زندگی اپنے آپ میں آسان ہے نہ مشکل۔ اسے آسان یا مشکل ہم بناتے ہیں۔ ہمارے فیصلے اور ہماری کوششیں ہی طے کرتی ہیں کہ ہماری زندگی کس ڈگر پر چلے گی اور چل بھی سکے گی یا نہیں۔ کوئی بھی معاملہ ہم سے چند ایک معاملات میں واضح ذہن چاہتا ہے۔ اگر ذہن الجھا ہوا ہو تو ہم کسی بھی حوالے سے بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ ایک بنیادی خامی یہ ہے کہ ہم کسی بھی کام کو شروع کرتے وقت اپنے آپ سے چند باتیں نہیں پوچھتے۔ جب تک ذہن میں کام واضح نہ ہو تب تک اُسے ڈھنگ سے مکمل نہیں کیا جاسکتا۔ اور بعض حالات میں تو ڈھنگ سے شروع بھی نہیں کیا جاسکتا اور یوں ہم مطلوب نتائج کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔
معیاری انداز سے جینے کے لیے مثبت سوچ کا ہونا لازم ہے۔ اگر ذہن کسی چیز کو قبول نہ کر رہا ہو تو ہم اُس کے حوالے سے اپنی کارکردگی اطمینان بخش بنانے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ کسی بھی اعتبار سے غیر منطقی یا غیر فطری نہیں۔ کوئی بھی کام اُسی وقت مطلوب نتائج دے سکتا ہے جب اُسے شروع کرنے کے حوالے سے ہمارے ذہن میں کوئی الجھن نہ پائی جاتی ہو۔ الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ شروع کیا جانے والا ہر کام بالآخر صرف خرابی پر منتج ہوتا ہے۔ کسی بھی کام میں ہمارے لیے تین انتہائی بنیادی سوال چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ جو لوگ ان سوالوں کا جواب دینے کی تیاری کرتے ہیں وہ اپنا کام احسن طریقے سے مکمل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ شخصی ارتقا کے ماہرین کہتے ہیں کہ ذہن کا واضح ہونا ایک بڑی نعمت ہے۔ جو کسی بھی کام کو ڈھنگ سے کرنا چاہتے ہیں وہ اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ ذہن میں کوئی گِرہ نہ رہے‘ کوئی معاملہ اٹکا ہوا نہ ہو۔
پہلا بنیادی سوال ہے کیوں۔ جب ہم کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تب ہمارے ذہن کے پردے پر یہ سوال ابھرتا ہے کہ ہم وہ کام کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سوال چونکہ قدرے غیر محسوس ہوتا ہے اس لیے ہم غور نہیں کرتے۔ ذہن میں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ ہم کوئی بھی کام آخر کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ کوئی برقی آلہ خریدنا چاہتے ہیں تو معلوم ہونا چاہیے کہ اُس کی
ضرورت آپ کو کیوں ہے۔ کیوں کا جواب تلاش کرنے کا مطلب ہے مقصد کی وضاحت۔ کوئی بھی چیز ہمارے لیے اُسی وقت حقیقی معنوں میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہے جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہمیں اُس کی ضرورت کیوں ہے۔ ہر چیز کسی نہ کسی کام کے لیے ہوتی ہے۔ اگر ہمیں افادیت کا درست اندازہ ہو تو اُس چیز کا حصول ہمارے لیے آسان ہی نہیں‘ کارآمد بھی ثابت ہوتا ہے۔ مثبت سوچ رکھنے والوں کے لیے اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ وہ کسی بھی کام کے شروع کیے جانے کے وقت ذہن میں کوئی الجھن نہ رہنے دیں۔ مثبت سوچ ہی انسان کو حقیقت پسندی کی طرف بھی لے جاتی ہے۔ جب ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ کوئی بھی کام ہمیں کیوں کرنا چاہیے تب ہم یہ طے کر رہے ہوتے ہیں کہ اُس کام کے کرنے سے ہمیں کیا مل سکے گا۔ اگر کسی کام کا نتیجہ ہماری محنت سے زیادہ ہو تو ہمیں کام کرنے میں لطف محسوس ہوتا ہے۔ بصورتِ دیگر ہم اپنے فیصلے اور ارادے پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ہماری زندگی کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ ہم زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنائیں۔ دیگر مخلوق اس معاملے میں جواب دہ نہیں۔ ہم سے آخرت میں یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ ہم نے زندگی کو آسان بنانے کے لیے کیا سوچا اور کیا۔ جب ہم کسی بھی معاملے میں کیوں کی منزل تک پہنچتے ہیں تب یہ طے ہوتا ہے کہ ہم زندگی کو آسان بنانا چاہتے ہیں اور اپنی محنت کا زیادہ سے زیادہ ثمر حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔
''کیا‘‘ پر غور کرنا بھی ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ جب ہم یہ طے کرلیتے ہیں کہ کوئی کام کرنا ہے تو پھر یہ طے کرنا رہ جاتا ہے کہ اُس کام کی احسن طریقے سے تکمیل کے لیے کرنا کیا ہے۔ جو کچھ ہمیں کرنا ہی ہے وہ جاننا لازم ہے تاکہ ہم اپنے لیے بہتر منصوبہ سازی کرسکیں۔ ہم زندگی بھر بہت کچھ کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا تجربہ ہماری راہ نمائی کرتا ہے کہ کسی بھی کام کو ڈھنگ سے کرنے کے لیے ہمیں کیا کیا کرنا ہے۔ کیوں کی منزل سے کامیاب گزرنے پر ہم کیا تک آتے ہیں تو طے ہوتا ہے کہ بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے کیا کیا کرنا ہے۔
جب ہم ایک بار طے کرلیتے ہیں کہ کوئی بھی کام کیوں کرنا ہے اور اُس کے لیے کیا کرنا ہے تب کیسے کی باری آتی ہے۔ انسان کو بھرپور کامیابی کے لیے بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ عمومی سطح پر سبھی جانتے ہیں کہ مثالی نوعیت کی کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے۔ اصل الجھن اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم یہ طے نہیں کر پاتے کہ کامیابی کے لیے جو کچھ بھی ہمیں کرنا ہے وہ کیسے کرنا ہے۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہو کہ بھرپور کامیابی کے لیے کیا کرنا ہے مگر سمجھ ہی نہ پائیں کہ جو کچھ کرنا ہے وہ کیسے کرنا ہے تب معاملات الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر کا حال یہ ہے کہ جو کچھ کرنا ہے وہ تو معلوم ہے مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیسے کرنا ہے۔ یہ معاملہ ہر اس انسان کے ساتھ ہوتا ہے جو کسی کام کو شروع کرنے سے قبل سوچنے کا عادی نہ ہو اور منصوبہ سازی پر تو بالکل یقین نہ رکھتا ہو۔
کیوں‘ کیا اور کیسے میں سے کسی ایک کے حوالے سے بھی آپ کے ذہن میں پائی جانے والی الجھن معاملات کو انتہائی حد تک الجھا سکتی ہے۔ مثبت سوچ کے ساتھ معیاری زندگی بسر کرنے کی خواہش کے حامل ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے کہ اپنے کم و بیش تمام معاملات میں ذہن واضح رکھتا ہو۔ واضح ذہن مقاصد کو بھی سمجھتا ہے اور اُن کی نوعیت کو بھی۔
ہر دور میں بھرپور کامیابی صرف اُن کے حصے میں آئی ہے جنہوں نے زندگی بسر کرنے کا ایسا طریقہ اپنایا جس میں غور و فکر کو کلیدی حیثیت حاصل تھی۔ ہم جس زندگی کو بالعموم درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے وہ کسی بھی اعتبار سے کوئی ایسی حقیقت نہیں جسے سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔ جب تک ہم اس دنیا میں ہیں‘پورے شعور و احساس کے ساتھ سنجیدگی کو حرزِ جاں بناتے ہوئے جینا ہے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے بھرپور دلچسپی اور مقصدیت کے ساتھ کرنا ہے۔ زندگی وہی ہے جو مقصدیت سے ہم کنار ہو اور جس کی تکمیل سے دنیا کو کچھ ملے۔ اس دنیا میں ایسے دو چار یا ہزار دو ہزار نہیں بلکہ کروڑوں افراد ہیں جو اپنی زندگی اور دنیا سے اپنے وجود کے تعلق کے بارے میں کبھی سنجیدہ نہیں ہوتے۔ اور اُن میں بھی بہت سوں کا تو یہ حال ہے کہ دنیا سے اپنے ربط کو کسی بھی درجے میں ایک باضابطہ ربط ماننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ ایسے لوگ خالص حیوانی سطح پر زندہ رہتے ہیں یعنی ان کے ہونے نہ ہونے سے ماحول میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی‘ کسی بھی نوع کے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ ایسی زندگی کو ہم کسی بھی درجے میں زندگی نہیں کہہ سکتے۔ خالص حیوانی سطح پر گزاری جانے والی زندگی کسی کے لیے کسی کام کی نہیں ہوتی۔ زندگی صرف وہ ہے جو مقصدیت سے ہم کنار ہو یعنی جینے والے بھی کام کی اور دوسروں کے لیے بھی کارآمد۔
معیاری زندگی یقینی بنانے والے ہر انسان پر لازم ہے کہ اپنے پورے وجود کا جائزہ لیتا رہے‘ اپنی صلاحیتوں کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہو‘ اپنی سکت سے بھی واقف ہو اور زندگی کے مقصد سے بھی ناواقف نہ ہو۔ پورے توازن کے ساتھ جینے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں کوئی بھی چیز کیوں درکار ہوتی ہے‘ اُسے پانے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے اور جو کچھ کرنا ہے وہ کیسے کیا جانا چاہیے۔ ہر اعتبار سے جامع زندگی بسر کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں مگر ہاں‘ کوشش ضرور کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔ ہم میں سے ہر ایک میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ہی ہمیں معیاری زندگی کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔ یہ نکتہ ہمہ وقت ذہن نشین رہنا چاہیے کہ کیوں‘ کیا اور کیسے کے ذریعے مقصدیت کبھی اوجھل نہ رہے۔