دو برس تک شدید بحرانی کیفیت سے دوچار رہنے کے بعد اب دنیا بھر کے ممالک معیشتی بحالی کی راہ پر گامزن ہیں۔ جو کچھ بھی بن پڑتا ہو وہ کیا ہی جارہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس معاملے میں بھی بازی لے گئے ہیں۔ اُن کے ہاں زرِ مبادلہ کے معاملے میں سرپلس اتنا ہے کہ مزید تین چار برس بھی معیشتی بدحالی رہے تو وہ اپنی جگہ رہیں گے۔ امریکا اور یورپ نے کورونا کی وبا سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ وبا سے نمٹنا تو خیر اپنی جگہ مگر ان دونوں خطوں نے وبا کی آڑ میں بھی اپنے لیے منفعت کی گنجائش نکالی۔ سوال صرف فارما سیوٹیکل کمپنیوں کا نہیں۔ امریکا اور یورپ نے دنیا کو ایک نئی تقسیم سے رو شناس کرایا ہے۔ یہ تقسیم ہے کورونا سے پہلے اور بعد کی دنیا کی۔ اب دنیا کو کورونا سے پہلے اور بعد کے ماحول کی بنیاد پر پرکھا جارہا ہے۔
کورونا کی وبا نے لوگوں کی صحت داؤ پر لگانے کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑی مصیبت بھی کھڑی کردی ہے۔ وہ مصیبت ہے صحتِ عامہ کے معیارات کے حوالے سے تقسیم کی۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ دنیا کی طرف افرادی قوت کا سفر رک گیا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی بہانے تارکینِ وطن کی آمد روکی جائے۔ بہت سے طریقے آزمائے گئے۔ کچھ کارگر ثابت ہوئے اور کچھ یکسر ناکام۔ بہر کیف‘ کورونا کی وبا نے ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں کو تارکینِ وطن کے حوالے سے سکون کا سانس لینے کا موقع خوب فراہم کیا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ کورونا کی روک تھام کے نام پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے فیض سے بین الاقوامی سفر بھی خاصا محدود ہوگیا ہے۔ یہ سفر اب مہنگا بھی بہت ہے۔ جو ممالک اپنے ہاں کم لوگوں کو آنے دینا چاہتے تھے اُن کی تو چاندی ہوگئی ہے۔ انہیں بدنامی سے دوچار کرنے والے اقدامات پر مجبور ہونا ہی نہیں پڑا۔ کورونا کی روک تھام کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات سے اُن کی مراد بر آئی۔
کورونا کی وبا سے نمٹنے کے دوران کئی حکومتوں نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بعض طویل المقاصد اہداف بھی بہت آسانی سے حاصل کرلیے۔ عوام جن باتوں کو آسانی سے نہیں مانتے تھے وہ تمام باتیں بہت آسانی سے منوالی گئیں۔ عام حالات میں جو پابندیاں کسی طور قبول اور برداشت نہیں کی جاتیں وہ کورونا کے عہد میں بخوشی قبول اور برداشت کی گئیں۔
کورونا کی وبا کے شدید منفی اثرات سے نمٹنے میں ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو زیادہ الجھنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے بڑا مسئلہ دگرگوں معیشتوں کو مزید خرابیوں سے بچانے کا تھا۔ اس حوالے سے زیادہ کامیابی ممکن نہ بنائی جاسکی۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے تو الجھنیں اتنی بڑھیں کہ معاشرت بھی کچھ کی کچھ ہوکر رہ گئی۔ کورونا کی روک تھام کے نام پر نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات کے باعث معیشت کا حال بُرا ہوگیا۔ ایک طرف بے روزگاری اور افلاس میں اضافہ ہوا اور دوسری طرف مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی۔ حکومت کے لیے اپنے اہداف کا حصول کم و بیش ناممکن ہوگیا۔
پی ٹی آئی کی حکومت اس اعتبار سے تھوڑی سی بدنصیب رہی کہ ابھی اُس نے آکر سکون کا سانس بھی نہ لیا تھا کہ کورونا کی وبا نے آلیا۔ پاکستان جیسے ممالک میں اس وبانے جسمانی صحت سے زیادہ ذہنی صحت کے مسائل پیدا کیے۔ کورونا کے حوالے سے ابتدائی ردِعمل انتہائی حیرت انگیز اور تشویشناک رہا۔ اس معاملے میں ہم انوکھے نہ تھے۔ ہر پسماندہ ملک کی حکومت پہلے ہی مرحلے میں گھبراگئی اور ایسے اقدامات کیے گئے جن سے عام آدمی کی بدحواسی میں محض اضافہ ہوسکتا تھا اور ہوا۔
پاکستانی معیشت تو کورونا سے پہلے بھی ابتر حالت میں تھی۔ جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ کورونا کی وبانے پوری کردی۔ معاملات بگڑے تو بہت کچھ الٹ پلٹ گیا۔ لاکھ کوشش کرنے پر بھی معاملات قابو میں نہ آسکے۔ اس حوالے سے حکومت کو زیادہ ڈِس کریڈٹ نہیں کیا جاسکتا۔ جب پوری دنیا کچھ کی کچھ ہوگئی تو ہمارے حالات کو کب سلامت رہنا تھا۔ بیرونی تجارت کی بندش نے معاملات کو مزید خراب کیا۔ ایک طرف تو برآمدات ممکن نہ رہیں اور پھر درآمدات نے بھی مہنگائی کو دوچند کیا۔
عمران خان اور اُن کے رفقائے کار کے لیے کچھ کر دکھانے کو اب یہی ایک سال رہ گیا ہے۔ دنیا بھر میں معیشتیں بحال ہو رہی ہیں۔ مضبوط حکومتیں ایسے اقدامات کر رہی ہیں جن کے ذریعے کورونا کی کسی اور ممکنہ لہر کے شدید منفی اثرات سے بھی بخوبی نمٹا جاسکے۔ امریکا اور یورپ سمیت ترقی یافتہ دنیا نے اپنا اُلّو سیدھا کرلیا ہے۔ کمزور معیشتوں کو مزید کمزور کیا جارہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے قرضوں کے نام پر کمزور ممالک کے لیے مزید الجھنیں پیدا کر رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کو ایک طرف سٹریٹجک اعتبار سے بہت اہم قرار دیا جاتا ہے اور دوسری طرف اُن کی کھٹیا کھڑی کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک بار پھر اپنے شکنجے میں بُری طرح کس لیا ہے۔ قومی معیشت کے پنپنے کی برائے نام گنجائش بھی نہیں چھوڑی گئی۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ حکومتی ٹیم کمزور تھی اور ہے اور یہ کہ اُس نے وہ سب کچھ نہیں کیا جو اُسے کرنا چاہیے تھا۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے ہماری الجھنوں میں اس طور اضافہ کیا ہے کہ اب بہتری اور بحالی کی کوئی آسان صورت دکھائی نہیں دیتی۔ لوگ کب سے منتظر ہیں۔ خان صاحب اور اُن کی ٹیم نے بعض بنیادی معاملات پر بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ ایک ناقابلِ تردید حقیقت یہ بھی ہے کہ عوام نے اس حکومت سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی تھیں مگر سبھی جانتے ہیں کہ جو خرابیاں سسٹم میں پائی جارہی ہیں وہ راتوں رات دور نہیں کی جاسکتیں۔ ملک کو استحکام‘ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنا ضروری ہے مگر یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں کہ جادو کی چھڑی گھماتے ہی درست ہو جائے۔ حکومت بھی اسی سسٹم کا حصہ ہے۔ اس کے پاس بھی کوئی جادو کی چھڑی نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ خرابیاں ساری دنیا ہی میں پائی جارہی ہیں۔ بیشتر معیشتیں اب تک مکمل بحالی کی منزل تک نہیں پہنچیں۔ ترقی یافتہ ممالک بھی بہت سے معاملات میں اب تک اپنے تک ہدف سے بہت دور ہیں۔
اہلِ پاکستان کسی بھی حکومت سے کبھی یہ امید وابستہ نہیں کرتے کہ وہ دودھ کی نہریں بہانے میں کامیاب رہے گی۔ عام آدمی کو بھی اندازہ ہے کہ جو باقی دنیا کا حال ہے وہی حال ہمارا بھی ہے۔ باقی دنیا میں کون سی دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں جو ہمارے ہاں مثالی خوش حال آجائے گی؟ ہاں‘ عام آدمی حکومت سے صرف اتنا چاہتا ہے کہ تمام بنیادی سہولتیں آسانی سے دستیاب ہوں۔ پانی‘ بجلی‘ ماس ٹرانزٹ اور بنیادی صحت جیسے معاملات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک اضافی مصیبت یہ ہے کہ ہر شعبہ اور ہر معاملہ مافیا کی نذر ہوکر رہ گیا ہے۔ کسی بھی چیز کی مصنوعی قلت پیدا کرکے صورتحال سے بھرپور فوائد بٹورنا اب عمومی معاملہ ہوکر رہ گیا ہے۔ توانائی کا بحران اس کی واضح ترین مثال ہے۔ پچھلے کئی سال ملک میں بجلی کا شدید بحران رہا اور جنریٹرز اور یو پی ایس بہت زیادہ فروخت ہوئے۔ اب معاملات کچھ قابو میں ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف اگر اپنی ساکھ بچانا چاہتی ہے تو عام آدمی کے لیے فوری ریلیف کا اہتمام کرے۔ یہ ریلیف چاہے کسی بھی شکل میں ہو مگر ہو نمایاں اور بروقت۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے معاملے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہے جب پوری توجہ اور خلوص کے ساتھ کام کرنے کی نیت ہو۔ عمران خان صاحب کو اپنی ٹیم کی کارکردگی کا بھرپور جائزہ لینا چاہیے تاکہ صرف اُنہیں آگے لایا جائے جو کچھ کر دکھانے کے قابل ہوں۔
عام آدمی بہلاوے نہیں چاہتا۔ اُس کی تو بس اتنی خواہش ہے کہ روزگار چلتا رہے اور بنیادی سہولتوں کے لیے کچھ زیادہ خرچ نہ کرنا پڑے۔ مہنگائی پر قابو پانا کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہاں‘ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ حکومت بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی اور آسان بنائے۔