخلصانہ مشورہ ضرور ہے کہ وہ بہت چھوٹے پیمانے سے شروع کریں۔ قوم کیلئے بہت کچھ کرنے کا عزم اپنی جگہ مگر کام نچلی سطح سے شروع کیا جانا چاہیے۔ ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کا ارادہ بُرا نہیں مگر زمینی حقیقتیں اس امر کی متقاضی ہیں کہ عوام کو فی الحال بنیادی سہولتوں کے حوالے سے سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کیا جائے۔ لاکھوں ملازمتیں فراہم کرنے اور لاکھوں گھر بناکر دینے کی باتیں نہ کی جائیں۔ لوگ اتنا کچھ نہیں چاہتے۔ وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ پینے کا صاف پانی آسانی سے میسر ہو‘ بجلی اور گیس کی بندش کم سے کم ہو اور معاشی سرگرمیاں ڈھنگ سے جاری رکھنے میں معاونت کرنے والا ماحول میسر رہے۔ لوگوں کے لیے بنیادی مسائل روزگار کا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران ایک سال کے دوران جو کچھ کیا جاتا رہا ہے اُس نے بہت کچھ بگاڑ دیا ہے۔ عمران خان کو معاشی بحالی کے عمل میں چھوٹی کامیابیوں پر متوجہ رہنا چاہیے۔ لوگوں کو امداد یا خیرات پر زندہ رکھنا شرم ناک ہے۔ معاشی سرگرمیاں ڈھنگ سے جاری رکھنے میں مدد دینے والا ماحول فراہم کیا جائے تاکہ لوگ امداد کے آسرے میں جینے کے بجائے کچھ کرنے پر یقین رکھنے والی ذہنیت کی طرف آئیں۔
عمران خان اور اُن کے رفقا کو نچلی یا ابتدائی سطح پر زیادہ کام کرنا چاہیے۔ لوگ تاج محل نہیں بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ جن ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں وہ رہتے ہیں اُنہیں داؤ پر لگنے سے بچایا جائے۔ اگر چند بنیادی سہولتیں ڈھنگ سے مل جائیں تو باقی کام وہ خود کرلیں گے اور اچھی طرح کرلیں گے۔ ؎
پیار جھوٹا نہ ہو‘ پیار کم ہی سہی
ساتھ دے تو کوئی‘ دو قدم ہی سہی
بنیادی سوال یہ ہے کہ جو کچھ عمران خان اور اُن کے رفقائِ کار کے ہاتھ میں ہے وہ کیا جارہا ہے یا نہیں۔ پچاس لاکھ گھر تقسیم کرنے کے بجائے اگر حکومتی مشینری ہر بڑے شہر میں محض ڈیڑھ دو ہزار مکانات والے چار پانچ منصوبے بھی مکمل کرکے غریبوں کو اُن میں بسادے تو بہت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں