ہمیں اپنے ماحول میں ایسے بہت سے معاملات ملیں گے کہ لوگ بہت چھوٹی عمر میں مر جاتے ہیں مگر تدفین خاصی مدت کے بعد ہوتی ہے! کیا واقعی؟ ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی مر تو جائے مگر اُسے دفنایا نہ جائے؟ آپ سوچیں گے ایسا تو کہیں بھی نہیں ہوتا۔ ایسا ہوتا ہے اور کم و بیش ہر معاشرے میں ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی ایسے لوگ خاصی بڑی تعداد میں ملتے ہیں جو بہت چھوٹی عمر میں مر جاتے ہیں مگر پھر بھی معاشرے کا حصہ رہتے ہیں۔ ترقی پذیر معاشروں میں تو خیر انتہائی واضح اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو کسی جواز کے بغیر دنیا میں رہتے ہیں اور موت واقع ہو جانے کو طویل مدت گزر جانے پر دفنائے جاتے ہیں۔ بات اِتنی سی ہے کہ جب انسان مقصدِ حیات بھول بیٹھے یا اس کا تعین ہی نہ کر پائے تو اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہ موت ضمیر کی بھی ہوتی ہے اور روح کی بھی۔ جب انسان کو یہ اندازہ ہی نہ ہو کہ اُسے دنیا کا قرض چکانا ہے‘ تب اُس کے جینے یا مرنے سے کسی کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ دور نہ جائیے‘ اپنے ماحول یا قریبی حلقے پر اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو آپ پائیں گے کہ ایک ہجوم ہے جو کسی واضح مقصد اور ہدف کے بغیر جی رہا ہے۔ اِس طور جینا کسی کام نہیں ہوتا کیونکہ جینے والوں کو معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ اِس دنیا میں کیوں ہیں اور اُنہیں کیا کرنا ہے۔
تین چار دن قبل ایک خبر آئی کہ جنوبی بھارت کی ایک اداکارہ نے خود کشی کرلی۔ سوجنیہ نے ایک نوٹ چھوڑا جس میں لکھا تھا کہ اُس کی موت کے لیے اہلِ خانہ سمیت کسی کو بھی ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔ اُس نے یہ بھی لکھا کہ وہ اس لیے جان دے رہی ہے کہ بظاہر جینے میں کچھ دم نہیں رہا، ایسا لگتا ہے کہ اندر کوئی مر گیا ہے! اس نے اپنے اندر کسی کے مرنے کی بات تو لکھ دی مگر اس حوالے سے کسی سے مشاورت کرنا مناسب نہ جانا۔ اگر وہ متعلقہ معاملات کے کسی جانکار یعنی نفسی امور کے ماہر سے رابطہ کرتی، اپنا مسئلہ بیان کرتی تو ضرور اصلاح کی کوئی صورت نکلتی اور وہ بے دِلی کے ساتھ جینا چھوڑ کر زندگی کی طرف واپس آتی اور کسی واضح مقصد کے تحت زندگی بسر کرتی۔ نفسی امور کے ماہرین سے مشاورت کی صورت میں راہ ملتی ہے۔ ہم ایک ایسے دور کا حصہ ہیں جس میں سبھی الجھے ہوئے ہیں۔ اس وقت دنیا کا کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اُس میں کسی بھی حوالے سے کوئی ذہنی، نفسی یا روحانی پیچیدگی نہیں۔ جن کی تربیت ہوئی ہے اور جو کردار و اخلاقی اقدار کے بارے میں بہت کچھ جانتے اور سمجھتے ہیں‘ وہ بھی الجھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ جنہیں کبھی ڈھنگ کی تربیت پانے کا موقع ہی نہیں ملا اُن کی ذہنی و روحانی حالت کیا ہوگی۔
انسان چاہے کچھ بھی سوچے، سمجھے اور کرے‘ قدرت کا اپنا نظام ہے جس کے تحت گزاری جانے والی زندگی ہی کام کی ہوتی ہے۔ اللہ نے ہمیں ہر معاملے میں بہترین راہِ عمل دکھادی ہے۔ اپنی ذات سے معاشرے تک تمام ہی رشتوں، رابطوں اور تعلقات کی نوعیت سے مطابقت رکھنے والی ہدایات ہمارے لیے اللہ کے پیغام میں موجود ہیں۔ ہم اللہ کے احکام کی روشنی میں اپنے لیے ایسی راہِ عمل چُن سکتے ہیں جو منزلِ مقصود تک پہنچانے میں معاون ثابت ہو۔ جو تربیت یافتہ اور حُسنِ خُلق کے حامل ہیں وہ اس بات کا پورا خیال رکھتے ہیں کہ اُن کی ذات سے کسی کو ذرا سی بھی تکلیف نہ پہنچے اور اُن کا وجود اپنی صلاحیت و سکت سے لوگوں کیلئے منفعت کے حصول کا ذریعہ ثابت ہو۔ ایسے لوگ بامقصد اور بامعنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ دنیا سے جو کچھ ملا ہے اُس کے عوض اِسے کچھ نہ کچھ دے کر جائیں۔ کچھ نہ کچھ دے کر جانے کی ذہنیت اُنہیں دنیا کے لیے زیادہ سے زیادہ منفعت بخش بنانے کی تحریک دیتی رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف تربیت یافتہ اور اچھے اخلاق کے حامل افراد ہی کو نہیں بلکہ بُرائیوں میں لتھڑے ہوئے لوگوں کو بھی یہ احساس ستاتا ہے کہ اُنہوں نے دنیا سے کچھ لیا تو ہے‘ دیا کچھ نہیں۔ وہ دنیا کو بہت کچھ دینے کا ذہن بھی بناتے ہیں مگر اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ بُرائیوں سے کیونکر جان چھڑائیں اور کیونکر دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ بارآور ثابت ہوں۔ ایسے لوگوں کے لیے پرسنل ٹریک ریکارڈ یا ماضی ایک بڑی رکاوٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ جب بھی دوسروں کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ اُن کا ماضی اُن کے سامنے دیوار کی صورت کھڑا ہو جاتا ہے۔ دنیا اُن کے ماضی کو آسانی سے نہیں بھلاتی۔ وہ طعنے بھی دیتی ہے اور نیت کے حوالے سے تحفطات کا اظہار بھی کرتی ہے۔ یہ سب کچھ فطری ہے۔ آپ خود ہی بتائیے کہ کسی نے بہت سے بُرے کام کیے ہوں اور پھر سُدھرنے پر مائل ہوا ہو تو آپ اُسے آسانی سے قبول کرلیتے ہیں؟ نہیں نا؟ بس یہی وہ الجھن ہے جو بہت سوں کو راہِ راست پر آنے سے یا تو روکتی ہے یا پھر اس پر چلنے نہیں دیتی۔ سوجنیہ کا کیس بھی بظاہر یہ ہے کہ وہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھی مگر راہِ راست پر آنے کے لیے جو حوصلہ افزائی درکار تھی وہ شاید نہیں مل پاتی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے شعبے کی قباحتوں سے تنگ آگئی ہو۔ اندر کسی کے مر جانے کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب انسان بھلائی کی راہ پر چلنا چاہتا ہے مگر بُرائی کا راستہ اُسے قدم قدم پر روکتا ہے اور وہ سمجھ نہیں پاتا کہ اب کیا کرے، کہاں جائے، کس سے مدد طلب کرے۔
اپنے گریبان میں جھانکنے، اپنے وجود کی خامیوں کو پرکھنے اور اُن سے جان چھڑانے کا خواہش مند ہونے اور کسی مستند معالج سے رابطہ کرکے اپنے نفسی و روحانی معاملات درست کرنے میں بہت فرق ہے۔ لوگ بالعموم اِسی منزل میں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ یہ بھی فطری معاملہ ہے۔ اِس مرحلے میں غیر معمولی قوتِ ارادی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ قوتِ ارادی پیدا کرنے اور پروان چڑھانے میں موزوں مشاورت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے میں کبھی کبھی زمانہ لگ جاتا ہے۔ آج کی دنیا کا ایک انتہائی بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان اچھے اور بُرے میں فرق کرنے کا وہ میکنزم نظر انداز کر بیٹھا ہے جو قدرت کا عطا کردہ ہے۔ اس میکنزم کے مطابق زندگی بسر کرنے والوں کو نفسی و روحانی سطح پر مطمئن دیکھا گیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں واضح اکثریت اچھے اور بُرے کا فرق جانتے ہوئے بھی بُرائی کو چھوڑ کر اچھائی کی طرف آنے کی ہمت اپنے اندر پیدا نہیں کر پاتی۔ سوجنیہ جیسے لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ اِنہیں جس سطح کی رہنمائی درکار ہے وہ دستیاب تو ہے مگر یہ اُس کے حصول کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ کسی نہ کسی طور کامیابی یقینی بنانے کی خاطر اخلاقی اقدار کو بھلانے تک محدود رہنے کے بجائے ایسے لوگ اپنی روح کو بھی کچل دیتے ہیں اور پھر سمجھ نہیں پاتے کہ جو کچھ کر گزرے ہیں اُسے 'ناں کیا‘ مطلب اَن ڈُوکیسے کریں۔ اِس مرحلے پر دوستوں اور ہمدردوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اُن سے گفتگو ومباحثے اور کسی ماہر سے مشاورت کی صورت میں ڈھنگ سے زندہ رہنے کا راستا مل سکتا ہے۔ اصلاح کی گنجائش تو ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ اِس گنجائش سے مستفید ہونے کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک پر کامل یقین رکھتا ہو۔ زخمی روح کا علاج ہی نہیں کیا جاسکتا بلکہ روح مرچکی ہو تو رب سے رجوع کی صورت میں اُسے دوبارہ زندہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ نفسی و روحانی مسائل ہر دور میں انسان کا مقدر رہے ہیں۔ آج یہ معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایسے میں اصلاحِ نفس کی خواہش بھی توانا ہونی چاہیے۔ متوازن زندگی بسر کرنے کی خاطر نفس و روح کی حقیقی اصلاح کے لیے سنجیدہ ہونا لازم ہے۔