کم و بیش نصف صدی سے بھی زائد مدت سے دنیا ایک عجیب تماشا دیکھتی آئی ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر باقی دنیا کو دبوچ کر رکھنے کی پالیسی پر کچھ اس انداز سے عمل کیا کہ کروڑوں‘ بلکہ اربوں انسانوں کے لیے سکون سے جینا حرام ہوگیا۔ مغربی طاقتوں نے مل کر باقی دنیا کا اپنا غلام بنائے رکھنے کی کوشش میں کئی خطوں کو پامال کیا‘ کئی ریاستوں کو خرابیوں سے اس حد تک دوچار کیا کہ پھر اُن کے لیے ڈھنگ سے جینا ممکن ہی نہ رہا۔ جنوبی امریکا‘ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا اس کی واضح مثال ہیں۔ افریقی ریاستوں میں بھی اتنی خرابیاں پیدا کی گئیں کہ ان میں بسنے والے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی منزل سے آگے بڑھنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
پانچ عشروں سے دنیا دیکھ رہی ہے کہ مغربی طاقتیں سیاست اور طاقت کا کھیل اپنی مرضی کے مطابق کھیلنے میں مصروف ہیں۔ پہلے سوویت یونین کے خلاف محاذ کھڑا کیا گیا۔ جب اُس کی تحلیل ممکن ہوگئی تو پھر مغربی طاقتوں کے سامنے بند باندھنے والی کوئی قوت نہ رہی۔ 1970ء کے بعد سے اب تک امریکا اور یورپ نے مل کر باقی دنیا کو تگنی کا ناچ نچایا ہے‘ ہر معاملے میں اپنی بات منوائی ہے۔ عالمی اداروں پر قبضہ جماکر مغربی طاقتیں اپنی مرضی کے فیصلے کراتی ہیں اور اُن فیصلوں کے ذریعے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ عالمی سیاست و معیشت پر قبضہ جماکر مغرب نے باقی دنیا کو انگوٹھے تلے رکھنے کی پالیسی پر تواتر سے عمل کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں ایسے خطے موجود ہیں جو شدید پسماندگی کا شکار ہیں اور جن کے عام باشندوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا ڈھنگ سے اہتمام کرنا بھی دشوار گزار مرحلے جیسا ہوگیا ہے۔
سوویت یونین کی تحلیل کے بعد مغربی طاقتوں کی من مانی خطرناک حد تک بڑھ گئی۔ ان بتیس برسوں میں انہوں نے پوری دنیا کا ناک میں دم کیا ہے۔ امریکا کا معاملہ یہ رہا ہے کہ وہ جہاں بھی چاہتا ہے اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی کر گزرتا ہے اور قومی سلامتی یقینی بنانے کے نام پر کسی بھی ملک کو تاراج کر ڈالتا ہے۔ نائن الیون کے موقع پر قومی سلامتی کا بہانہ گھڑ کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان جیسے کمزور ملک کو نشانہ بناکر دراصل پورے خطے پر نظر رکھنے اور سب کو ڈرانے دھمکانے کا اہتمام کیا گیا۔ یہ سب کچھ اس لیے بھی لازم تھا کہ اسی صورت چین کو بھی آگے بڑھنے سے روکا جاسکتا تھا۔ چین اپنی قوت میں اضافہ کر رہا تھا مگر کچھ کرنے کے موڈ میں نہ تھا۔ اس نے نرم قوت یعنی علم و فن اور کاروبار کے ذریعے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ٹھانی تھی اور اسی پالیسی پر وہ اب تک کاربند رہا ہے۔
چین نے جب بیلٹ اینڈ روڈ کا منصوبہ شروع کیا تب مغربی طاقتوں کو محسوس ہوا کہ اب ان کی بالا دستی کے لیے حقیقی خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں چین کو سب سے بڑے خطرے کے روپ میں دیکھا جارہا ہے۔ اس حوالے سے تجزیوں اور تبصروں کا بازار گرم ہے اور عوام کی ذہن سازی کی جارہی ہے۔ مغربی دنیا کے عام آدمی کو یقین دلایا جارہا ہے کہ چین کبھی دوست نہیں ہوسکتا اور یہ کہ اُسے نیچا دکھائے بغیر بات نہیں بنے گی۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے معاملے میں انتہائی جارحانہ رویہ اپنایا اور قومی مفادات کو زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے نام پر تجارتی جنگ شروع کردی۔ چینی درآمدات پر غیر معمولی ٹیکس عائد کرکے امریکیوں کو اس بات پر اکسایا گیا کہ وہ چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ یہ سب کچھ بہت حیرت انگیز تھا کیونکہ واحد سپر پاور شدید بوکھلائی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔ عوام نے ٹرمپ کی بات زیادہ نہ مانی۔ چین دنیا کا سب سے بڑا پروڈکشن ہاؤس ہے۔ وہ ہر شعبے اور طبقے کے لیے چیزیں بناتا ہے۔ اُسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے بیشتر ممالک میں پورا معیشتی اور معاشرتی ڈھانچہ بیٹھ سکتا ہے۔ امریکا اور اُس کے اشارے پر کئی ممالک نے سرمائی اولمپکس کا بائیکاٹ کیا ہے لیکن پاکستان سمیت کئی ممالک نے انتہائی گرم جوشی سے سرمائی اولمپکس میں شرکت کی ہے اور یہ عمل واضح علامتی حیثیت رکھتا ہے۔ سرمائی اولمپکس کے موقع پر چین اور روس کے صدور کی ملاقات رنگ لائی اور دونوں ممالک نے دوستی کا نیا‘ وسیع البنیاد معاہدہ کیا ہے۔ اس حوالے سے 5500 سے زائد الفاظ کے متن میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک مغربی طاقتوں کے انتہائی نامعقول اقدامات کا ڈٹ کر‘ پامردی سے سامنا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اس دوستی کی کوئی حد نہ ہوگی اور اشتراکِ عمل کے لیے کوئی بھی شعبہ شجرِ ممنوعہ نہ ہوگا۔ روس اور چین مل کر ایک ایسا عالمی نظام تیار کرنے کا بھی عزم رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک مغربی دنیا کے ہتھکنڈوں سے بچنے کے لیے باہمی تجارت قومی کرنسیوں میں کرنے پر بھی رضامند ہوئے ہیں۔
چین کو بہت سے معاملات میں مغرب کی طرف سے معاندانہ رویے کا سامنا ہے اور دوسری طرف روس کو بھی بعض معاملات میں مغرب کی شدید مخاصمت برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ ایسے میں دونوں کے پاس وسیع دوستی کا معاہدہ کرنے اور مختلف کلیدی شعبوں میں اشتراکِ عمل کی راہ ہموار کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ دونوں جدید فطری علوم و فنون میں بھی غیر معمولی مہارت کے حامل ہیں۔ اس حوالے سے بھی دونوں کے درمیان اتحاد اور اشتراکِ عمل سے مغرب کے لیے حقیقی مسابقت کا ماحول پیدا ہوگا۔ امریکا اور یورپ کے لیے روس اور چین کے درمیان دوستی کا نیا معاہدہ یقیناً تشویش کا باعث بنے گا۔ چین اور روس کو ایک دوسرے کی اشد ضرورت ہے۔ جب امریکا اور یورپ مل کر کام کرسکتے ہیں تو چین اور روس بھی ایک پیج پر آسکتے ہیں۔ یہ اتحاد اور اشتراکِ عمل دنیا بھر کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ اب امریکا اور یورپ کی چیرہ دستیوں کے خلاف سینہ سپر ہونے کا وقت آگیا ہے۔ ان دونوں خطوں نے خوب من مانی کرلی۔ ان کا اصل منصوبہ تو یہ تھا کہ اب ایک زمانے تک کوئی بھی ملک‘ خطہ یا اتحاد ابھر کر ان کی اجارہ داری کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ چین نے کم و بیش چار عشروں کی شبانہ روز محنت کے ذریعے اپنے آپ کو عالمی سطح کی مسابقت کے قابل بنایا ہے۔ وہ معاشی اعتبار سے اپنے آپ کو اتنا مضبوط بناچکا ہے کہ اب امریکا اور یورپ اُسے آسانی سے نظر انداز نہیں کرسکتے۔ چین کی بیرونی سرمایہ کاری بھی سینکڑوں ارب ڈالر کی ہے۔
چین سے مغرب کس قدر خائف ہے اس کا اندازہ مغربی اخبارات‘ جرائد اور ویب سائٹس کے تجزیوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ چین کے نام کا رونا باقاعدگی سے رویا جارہا ہے۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ چین کا مضبوط ہونا پوری دنیا کو لے ڈوبے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ چین کی مضبوطی امریکا اور یورپ کے لیے حقیقی خطرہ ہے‘ کسی اور کے لیے نہیں۔ مغربی طاقتوں کو اب اپنا سنگھاسن ڈولتا محسوس ہو رہا ہے۔
یہ وقت چھوٹے اور کمزور ممالک کے لیے سوچ سمجھ کر ساتھی منتخب کرنے کا ہے۔ اسلامی دنیا کو دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین اور روس کی سرکردگی میں بننے والے بلاک کی طرف جانا چاہیے کیونکہ امریکا اور یورپ کو ہم نے عشروں دیکھا اور بُھگتا ہے۔ اب ان دونوں سوراخوں سے اپنے آپ کو مزید ڈسوایا نہیں جاسکتا۔ وقت نازک ہے۔ دوستوں اور پارٹنرز کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔ پاکستان اپنے محلِ وقوع کی خصوصی حیثیت کی بدولت غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ بڑی طاقتوں کی اُس پر نظر ہے۔ امریکا اور یورپ نے اب تک ہمیں جو حیثیت دی ہے وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم بہتری کی امید نہ رکھیں اور چین کے ساتھ کسی نئے اتحاد کی طرف بڑھیں۔ خلیج کے خطے اور شمالی افریقہ کو بھی اب مغرب کی غلامی ترک کرتے ہوئے نئے دوست اور پارٹنر بنانے پر متوجہ ہونا چاہیے۔ امریکا اور یورپ کی چیرہ دستیوں کے باعث کمزور ممالک کے لوگ جس گھڑی کے آنے کی دعائیں مانگا کرتے تھے وہ آچکی ہے۔ چین اور روس کی شکل میں مغربی طاقتوں کے لیے حقیقی مسابقت کا سامان ہوچکا ہے۔ یہ وقت چین کا ساتھ دینے کا ہے۔