"MIK" (space) message & send to 7575

ایک زمانے کے بعد اچھی خبر

اچھی خاصی تباہی و بربادی کا بازار گرم کرنے اور اُس سے کہیں زیادہ ذلت اٹھانے کے بعد امریکا نے افغانستان سے بوریا بستر لپیٹ لیا ہے۔ انخلا مکمل ہونے کو ہے۔ پہلے کہا گیا تھا کہ انخلا نائن الیون یعنی 11 ستمبر تک مکمل کرلیا جائے گا۔ یہ ڈیڈ لائن اب کم کرکے 31 اگست کردی گئی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن خاصے ''حقیقت پسند‘‘ واقع ہوئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ یا جارج واکر بش کی طرح بڑھکیں مارنے کے بجائے انہوں نے جنگ پسند امریکی ذہنیت کے خلاف ''علمِ بغاوت‘‘ بلند کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا اب افغان سرزمین پر کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ یعنی وہ نہیں چاہتے کہ امریکی فوج اس خطے میں مزید الجھ کر رہ جائے اور اُس کی مزید ''کُٹ‘‘ لگے۔
خیر‘ اچھی خبر یہ ہے کہ طالبان نے اب اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرلی ہے۔ جتنی حقیقت پسندی امریکیوں نے دکھائی ہے اُس سے کہیں زیادہ طالبان دکھارہے ہیں۔ امریکیوں کی طرف سے حقیقت پسندی کا مظاہرہ حیرت انگیز نہیں۔ وہ ہمیشہ موقع پرست رہے ہیں اور جب بھی پالیسیوں کا جھول سامنے آتا ہے وہ راہ بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ خرابی بھی وہ کمزور معاشروں اور کمزور خطوں میں پیدا کرتے ہیں۔ کسی طاقتور سے ٹکرانے کی ہمت امریکیوں میں پہلے تھی نہ اب ہے۔ سوویت یونین کے خلاف امریکا اور یورپ نے مل کر محاذ کھڑا کیا مگر معاملات سرد جنگ تک محدود رہے‘ کبھی گرم نہ ہو پائے۔
طالبان نے اپنے پہلے دور کے تلخ تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت ضرور چاہتے ہیں مگر اب یہ لازم دکھائی نہیں دیتا کہ وہ ہر معاملے پر متصرف ہونے کا سوچیں۔ حیران کن و خوش کن خبر یہ ہے کہ وہ اب گفت و شنید کی بات بھی کر رہے ہیں اور مل کر کام کرنے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں۔ یہ واقعی ایسی خبر ہے جس پر شادیانے بجانا تو بنتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے دو دن قبل وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ طالبان کی طرزِ فکر و عمل میں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ وہ اب ہر معاملے میں اپنی برتری کا نہیں سوچ رہے۔ انہوں نے واضح کردیا ہے کہ وہ کوئی ایسی حکومت نہیں چاہتے جس میں وہی اول بھی ہوں اور وہی آخر بھی۔ امریکی صدر نے ایک معنی خیز بات یہ بھی کہی کہ سب یہ دیکھنے کو بے تاب ہیں کہ طالبان کب دارالحکومت کابل پر قبضہ کرکے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں۔ جو بائیڈن کے خیال میں یہ لازم نہیں کہ طالبان پورے ملک پر حقیقی اور واقعی تصرف یقینی بنائیں۔ اب تک تو یہی دکھائی دے رہا ہے کہ طالبان ایسا سیاسی عمل چاہتے ہیں جس میں ملک کے سیاہ و سفید کے وہ تنہا مالک نہ ہوں۔ افغانستان میں صرف پشتون نہیں بستے۔ تاجک‘ ازبک اور ہزارہ نسل کے لوگ بھی افغان معاشرے کا حصہ ہیں۔ اختلافات اور تنازعات اپنی جگہ مگر سب کو مل کر ہی رہنا ہے۔ افغانستان ان چاروں نسلوں کی سرزمین ہے۔ طالبان نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا ہے کہ جس طور سب کو خوش نہیں رکھا جاسکتا بالکل اُسی طور سب کو ناراض کرنے سے بھی کچھ ملنے والا نہیں۔
افغانستان بہت سے ممالک کے لیے گلے کی ہڈی ہے۔ ہمارے لیے بھی افغانستان کوئی آسان معاملہ نہیں۔ ایک زمانے سے ہم اس امر کے لیے کوشاں ہیں کہ یہ ملک ہمارا ہو رہے مگر اب تک ایسا ممکن نہیں ہو پایا۔ سابق سوویت یونین کی افواج نے جب افغانستان پر لشکر کشی کی تب مغرب نے سوویت قیادت کو سبق سکھانے اور یہ باور کرانے کی ٹھانی کہ افغانستان پر لشکر کشی ایسی غلطی ہے جو اُس کی بقا کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ سبق سکھانے کے لیے پاکستان کو کلیدی آلے کے طور پر بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یوں پاکستان پرائی آگ میں کودا۔ اس آگ میں ہمارا کیا کچھ جل کر خاک ہوا یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
سابق سوویت یونین کی افواج کو افغانستان تک محدود رکھنے اور گرم پانیوں تک نہ پہنچنے دینے کی کوشش میں پاکستانی معاشرے کا تیا پانچا ہوگیا۔ ایک طرف تو تیس پینتیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کی آمد سے پاکستانی معاشرے میں پیچیدگیاں پیدا ہوئیں اور دوسری طرف ملک میں دہشت گردی کا بازار گرم ہوا۔ افغانستان میں مجاہدین کی پشت پناہی کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنے کی پاداش میں پاکستان کو بھی افغان اور سوویت خفیہ اداروں نے نشانے پر رکھا۔ اس صورتِ حال کا بھارت نے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران تین بڑی خفیہ ایجنسیوں نے پاکستان کو غیر مستحکم رکھنے کی پالیسی اپنائی اور اُس پر یوں کاربند رہیں کہ پاکستان میں بہت کچھ بگڑ گیا۔
طالبان کو اقتدار ملا تو روس اور بھارت دونوں ہی کیلئے بہت بُرا ہوا۔ اُن کی سُبکی ہوئی اور اس سُبکی کا بدلہ لینے کیلئے انہوں نے طالبان کا اقتدار کمزور کرنے کی ٹھانی۔ طالبان کی حکومت ختم کرکے معاملات کو مزید بگاڑنے میں امریکا اور یورپ نے بھی روس اور بھارت کی ہم نوائی کی۔ افغانستان میں طالبان کا اقتدار ختم ہونے کی صورت میں روس ایک بار پھر تمام معاملات پر متصرف ہوسکتا تھا۔ ایسی صورت میں بھارت کیلئے بھی افغانستان میں پنپنے کی اچھی خاصی گنجائش پیدا ہوسکتی تھی۔ نائن الیون کے ذریعے طالبان کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال کر اپنی مرضی کے لوگ بٹھانے کا عمل شروع ہوا۔
افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھارت نے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اُس نے سرمایہ کاری بٹھائی تاکہ سٹریٹجک ڈیپتھ پیدا کرنے میں آسانی ہو۔ پہلے حامد کرزئی اور اب اشرف غنی کے عہدِ صدارت میں بھارت نے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ طالبان کی بہتر پوزیشن دیکھ کر بھارت بھی پریشانی میں مبتلا ہے۔ نئی دہلی کے پالیسی میکرز یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ اگر اقتدار طالبان کو مل گیا تو افغان سرزمین پر بھارتی مفادات کا کیا ہوگا۔ طالبان کو کچلنے کا عمل تیز کرنے کے حوالے سے شمالی اتحاد کے ہاتھ مضبوط کرنے میں بھارت نے بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ طالبان یہ بات کیسے بھول سکتے ہیں؟ افغان سرزمین پر بھارتی سرمایہ کاری بھی خطرے میں ہے اور بھارتی باشندے بھی۔ طالبان کی واپسی کے آثار نمایاں ہونے پر بھارتی باشندے بھی بوریا بستر باندھ رہے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر اُن کے خلاف بھی کچھ کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے لیے بہترین آپشن یہ ہے کہ وہ اس مرحلے پر الگ تھلگ رہے اور خاموشی سے صرف تماشا دیکھے۔ طالبان کے لیے امکانات اور گنجائش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ انتہائی خوش کن امر ہے۔ طالبان کو اقتدار ملنے کی صورت میں پاکستان کے لیے معاملات بہتر ہونے کی راہ ہموار ہوگی۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب ہم افغانستان میں غیر ضروری طور پر دلچسپی لینے سے گریز کریں اور وہاں کے معاملات کو وہیں کی طاقتوں کے ذریعے درست ہونے دیں۔ طالبان نے اپنی طرزِ فکر و عمل میں جو نرمی دکھائی ہے وہ معاملات کو درستی کی طرف لے جانے میں خاصی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان سمیت تمام بیرونی قوتوں کو افغان معاملات میں مداخلت سے گریز ہی کرنا چاہیے۔ طالبان کو اقتدار کب ملتا ہے یہ ایک الگ بحث ہے اور وہ اقتدار کے بغیر بھی اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں رہتے ہوئے معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھیں یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ بہر حال‘ اتنی امید ضرور رکھی جاسکتی ہے کہ طالبان کی طرزِ فکر و عمل میں رونما ہونے والی تبدیلی یعنی نرمی سے دیگر فریق بھی اپنی طرزِ فکر و عمل بدلنے پر ضرور مائل ہوں گے۔ افغانستان میں ایسی قومی حکومت کے قیام کی توقع رکھی جانی چاہیے جس میں طالبان کلیدی حیثیت رکھتے ہوں تب بھی دیگر نسلوں کی نمائندگی معقول ہو۔ کابل کے ایوانِ اقتدار میں پورے ملک کی نمائندگی یقینی بنائے جانے ہی سے ملک میں حقیقی استحکام کی راہ ہموار ہوگی۔ اسلام آباد کے لیے معقول ترین روش یہی ہے کہ وہ کابل کو سیدھا کرنے کی کوشش میں اپنے معاملات کو خواہ مخواہ ٹیڑھا کرنے سے گریز کرے۔ حقیقت پسندی یہی ہے کہ طالبان کو اپنے معاملات خود طے کرنے دیا جائے۔ ہم نے اس معاملے میں پہلے بھی بہت ٹھوکریں کھائی ہیں۔ مزید خرابی سہنے کی گنجائش نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں