شخصی ارتقا کے ماہرین اس نکتے پر بہت زور دیتے ہیں کہ انسان کو زیادہ سے زیادہ خوش رہنا چاہیے۔ جو لوگ خوش رہتے ہیں وہ دوسروں کو بھی خوش رکھتے ہیں، اُن کی زندگی میں مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ یہاں ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ خوش رہنا ہر انسان کے بس کی بات ہے؟ اور کیا خوش رہنا کوئی ایسا معاملہ ہے کہ کسی سے خوش رہنے کو کہیے اور وہ خوش رہا کرے؟ خوش رہنے سے متعلق جو کچھ بھی لکھا اور کہا جاتا ہے وہ سب کسی نہ کسی حقیقت کے تناظر میں ہوتا ہے۔ شخصی ارتقا کے ماہرین کسی بھی معاملے میں مثبت سوچ اپنانے کا مشورہ حالات کی نوعیت کے مطابق دیتے ہیں۔ اُن کا اصل زور اِس نکتے پر رہتا ہے کہ انسان کو حقیقت پسندی سے تمام معاملات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے لیے ایسی راہ منتخب کرنی چاہیے جس پر گامزن ہوتے وقت اُس دل و دماغ پر غیر ضروری یا بلا جواز بوجھ محسوس نہ ہو۔ ایک بار پھر یہ کہنا پڑے گا کہ ماہرین جو کچھ کہتے ہیں وہ کیسا ہی بھلا لگتا ہو، عمل کے حوالے سے آسان نہیں ہوتا۔ کوئی بھی ماہرانہ رائے محض ایک مشورہ ہی تو ہوتی ہے۔ جسے مشورے پر عمل کرنا ہوتا ہے کچھ اُسی کو اندازہ ہوتا ہے کہ معاملات کتنے پیچیدہ ہیں اور خرابیاں کہاں تک ہیں۔ کسی بھی ماہرانہ رائے پر آنکھیں بند کرکے عمل نہیں کیا جاسکتا۔ ہم سب اپنے اپنے حالات کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں ہمارا بہت کچھ کرنے جی چاہ رہا ہوتا ہے مگر ہم نہیں کر پاتے۔ خوش رہنے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ حالات کا دباؤ ہمیں رنجیدہ رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اور اِس کوشش میں وہ بالعموم کامیاب بھی رہتا ہے۔
زندگی حالات کے دباؤ کے سامنے سینہ سِپر رہنے کا نام ہے۔ ہم سبھی کو مختلف معاملات میں کسی نہ کسی دباؤ کا سامنا رہتا ہے مگر پھر بھی خوش رہنا یا خوش رہنے کی کوشش کرنا ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ کون کس حد تک خوش رہ سکتا ہے اِس کا مدار اصلاً اس بات پر ہے کہ وہ اپنے حالات کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور اُن سے بطریقِ احسن نبرد آزما ہونے کیلئے کتنی تیاری کرتا ہے۔ اس حوالے سے فکری ساخت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ حالات سے لڑنے اور اُنہیں موافق بنانے کی صلاحیت و سکت بھی ہر انسان میں مختلف درجے کی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ مزاجاً ایسے ہوتے ہیں کہ حالات کا ذرا سا دباؤ پڑنے پر بھی ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ دوسری طرف بہت سے لوگ حالات سے لڑتے ہوئے زندگی بسر کرنے میں بھی کچھ زیادہ قباحت محسوس نہیں کرتے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ جو لوگ مشکلات کا دباؤ طویل مدت سے برداشت کر رہے ہوں وہ ہمت ہارنے میں دیر لگاتے ہیں۔ اُن کے مقابلے میں وہ لوگ زیادہ تیزی سے ہمت ہار بیٹھتے ہیں جو سُکون سے جی رہے ہوں اور اچانک انہیں کسی بڑی اُفتاد کا سامنا کرنا پڑے۔ مشکلات کا سامنا کرتے رہنے سے بہت کچھ برداشت کرنے کی ذہنیت بنتی جاتی ہے اور انسان کسی بڑی اُفتاد کو بھی آسانی سے جھیل جاتا ہے۔ آپ اپنے ماحول ہی میں ایسے بہت سے لوگوںکو پائیں گے جو کسی نہ کسی حوالے سے خوش رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور اِس کوشش میں بالعموم کامیاب بھی رہتے ہیں۔ خوش رہنا دراصل فیصلہ ہے اور اِس فیصلے پر عمل کرنے کیلئے قوتِ ارادی کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو یہ فیصلہ کرلے کہ حالات کے جبر کو ایک خاص حد تک ہی برداشت کرنا ہے وہ خوش رہنے کی گنجائش نکال ہی لیتا ہے۔ ہاں، یہ کام آسانی سے نہیں ہوتا۔ اِس کے لیے بہت سوچنا اور بہت کچھ طے کرنا پڑتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں خوش باش لوگ زیادہ نمایاں تعداد میں ملتے ہیں۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ اُن کے تمام ہی بنیادی مسائل حل ہوچکے ہوتے ہیں ۔ایسے معاشروں میں رشتوں اور تعلقات کا معاملہ بھی زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتا۔ جہاں معاشی استحکام پایا جاتا ہو وہاں معاشرتی معاملات میں بھی توازن اور استحکام ہی پایا جاتا ہے۔ جب بیشتر بنیادی معاملات کی ذمہ داری ریاست قبول کرتی ہے تب الجھنیں ہمت ہارنے لگتی ہیں۔ دنیا بھر میں کوئی بھی عام آدمی اُسی وقت رنجیدہ ہوتا ہے جب اُس کی بنیادی ضرورتیں احسن طریقے سے پوری نہ ہو رہی ہوں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں یہ معاملہ چونکہ ہوتا ہی نہیں اس لیے عام آدمی کا بے حد متوازن ذہنی حالت میں ہونا فطری امر ہے۔ یہ کیفیت انسان کو خوش و خُرم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یورپ میں سکینڈے نیویا کی فلاحی ریاستوں میں لوگ زیادہ خوش باش اس لیے ہیں کہ وہاں کم و بیش تمام ہی معاملات کی ذمہ داری ریاست نے اپنے سَر لے رکھی ہے۔ لوگ ٹیکس ادا کرنے کے بعد بے فکر ہو جاتے ہیں۔ ریاست کی طرف سے اُنہیں وہ سب کچھ ملتا ہے جو معیاری زندگی بسر کرنے کیلئے ناگزیر ہوتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں عام آدمی کا کم و بیش ہر وقت خوش رہنا کوئی کمال کی بات نہیں۔ وہاں حکومتیں اس قدر دیتی ہیں کہ انسان کے لیے پریشان ہونے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ خوش رہنا اگر واقعی کوئی بڑا فن ہے تو پس ماندہ معاشروں میں ہے۔ اِن معاشروں میں عام آدمی کے لیے زندگی محض سانسوں کے تسلسل کا نام نہیں بلکہ مستقل امتحان کہہ لیجیے۔ غالبؔ نے کہا تھا ع
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا
پس ماندہ معاشروں میں عام آدمی کے لیے خوش رہنا کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرے، حالات کا دباؤ اثر انداز ہوکر رہتا ہے۔ یہ بھی فطری امر ہے۔ ایسے میں جینے کا مزا تب ہے کہ جب انسان یہ طے کرلے کہ حالات سے نظر چُرانے کے بجائے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا ہے، اپنے آپ کو منوانا ہے۔ خوش رہنے کا اصل مزا تب ہے کہ جب انسان مختلف النوع دباؤ کا سامنا بھی کر رہا ہو اور ہمت ہارنے کا نام نہ لے رہا ہو۔ پنڈت برج نارائن چکبستؔ نے خوب کہا ہے ؎
مصیبت میں بشر کے جوہرِ مردانہ کھلتے ہیں
مبارک بزدلوں کو گردشِ قسمت سے ڈر جانا
خوش رہنا ہر دور کے انسان کی ضرورت رہا ہے۔ مختلف النوع حالات کے ہاتھوں اکھاڑ پچھاڑ ہر دور میں ہوتی رہی ہے۔ اقتدار کی ہوس معاشروں کو تہس نہس کرتی رہی ہے۔ ہر دور کے انسان نے چاہا ہے کہ زندگی زیادہ سے زیادہ سُکون سے گزرے اور خوش و خُرم رہنے کی گنجائش پیدا ہو مگر یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں کہ کہہ دیجیے اور ہو جائے۔ خوش رہنے کے لیے انسان کو محض دوسروں سے اور دوسروں کے پیدا کردہ حالات ہی سے نہیں بلکہ اپنے وجود سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ انسان کو اُس کا اپنا وجود بہت سے معاملات میں بہتری کی طرف جانے سے روک رہا ہوتا ہے۔ انا پرستی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ بہت سوں کو محض اُن کی انانیت ہی معیاری زندگی کی طرف بڑھنے سے روکتی ہے۔ ایسے لوگ چاہتے ہوئے بھی خوش نہیں رہ پاتے اور دوسروں کے لیے بھی الجھنیں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ خوشی کا تعلق نہ تو دولت سے ہے اور نہ ہی طاقت اور شہرت و مقبولیت سے۔ یہ خالص ذہنی کیفیت ہے اور اِس کا اصل تعلق قوتِ ارادی سے ہے۔ جس میں جتنی قوتِ ارادی ہوگی وہ کسی بھی نوع کے حالات میں اُتنا ہی خوش دکھائی دے گا۔ بہت سوں کو آپ اچھی خاصی دولت کمانے کے بعد بھی حالات کا رونا روتے ہوئے پائیں گے۔ اِس کے برعکس بہت سے لوگ سخت نامساعد حالات میں، شدید افلاس کا سامنا کرتے ہوئے بھی خوش رہتے ہیں اور کبھی حالات کا شکوہ کرتے نہیں پائے جاتے۔ انسان اس منزل تک آسانی سے نہیں پہنچتا۔ یہ برسوں کی ریاضت اور قوتِ ارادی کا ثمر ہوتا ہے۔
آج کے انسان کو خوش رہنے پر زیادہ توجہ دینی ہے کیونکہ حواس پر حملے بڑھ گئے ہیں۔ رنجیدہ کرنے والے معاملات بے حساب ہیں۔ وقت انسان کے پاس بہت کم رہ گیا ہے۔ ابھی سو سال پہلے بھی وقت بہت آہستگی سے گزرتا محسوس ہوتا تھا۔ اب شہری زندگی نے وقت کے بہت تیزی سے گزرنے کا احساس توانا کردیا ہے۔ اب ہر اُس انسان کو خوش رہنے کا فیصلہ کرنا ہے جو واقعی معیاری انداز سے جینے کا خواہش مند ہے۔