"MIK" (space) message & send to 7575

… مرجائیں تو اچھا!

زندگی کا ہر رنگ اُس وقت کِھلتا ہے جب جینے کی لگن محض موجود ہی نہ ہو بلکہ اُسے بروئے کار لانے پر بھی خاطر خواہ توجہ دی جائے۔ زندگی کا حقیقی لطف اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ انسان اپنے تمام معاملات کو مثبت سوچ کے ساتھ قبول کرے۔ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی صورت میں انسان کسی بھی ناموافق صورتِ حال سے بطریقِ احسن نمٹنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ جب یہ طے کرلیا جائے کہ زندگی کو جوں کا توں قبول کرنا ہے اور کسی بھی بڑے معاملے کو درست کرنے پر توجہ نہیں دینی تب زندگی کا توازن بگڑنے کی ابتدا ہوتی ہے۔ زندگی کب تک ہے؟ جب تک ہم زندہ ہیں۔ اور جب تک ہم زندہ ہیں تب تک پوری زندہ دِلی اور خوش دِلی کے ساتھ جینے میں کیا حرج ہے؟ کوئی شدید نوعیت کے مسائل جھیلتے ہوئے بھی زندہ ہو تو اِس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ زندگی کو ایک برتر حقیقت اور نعمت کے طور پر قبول کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ غیر معمولی مشکلات کے باوجود کسی کا زندہ رہنا اس بات کی واضح علامت ہے کہ وہ موت کو اپنے مسائل کے حل کے طور پر نہیں لیتا۔ خود کشی اس امر کا اعلان ہوتی ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والے نے موت کو تمام الجھنوں کا حل سمجھا اور اُس حل کو اپنایا بھی۔ ہم اس سادہ اور بالکل سامنے کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ہمارا روئے ارض پر زندہ ہونا زندگی سے محبت کی علامت ہے۔ جب زندگی سے محبت کرنا ہی ٹھہرا تو پھر یہ معاملہ بے دِلی کے ساتھ کیوں؟ زندگی ہم سے قدم قدم پر زندہ دِلی کا تقاضا کرتی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
ہم اپنے ماحول پر اُچٹتی سی نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ جو زندگی کو خوش دِلی کے ساتھ قبول کرتے ہیں اُن کا ہر انداز نرالا ہوتا ہے۔ زندگی کو اپناتے ہوئے جینے والوں کا ہر طریق قابلِ دید و قابلِ داد ہوتا ہے۔ اُن میں کام کرنے کی لگن ہمیشہ توانا رہتی ہے۔ وہ کسی بھی معاملے میں زبردستی کی بے دِلی سمونے سے گریز کرتے ہیں۔ بیشتر معاملات میں اُنہیں پوری دلچسپی کے ساتھ کام کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کی توفیق کم ہی لوگوں کو نصیب ہو پاتی ہے کہ ہر معاملہ ہماری مرضی کا نہیں ہوسکتا۔ ہمیں بہت سے معاملات میں دوسروں کی مرضی کا خیال رکھتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ یہی معاملہ دوسروں کا بھی ہے۔ وہ بھی تو بہت سے معاملات میں ہماری یا دوسروں کی مرضی کے مطابق چلتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ اگر قوتِ ارادی کا گراف گرا ہوا ہو اور شخصیت کی بھرپور تربیت کا اہتمام نہ کیا گیا ہو تو بہت سوں کو یہ محسوس ہوتا رہتا ہے کہ دُکھوں اور پریشانیوں نے صرف اُنہی کو نشانے پر لے رکھا ہے، انہی کو گھیر لیا ہے۔ یہ سوچ بالکل بلا جواز ہے۔ دُکھ سب کے لیے ہوتے ہیں، پریشانیاں سب کے حصے میں آتی ہیں۔ دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جو پورے یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کرسکے کہ اُسے کسی بھی معاملے میں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
ذرا سی توجہ دینے پر آسانی سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ بہت سوں کو بات بات پر پریشان ہو اُٹھنے کا شوق ہوتا ہے۔ وہ معمولی سی الجھن کو بھی جی کا جنجال سمجھتے اور جان کا روگ بنالیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کو قدرت کی طرف سے چند ایک مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ الجھنوں اور پریشانیوں سے نبرد آزما ہونے کی صورت ہی میں انسان کی حقیقی صلاحیتوں اور قوتِ ارادی کا سراغ ملتا ہے۔ سب کچھ آسانی سے ملتا رہے تو زندگی کا معیار بلند نہیں ہو پاتا۔ بحرانی کیفیت کا پامردی سے سامنا کرنے ہی کی صورت میں زندگی کا معیار بلند ہو پاتا ہے۔ بے حِسی اور بے دِلی کے ساتھ جینا زندگی کی توہین ہے۔ اللہ نے ہمیں زندگی سی نعمت اس لیے عطا نہیں کی کہ گِلے شِکوے کرتے ہوئے ضائع کردیں۔ دوسروں کو دیکھ کر کُڑھتے رہنا زندگی کی توہین اور اللہ کی ناشکری ہے۔ بہت سوں کو اس حال میں دیکھا گیا ہے کہ بہت کچھ ملنے پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اُن لوگوں کو دیکھ کر شکوہ کُناں رہتے ہیں جنہیں ان سے زیادہ ملا ہو۔ اگر دوسروں کے پاس کچھ زیادہ دیکھ کر کُڑھتے رہنے کا آپشن اپنایا جائے تو یقین کیجیے کہ مرتے دم تک سکون کا حصول ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔ حقیقی سُکون تک پہنچنے کی ایک ہی راہ ہے ‘ یہ کہ جو کچھ اللہ نے بخشا ہے انسان اُس سے خوش اور اللہ کا شکر گزار رہے۔ کچھ لوگ اپنے لیے ایک انوکھا مزاج پیدا کرتے اور پروان چڑھاتے ہیں۔ کچھ بھی مل جانے پر اگر خوش ہونے کی عادت نہ اپنائی جائے تو انسان رفتہ رفتہ خوش کن لمحات سے بھی رنجش کشید کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ فانیؔ بدایونی نے اس حقیقت کو بہت خوبصورتی سے یوں بیان کیا ہے ؎
بیمار تِرے جاں سے گزر جائیں تو اچھا
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں، یہ مر جائیں تو اچھا
یہ شعر زبان کے خوبصورت استعمال کے علاوہ خیال آفرینی کی بھی اچھی مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ انسان کے لیے سب سے بری کیفیت وہ ہوتی ہے جس میں وہ جیتا نہ مرتا ہے۔ زندہ ہوتے ہوئے بھی ڈھنگ سے نہ جینا اور پژمردگی کو حرزِ جاں بنائے رہنا انتہائی المناک کیفیت ہے۔ ہم اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو بات بات پر رنجیدہ ہو رہنے کو زندگی کا حاصل اور کمال سمجھتے ہیں۔ کیا ہمیں عطا کی جانے والی زندگی صرف رو دھوکر ضائع کرنے کے لیے ہے؟ کیا اس دنیا کی ساری خوبصورتی صرف اس لیے ہے کہ ہم اُسے نظر انداز کرکے کبیدہ خاطر رہیں اور شِکوہ سنج رہتے ہوئے اس دنیا سے جائیں؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔ جس نے اس کائنات کو خلق کیا ہے اُس نے یقینا انسان کو اس لیے خلق نہیں کیا کہ وہ ہمیشہ ناشکرے پن کا مظاہرہ کرتا رہے، ناخوش رہے اور روتا ہوا دنیا سے رخصت ہو جائے۔ یہ پوری کائنات کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہے۔ ایسے میں یہ کیسے سوچا جاسکتا ہے کہ انسان کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوگا؟ انسان کو کئی مقاصد کے تحت خلق کیا گیا ہے۔ ایک انتہائی واضح مقصد تو یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا کا طالب رہے، شکر گزار رہے اور جو کچھ عطا کیا گیا ہے اُس سے خود بھی مستفید ہو اور دوسروں کو بھی مستفیض کرے۔ ایک مقصد یہ بھی ہے کہ انسان خود بھی خوش رہے اور اپنے وجود سے دوسروں کے لیے بھی خوشیوں کا سامان کرے۔ اللہ کا شکر ادا کرنے رہنے سے دل و دماغ کی تقویت کا سامان ہوتا رہتا ہے اور انسان خوش رہتا ہے۔ فانیؔ بدایونی نے خاصے لطیف انداز سے جو کچھ کہا ہے وہ اپنی جگہ اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ جنہیں ہر حال میں رونے دھونے سے فرصت نہ ہو اُن کا جینا کسی بھی حال میں جینا کہلانے کے لائق نہیں۔ یہ تو زندگی ایسی نعمت کی صریح توہین ہے۔
زندگی اول و آخر اس لیے ہے کہ ہم جب تک اس دنیا میں رہیں، جینے کا حق ادا کرتے رہیں۔ اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ بے دِلی کے ساتھ جینے کا آپشن ٹھکراکر بھرپور خوش دِلی کو حرزِ جاں بنایا جائے۔ ایسی حالت میں جینے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا جس میں جینا اور مرنا یکساں نوعیت کا دکھائی دے۔ شعرا کہہ دیتے ہیں کہ ایسے جینے سے تو مرنا اچھا۔ یہ صرف کہنے کی بات ہے۔ کہنا وہ یہ چاہتے ہیں کہ انسان کو مرتے ہوئے نہیں جینا چاہیے بلکہ زندگی بسر کرنے ڈھنگ ایسا ہونا چاہیے کہ موت بھی دیکھے تو رشک کرے ۔ جب تک زندگی ہے تب تک افسردگی، تاسف، پژمردگی کا تصور بھی قریب نہیں پھٹکنا چاہیے۔ ہمیں خالقِ حقیقی نے جو سانسیں عطا کی ہیں وہ پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ بروئے کار لائی جانی چاہئیں۔ ہمارے رب کی یہی مرضی ہے کہ ع
جیو تو ایسے جیو جیسے سب تمہارا ہے
زندگی کو اپناتے ہوئے جینے ہی کا آپشن بہترین ہے۔ ایسی حالت میں جینا ہی جینا ہے‘وگرنہ تو سانسوں کا ایک تسلسل ہے جو چلا جا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں