طاقت کی کہانی ہر دور میں ایک ہی سمت سفر کرتی رہی ہے۔ جس میں طاقت ہوتی ہے اُسے زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول یقینی بنانے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ یہ معاملہ لالچ کا بھی ہے اور مجبوری کا بھی۔ لالچ یوں کہ زیادہ سے زیادہ طاقت کا مطلب ہے کہ وسائل پر زیادہ سے زیادہ اختیار ‘اور ایک ایسا معیارِ زندگی یقینی بنانا جس کا دوسرے یعنی کمزور صرف خواب دیکھا کرتے ہیں۔ جس شخص میں طاقت ہوتی ہے وہ قابلِ رشک انداز سے جیتا ہے اور جس ریاست میں طاقت ہوتی ہے وہ بھی اِدھر اُدھر ٹانگ اڑانے کی عادی ہوتی جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ وسائل سمیٹ یا بٹور کر ایک ایسا معیارِ زندگی یقینی بنائے جسے دوسرے رشک اور حسد کی نظر سے دیکھیں۔ اور مجبوری یوں کہ جب بھی کوئی فرد یا معاشرہ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو وہ کمزوروں کے حقوق اور وسائل پر ڈاکے ڈالتا جاتا ہے۔ ہر طاقتور دراصل کمزوروں کو لُوٹ کر، اُن کا استحصال و استیصال کرکے ہی اپنا اُلو سیدھا کرتا آیا ہے۔ یہ کوئی آج کل کا قصہ نہیں، صدیوں بلکہ ہزاروں برس سے چلی آرہی داستان ہے۔ ہر طاقتور کو یہ خوف بھی لاحق رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جنہیں ایک مدت تک کچلا گیا ہے وہ سَر اٹھائیں اور متحد ہوکر استعمار و استحصال کا بازار بند کرنے کے لیے محاذ بنائیں اور بدلہ لینے پر تُل جائیں۔ بدلہ لینے کا معاملہ بھی بڑے پیمانے کی خرابیوں کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔ جنہیں مدتوں کچلا گیا ہو وہ جب بدلہ لینے پر آتے ہیں تو ہر حد بھول جاتے ہیں اور مظلوم کے زُمرے سے نکل کر ظالموں کی صف میں آجاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ طاقتور ریاستیں معاملات کو انتقام تک پہنچنے سے روکنے کے لیے کمزور ریاستوں اور خطوں کو مسلسل لُوٹتی رہتی ہیں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کے قابل ہی نہ ہوسکیں۔ طاقتور کے لیے لازم ٹھہرتا ہے کہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے کوشاں رہے۔ اس کے لیے وہ ظلم و ستم کی راہ پر چلنے سے بھی گریز نہیں کرتا کیونکہ اِس کے سوا‘ اس کے تئیں‘ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
ڈیڑھ دو ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک نے بڑی طاقت کی حیثیت اختیار کی اُنہوں نے کمزوروں کو کچل کر رکھ دیا۔ ہر دور کی تاریخ کمزوروں کو کچلنے کی داستانوں سے عبارت ہے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری رہا ہے۔ اِس وقت بھی تمام بڑی طاقتوں کی برتری اُس وقت تک برقرار رہ سکتی ہے جب تک کمزور کچھ کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے، اٹھ کھڑے نہیں ہوتے۔ یہی سبب ہے کہ طاقتور ممالک کی ساری کی ساری منصوبہ سازی کا مرکزی نکتہ اور بنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ کمزور ممالک اور خطوں کو کمزور تر بنانے یا موجودہ پوزیشن پر رکھنے کی کوشش کی جائے اور اِس سلسلے میں اگر گھی سیدھی انگلی سے نہ نکل پائے تو انگلی ٹیڑھی کی جائے یعنی دھونس دھمکی سے بھی کام لیا جائے، ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جائے اور قتل و غارت سے یکسر گریز نہ کیا جائے۔ چار صدیوں سے یہ گھناؤنا کھیل جاری ہے۔
کسی زمانے میں کوئی بڑی طاقت جب کسی خطے کو فتح کرتی تھی تو لُوٹ مار کے بعد وہاں سے چل دیتی تھی۔ ساری خرابی کچھ مدت کے لیے ہوتی تھی۔ تین چار صدیوں کے دوران معاملہ یہ رہا ہے کہ کسی خطے پر تصرف قائم کرنے کے بعد وہاں جڑیں مضبوط کی جاتی ہیں تاکہ وہاں کے قدرتی اور انسانی وسائل سے جی بھرکے فوائد بٹورے جاتے رہیں۔ نوآبادیاتی نظام میں یہی ہوا۔ مغربی طاقتوں نے جب جدید علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت یقینی بنالی تو باقی دنیا کو جاہل، غیر مہذب اور پس ماندہ قرار دینے پر تُل گئیں۔ کبھی کسی خطے کو کسی بڑے حملے سے باز رکھنے کی خاطر حفظِ ما تقدم کے طور پر چڑھائی کی گئی اور کہیں لشکر کشی کے لیے اصلاح کا بہانہ تراشا گیا۔ مغربی دنیا باقی دنیا کو مہذب بنانے کے خبط میں بھی مبتلا رہی ہے۔ سینکڑوں برس جہالت کے اندھیروں میں بھٹکنے والی اور انسانیت سوز قسم کی طرزِ زندگی سے متصف یورپی اقوام نے تین چار صدیوں میں مادّی اعتبار سے کچھ پایا ہے اور فطری علوم و فنون میں پیش رفت ممکن بنائی ہے تو اس کے بل پر باقی دنیا کو وہ جاہل قرار دے کر اُنہیں کمتر ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ علم و فن کو پوری دنیا میں عام کرنا اور دوسروں کو بھی اپنے کمال سے فیض یاب کرنے اور اپنے کمالات کے ذریعے دوسروں کو دبوچ کر رکھنے میں بہت فرق ہے۔ مغربی طاقتوں نے کم و بیش چار صدیوں کے دوران باقی دنیا کو ایسے برتا ہے جیسے اُس میں انسان نہیں‘ جنگلی جانور بستے ہوں۔ پس ماندہ خطوں پر یوں ہاتھ صاف کیا گیا ہے جیسے وہ ذاتی جاگیر ہوں۔
بیسویں صدی کے دوران بھی پس ماندہ خطوں کو خام مال اور سستی افرادی قوت کی فراہمی یقینی بنائے رکھنے کی خاطر دبوچ کر رکھا گیا ہے۔ طریقے اب تھوڑے بدل گئے ہیں۔ کل تک استعماری قوتیں کام کرتی تھیں اور کمزور ممالک یا خطوں کو غلام کی سی حیثیت میں زیرِ تصرّف رکھا جاتا تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ قرضے دے کر یا پھر اپنی کٹھ پتلی حکومتیں بناکر کمزور اور پس ماندہ اقوام کو زیرِ نگیں رکھا جاتا ہے۔ سات عشروں کی تاریخ گواہ ہے کہ امریکا اور یورپ نے کمزور خطوں کو کچل کر ہی اپنی طاقت میں اضافہ کیا ہے۔ کسی بھی طاقتور اور ابھرتی ہوئی ریاست کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت اِن میں بالکل نہیں پائی جاتی۔ اِس کی واضح ترین مثال یہ ہے کہ افغانستان جیسے تباہ حال ملک سے خطرات کے لاحق ہونے کا راگ الاپ کر امریکا اور اُس کے یورپی حاشیہ برداروں کے فوجی آئے اور پورے خطے کے لیے عدم استحکام کا سامان کرگئے۔ یہ سب کچھ دو چار دن نہیں بلکہ دو عشروں تک ہوتا رہا۔ اس دوران پورے خطے کو معیشت، سیاست، معاشرت اور دو طرفہ و علاقائی تعلقات کے حوالے سے جو خسارہ برداشت کرنا پڑا‘ اُس کے ازالے کے لیے زمانے درکار ہیں۔ یہ ہے طاقت کی کہانی۔
امریکا اور یورپ نے کم و بیش سات عشروں سے جو کھیل جاری رکھا ہوا ہے اب اُسے روکنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ کھیل وہ دونوں تو روکیں گے نہیں۔ کمزور ممالک اور خطوں کو ابھرتی ہوئی قوتوں کے ساتھ مل کر مغرب کے سامنے شدید مزاحمت کی دیوار کھڑی کرنا ہوگی۔ یہ کوئی ایسا کام نہیں کہ محض سوچنے یا فیصلہ کرلینے سے ہو جائے۔ اس وقت امریکا اور یورپ اپنی طاقت میں واقع ہونے والی کمی کی رفتار گھٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اِس کے لیے انہوں نے کئی خطوں میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ لاک ڈائون اور ذرائع نقل و حمل پر پابندی سے پس ماندہ اور تھوڑی سی ابھرتی ہوئی معیشتوں کا دھڑن تختہ کرنے کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔ ایسے میں کمزور ممالک اور خطوں کو مل کر کچھ کرنا ہوگا۔
چین، روس، ترکی، ایران اور پاکستان کے درمیان ہم آہنگی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک نیا بلاک ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک اپنی پالیسیاں تبدیل کریں اور اُس کمزوری سے نجات پانے کی بھرپور کوشش کریں جس سے شہ پاکر امریکا اور یورپ اب تک اپنی مرضی کے مطابق اُنہیں برتتے آئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں انتظامی سیٹ اپ میں اصلاحات کا کیا جانا لازم ہے۔ محبِ وطن قیادتیں ہی ملک کا کچھ بھلا کرسکتی ہیں۔ پس ماندہ دنیا کو پہلے مرحلے میں اپنوں نے لُوٹا۔ حب الوطنی سے سرشار شخصیات حکومتی نظام کا حصہ بنیں گی تو ہی کچھ ہوگا، کمزور ممالک اور خطے سنبھل کر آگے بڑھ سکیں گے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ طاقت ایک عجیب ہی نشہ ہے۔ اِس نشے میں چُور رہنے والے ظلم کا بازار گرم رکھنے سے خود کہاں رُکتے ہیں، اُنہیں روکنا پڑتا ہے۔ طاقت کی راہ روکنا ممکن ہے تو صرف طاقت سے۔ کوئی اگر زبردستی اور نا انصافی پر تُل گیا ہو تو اُس کے سامنے امن کا پرچم لہرانے سے مطلوب نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ طاقتور کی بدمستی بھرپور طاقت کے ساتھ یعنی منہ توڑ جواب دینے ہی سے ختم ہوسکتی ہے۔