بڑی طاقتوں کی بے صبری بڑھ رہی ہے۔ امریکا اور یورپ نے عالمی امور میں اپنی پوزیشن کے حوالے سے پیدا ہونے والی کمزوری کو بھانپ لینے کے بعد اب کچھ کرنے کی ٹھانی ہے تو معاملات بگڑتے جارہے ہیں۔ بڑی طاقتوں کے درمیان جب کشمکش بڑھتی ہے تو چھوٹے، کمزور اور پسماندہ ممالک کے لیے وہی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو ہاتھیوں کی لڑائی میں گنّوں کے لیے پیدا ہوتی ہے۔ ہاتھی تو لڑ بھڑ کر چل دیتے ہیں، گنّے کا کھیت اجڑ جاتا ہے۔ ہم کم و بیش چار عشروں سے گنّے کے کھیت کا کردار ادا کر رہے ہیں یا یوں کہیے کہ معاملہ ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ والی کیفیت پر مبنی ہے۔ دنیا ہمارا حال پوچھتی ہے اور ہمیں کہنا پڑتا ہے ؎
کچھ اِس ادا سے یار نے پوچھا مِرا مزاج
کہنا پڑا کہ شکر ہے پرودگار کا
ہمارا معاملہ‘ عالمی معاملات میں مکمل خودمختاری والا نہیں رہا۔ بڑے جو کہتے ہیں وہ کرنا پڑتا ہے۔ ایک پیچیدگی یہ بھی ہے کہ ہم بڑوں سے صرف طاقت و جبر کے معاملے میں مجبور نہیں ہیں بلکہ علمی، ثقافتی اور تہذیی طور پر بھی مغلوب ہیں۔ مغرب کے معاملے میں ہم نے اب تک یہی ثابت کیا ہے کہ ؎
نام لے لے کے تِرا ہم تو جیے جائیں گے
لوگ یونہی ہمیں بدنام کیے جائیں گے
بڑوں کے معاملات میں ہم ایسوں کے لیے بات ماننے سے ہٹ کر کچھ خاص گنجائش بھی نہیں ہوتی۔ ہم نے چار عشروں کے دوران قدم قدم پر یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ بڑوں کو خوش کرنے کے معاملے میں ہم ہر حد تک جائیں گے۔ یہ بھی اپنے آپ میں ایک اچھی بات ہے کہ بڑوں کو خوش کرکے اپنے لیے تھوڑی بہت گنجائش پیدا کی جائے۔ ہمارے معاملے میں اصل خرابی یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کی خوشنودی یقینی بنانے کے نام پر ہم نے سیاسی میدان کے دوسرے بہت سے کھلاڑیوں کو ناراض کیا۔ ایک زمانے تک چین اور روس نے ہمیں رام کرنے کی کوشش کی۔ اُن کے اپنے مفادات ہیں اور اِن مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر وہ بھی ہمارے لیے بہت کچھ کرنے کو تیار تھے۔ ہمارا معاملہ یہ تھا کہ امریکا اور یورپ کو خوش کرنے سے ہی فرصت نہ تھی۔ یہ کیفیت ختم کہاں ہوئی ہے؟
کچھ دنوں سے معاملات ذرا تیزی کی طرف گئے ہیں۔ افغانستان سے اپنی بساط لپیٹنے کے بعد امریکا اور یورپ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ انہیں اب پاکستان کی زیادہ ضرورت نہیں رہی۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی امریکا کو براہِ راست انتباہ کیا ہے کہ اُسے فوجی اڈے کسی طور نہیں دیے جائیں گے۔ اس کے جواب میں امریکی قیادت کی طرف سے کہا گیا کہ اڈے درکار ہی کب ہیں۔ وزیر اعظم کے بیان کی بنیاد پر مباحث کا بازار گرم ہے۔ اُن کے حامی شادیانے بجارہے ہیں کہ پالیسی کھل کر بیان کی گئی ہے اور دوسری طرف مخالفین و ناقدین یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ محض بڑھک ہے یعنی جب بھی امریکا اور یورپ مل کر کچھ کرنا چاہیں گے تب ہمیں اُن سے اشتراکِ عمل کرنا ہی پڑے گا۔ وہ کیا چاہتے ہیں یہ ابھی واضح نہیں اور ہماری قیادت تب کیا کرے گی اس بارے بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر پھر بھی اتنا تو ہے کہ ایک بات کھل کر کہہ دی گئی ہے۔ قوم کے اعتماد میں اضافے کے لیے یہ بھی کافی ہے۔
چین کو گھیرنے کے حوالے سے کیے جانے والے امریکی و یورپی اقدامات میں اب تیزی آگئی ہے۔ امریکا کو زیادہ فکر لاحق ہے کیونکہ اُسی کی طاقت اور قائدانہ حیثیت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ یورپ معاشی اعتبار سے مضبوط ہے اور امریکا کے ساتھ ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اُس نے عسکری اعتبار سے امریکا کے بغل بچے کا کردار ادا کیا ہے۔ دفاعی ٹیکنالوجی کے میدان میں یورپ نے اپنے آپ کو خوب منوایا ہے مگر سلامتی سے متعلق امور میں عملی شرکت سے وہ بہت حد تک گریزاں رہا ہے۔ فرانس، برطانیہ اور جرمنی کا تیار کردہ جنگی ساز و سامان دنیا بھر میں استعمال ہوتا ہے مگر ان ممالک کے فوجی دیگر خطوں میں خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ امریکا اس حوالے سے بہت نمایاں رہا ہے۔ پالیسیوں کے عسکری پہلو میں اس کا غرور و تکبر بھی نمایاں ہے۔ وہ باقی دنیا کو اپنے انگوٹھے تلے رکھنا چاہتا ہے۔ بعض ممالک خود اس انگوٹھے کے نیچے سر دینے کو تیار رہتے ہیں‘ ایسے میں وہ تفاخر میں کیوں نہ مبتلا ہو؟
پاکستان اب تک ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ ایک طرف چین ہے اور دوسری طرف مغرب۔ چین کو ایک خاص حد تک رکھنے کی مغربی کوششیں سب پر عیاں ہیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ چین کا اثر و رسوخ جنوب مشرقی ایشیا سے آگے نہ بڑھے۔ چین نے افریقہ میں بھی بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس خطے کو مغرب نے صدیوں سے پسماندگی کی دلدل میں پھنسا رکھا ہے۔ مسلم ممالک بھی افریقی ممالک سے اشتراکِ عمل سے گریزاں رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا اور مغربی ایشیا (مشرقِ وسطیٰ) مل کر افریقہ کے حالات میں فیصلہ کن نوعیت کی مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ اس معاملے میں اب تک کچھ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ چین چاہتا ہے کہ افریقہ کے حالات بدل کر وہاں اپنے لیے معاشی ہی نہیں، اسٹریٹیجک اعتبار سے بھی گہرائی و گیرائی پیدا کرے۔ غیر معمولی سرمایہ کاری کی بدولت چین نے افریقیوں کے دلوں میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کیا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ افریقیوں میں چین کے لیے پایا جانے والا پسندیدگی کا جذبہ ماند پڑے اور وہ چینیوں سے اشتراکِ عمل ترک کرکے مغرب کی طرف دیکھیں۔ یہ بات افریقیوں کے لیے بھی سمجھنے کی ہے کہ انہیں اب تک مغرب نے دیا کیا ہے۔ اگر امریکا اور یورپ سے کچھ ملا ہو تو بات اور ہے۔ اس پورے خطے کو مغرب نے دبوچ کر رکھا ہے اور صرف اپنا مفاد نکالنے پر توجہ دی ہے۔ ایسے میں چین سے منہ موڑ کر دوبارہ امریکا اور یورپ کی طرف دیکھنے سے افریقیوں کو کیا ملے گا؟ اگر ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہونے کی گنجائش نکلتی ہو تو کوئی بات بھی ہے۔ امریکا اور یورپ اب بھی افریقہ کے حوالے سے کوئی خوش کن بات کہنے کو تیار نہیں۔ خواہش صرف یہ ہے کہ افریقہ چین کا ساتھ نہ دیں، اُس سے امیدیں وابستہ نہ رکھیں۔ اس کے جواب میں کچھ دینے کی ضمانت دی جارہی ہے نہ یقین دہانی کرائی جارہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ چین سے دوستی بہت مضبوط ہے جو کسی بھی دباؤ کے تحت کمزور نہیں پڑے گی۔ چینی ٹی وی سے انٹرویو میں یہ بات کہنے بعد انہوں نے چینی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ اجلاس سے ورچوئل خطاب میں بھی کہا کہ پاکستان اور چین کی دوستی لازوال ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ امریکا نے بھارت کو ساتھ ملاکر چین مخالف اتحاد ''کواڈ‘‘ بنایا ہے۔ بھارت اور چین کے تعلقات میں ایک زمانے سے پائی جانے والی کشیدگی سے استفادہ کرتے ہوئے امریکا نے اُسے چین کے خلاف دیوار کے طور پر استعمال کرنے کی ٹھانی ہے۔ بھارتی قیادت یہ سب دیکھنے کے بعد بھی کہ خلیج میں امریکا اور یورپ کا کردار کیا تھا اور یہ کہ ویتنام اور لاطینی امریکا کی اکثر ریاستوں سے شدید غیر انسانی سلوک روا رکھنے میں بھی امریکا نے کبھی بخل اور ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا‘ امریکا کے آگے بچھ بچھ جاتی ہے
امریکا ایک بار پھر جنوبی ایشیا میں سیاست و سفارت کاری کا درجۂ حرارت بلند کرکے عدم استحکام کی سی کیفیت پیدا کرنے کے درپے ہے۔ اس کیفیت نے طول پکڑا تو خطے کے ممالک باہمی کشمکش کا شکار رہیں گے، سیاسی عدم استحکام بڑھے گا، افلاس پر قابو پانے سے متعلق کی جانے والی کوششیں کمزور پڑیں گی۔ بہتر یہی ہے کہ پاکستان، چین اور بھارت مل کر کوئی ایسا فورم تشکیل دیں جس کی مدد سے کشیدگی کی کیفیت دم توڑے اور خطے کے ممالک میں ایک دوسرے کو قبول کرتے ہوئے اشتراکِ عمل کی راہ ہموار ہو۔ دیکھتے ہیں، خطے کے نصیب میں ایسا کوئی فورم ہے بھی یا نہیں۔