"MIK" (space) message & send to 7575

معروضی و مثبت سوچنے کا وقت

ہمارے فکر و عمل کی روش بھی خوب ہے۔ کسی بھی چیز کو ٹھیک اُسی وقت خیرباد کہنے کی عادت پختہ ہوچکی ہے جب اُس کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ وقت نے دنیا کو اُس موڑ پر پہنچادیا ہے جہاں سے آگے بڑھنے کے لیے پہلے تو درست راہ کا تعین لازم ہے اور درست راہ متعین ہو جانے پر بھی ہمارا کام ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اِس سے ایک قدم آگے جاکر اُس راہ پر ڈھنگ سے چلنے کا ہنر بھی سیکھنا لازم ٹھہرا۔ آج ماحول میں ہر طرف ایسے معاملات ہیں جو ہر گام منفی سوچ کو پروان چڑھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ حالات حوصلہ شکن ہیں۔ اس ہیجانی کیفیت کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ عام آدمی بہت تیزی سے منفی طرزِ فکر کو گلے لگاتا ہے۔ وہ تحت الشعوری طور پر جانتا ہے کہ معاملات کو سمجھنے کی کوشش آسان نہیں۔ یہ عمل وقت اور توجہ‘ دونوں کا طالب ہے۔ ایسے میں منفی انداز سے سوچنے ہی پر اکتفا کرنے کو بہت کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں ہر طرف منفی سوچ کو آسانی سے قبول کرنے کی روش عام ہے تو یہ کوئی زیادہ حیرت انگیز بات نہیں۔ کسی بھی معاشرے میں عوام کی غالب اکثریت اُسی چیز کو قبول کرتی ہے جو آسان ہو اور جس کے اپنانے سے زندگی میں کوئی واضح خلل پیدا نہ ہوتا ہو۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ہمیں بہت کچھ اعلیٰ و ارفع سطح کا دکھائی دے رہا ہوتا ہے لیکن بغور جائزہ لینے پر اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں بھی عام آدمی سہل انگار ہی ہوتا ہے، تن آسانی ہی کو حرزِ جاں بنائے رہتا ہے۔ مادّی ترقی سب کچھ نہیں ہوتی۔ ہر معاشرے کو کسی ایک مقام پر کچھ دیر رکنے کے بعد آگے بڑھنا ہی ہوتا ہے۔ جس میں آگے بڑھنے کی شدید خواہش نہ پائی جاتی ہو وہ معاشرہ جمود کا شکار ہوکر پستی سے دوچار ہو رہتا ہے۔ کسی بھی انحطاط پذیر معاشرے میں کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ ضرورت مثبت سوچ کی ہوتی ہے۔ مثبت سوچ ہی انسان کو راہِ راست پر آنے کی تحریک دیتی ہے۔ کسی بھی معاملے میں صرف تاریک پہلو تلاش کرنے کی روش ترک کرکے روشن پہلو پر نظر رکھنے کو مثبت سوچ کہتے ہیں۔ یہ طرزِ فکر راتوں رات نہیں پنپتی۔ ہر ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو انسان کا حوصلہ پست کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ بُرے افکار و اعمال انسان کا حوصلہ پست کرتے ہیں۔ صرف ناکام لوگوں کو دیکھتے رہیے تو آپ ناکامی ہی کے بارے میں سوچنے لگیں گے اور پھر یہ طرزِ فکر مرتے دم تک آپ کے ذہن سے چمٹی رہے گی۔ منفی سوچنے کی عادت پختہ ہو جائے تو اُس سے جان چھڑانے کو ایک عمر درکار ہوتی ہے۔ معروضی انداز سے سوچنے والوں کی ہمارے ہاں ہمیشہ کمی رہی ہے۔ اب یہ کمی زیادہ بُری لگ رہی ہے کیونکہ اصلاحِ احوال کی ضرورت بڑھ گئی ہے اور ایسے میں غیر معروضی انداز سے سوچنا نقصان کے دائرے کو وسعت سے دوچار کرتا جارہا ہے۔ اب زندگی کا ہر معاملہ ہم سے مثبت ہی نہیں‘ معروضی سوچ کا بھی متقاضی ہے۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ ایسے میں کامیاب ہونے اور کامیابی برقرار رکھنے کی سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ منفی طرزِ فکر سے بچتے ہوئے عمل نواز رویے کو پروان چڑھایا جائے۔ یہ رویہ اُسی وقت پنپ سکتا ہے جب مثبت انداز سے سوچا جائے۔ خام خیالی کے دائرے میں گھومتے ہوئے غیر منطقی طور پر امکانات کے بارے میں سوچنے اور خالص مثبت انداز سے سوچنے میں بہت فرق ہے۔ تمام معاملات اور حالات کا جائزہ لیتے ہوئے متوازن تعقل کے ساتھ اپنائی جانے والی سوچ مثبت ہوتی ہے۔ اِس میں امکان کا ہر پہلو بھی ذہن نشین رکھا جاتا ہے اور عمل کی گنجائش کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔
آج ہم اُس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں درست راہ کا تعین کرنے کے بعد ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہے۔ اس کے لیے مثبت طرزِ فکر و عمل کا حامل ہونا بنیادی شرط ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کا محض ہونا کافی نہیں۔ اُن کا مثبت ہونا بھی ناگزیر ہے۔ اگر انسان سوچنا جانتا ہو مگر منفی سوچ اُس کے پورے فکری ڈھانچے پر حاوی ہو تو صرف خرابی ہاتھ لگتی ہے۔ اعلیٰ درجے کی تعلیم پانے کے بعد بھی بہت سے لوگ شدید منفی انداز سے سوچتے پائے جاتے ہیں۔ اور یہ نفی اُن کے خیالات تک محدود نہیں رہتی بلکہ اعمال میں بھی در آتی ہے۔ فکر و عمل میں در آنے والی نفی پورے وجود کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر انسان خود کو ڈھیلا چھوڑ دے تو نفی کا کام آسان ہو جاتا ہے اور ایسے میں اثبات اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے کے حالات قدم قدم پر اس امر کے متقاضی ہیں کہ فکر و عمل کے معاملات پر خاطر خواہ توجہ دی جائے۔ بچوں کو چھوٹی عمر سے سوچنے کی تحریک دینا لازم ہے اور ساتھ ہی یہ بھی سکھانا ہے کہ کسی بھی معاملے کے روشن پہلوؤں پر نظر رکھی جائے تاکہ امکان تک پہنچنا آسان ہو۔ ہر معاملے کے تاریک پہلو ہماری فکری ساخت پر تیزی سے حملہ آور ہوتے ہیں اور فوری فتح یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ منفی سوچ کا شکار ہونے میں لوگوں کو زیادہ عافیت محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس کے لیے کچھ کرنا نہیں پڑتا۔ ہاں، مثبت سوچ کو اُس کی پوری قوت اور رعنائی کے ساتھ اپنانے کیلئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہ خاصی ٹیڑھی کھیر ہے مگر ناگزیر بھی ہے۔ منفی سوچ کو اپنانے کی صورت میں صرف بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ مثبت سوچ کو اپنانے سے زندگی اپنی اصل ڈگر پر واپس آتی ہے‘ کچھ کرنے کی تحریک ملتی ہے اور انسان اپنی مرضی کے مطابق جینے کے قابل ہو پاتا ہے۔
ہم اپنے معاشرے کا بھرپور جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ مثبت اور معروضی سوچ سے دور بھاگتے ہیں اور منفی سوچ کو گلے لگائے رہتے ہیں۔ کیوں؟لوگ بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کے بعد بھی اصلاحِ احوال کی طرف کیوں مائل نہیں ہوتے؟ وہ کون سا عامل ہے جو انہیں معروضی انداز سے سوچنے سے روکتا ہے، معاملات اور حالات کا روشن پہلو دیکھنے نہیں دیتا؟ ان تمام سوالوں کا صرف دو الفاظ میں جواب دینا ہو تو کہا جائے گا تن آسانی۔ سہل پسندی اور کاہلی کے ہاتھوں محض انفرادی معاملات کا فسانہ نہیں بلکہ نسلوں اور معاشروں کی تباہی کی داستانیں بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔ معروضی سوچ کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ انسان کسی بھی معاملے میں اُتنا ہی سوچے جتنا لازم ہے اور تیر بہدف انداز سے سوچے یعنی ذہن کو اِدھر اُدھر دوڑائے بغیر طے کردہ راہ پر گامزن رہے، جو کچھ سمجھنا ہے وہی سمجھنے کی کوشش کرے اور جو کچھ سوچنا ناگزیر ہے بس وہی سوچے۔ غیر ضروری معاملات کے بارے میں سوچنا ذہن کی توانائی ضائع کرنا ہے۔ معروضی سوچ انسان کو ذہنی توانائی کے ضیاع سے روکتی ہے۔
یہ تو ہوئی معروضی سوچ! مثبت سوچ کی اصل یہ ہے کہ معاملات کا روشن پہلو ذہن نشین رکھتے ہوئے امکانات تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ جب انسان امکان کے بارے میں سوچتا ہے تو اُس میں جذبۂ عمل بھی پیدا ہوتا ہے اور کچھ کر دکھانے کی راہ بھی ہموار ہوتی جاتی ہے۔ مثبت سوچ انسان کو صلاحیت و سکت کے بروئے کار لانے کی راہ سجھاتی ہے۔ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے اور خواہشات کی دنیا میں بسے رہنے کو مثبت سوچ نہیں کہا جاسکتا۔ مثبت سوچ یہ ہے کہ انسان کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں کا غیر جانبداری اور دیانت سے جائزہ لے کر حقیقت پسندی پر مبنی سوچ اپنائے۔ مثبت سوچ اور حقیقت پسندی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ منفی وہی لوگ سوچتے ہیں جو حقیقت کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ مثبت سوچ انسان کی شخصیت کی رفعت کو ظاہر کرتی ہے اور اِس رفعت کو یقینی بنانے کے لیے حقیقت پسندی کا وصف پیدا کرنا اور پروان چڑھانا لازم ہے۔
آج ہم بہت سے معاملات میں کسی جواز کے بغیر محض اس لیے الجھے ہوئے ہیں کہ ہم نے سوچنے کے ہنر کو نظر انداز کرتے ہوئے جینے کا انداز اپنالیا ہے۔ معروضی اور مثبت طرزِ فکر ہی ہمیں موزوں ترین راہِ عمل سجھا سکتی ہے۔ ماحول کسی بھی درست کام کو آسانی سے ہونے نہیں دیتا۔ مثبت سوچ پروان چڑھتی نہیں‘ چڑھانا پڑتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں