"MIK" (space) message & send to 7575

پورس کے ہاتھی

اسے بھارت کی بدنصیبی ہی کہیے کہ اُسے وہ لوگ چلا رہے ہیں جو یکسر بے عقل و کوتاہ بین ہیں۔ نریندر مودی اور اُن کی ہدایات کے مطابق کام کرنے والا ٹولا بھارت کو کہاں لے جارہا ہے اِس کا اندازہ چند ہی بھارتیوں کو ہے۔ چمک دار دعوے ہیں‘ دل کش بڑھکیں ماری جارہی ہیں۔ مودی نے صرف اور صرف مذہب کا کارڈ استعمال کیا اور دو بار اقتدار حاصل کر لیا۔ مذہب کا کارڈ چند ہی ریاستوں میں کھیلا جاسکتا ہے۔ باقی ملک تماشائی ہے۔ نریندر مودی اور اُن کے رفقائے کار نے اپنی محدود سوچ اور مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے حوالے سے انتہائی متعصبانہ طرزِ فکر کے ذریعے ملک کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ گائے کے محافظ بن کر اُسے ذبح ہونے سے بچانے کے نام پر سیاسی میدان میں آنے والوں نے اپنے اعلانات اور دعووں سے کئی قدم آگے جاکر اب تمام اقلیتوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ مودی سرکار نے کم و بیش پانچ برس تک گائے کے نام پر ووٹ بینک مضبوط کیا۔ حال ہیں رام جنم بھومی مندر کمپلیکس کا افتتاح کرکے یو پی اسمبلی کے الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی پوزیشن مضبوط کرنے کی خاطر بہت اچھا کارڈ کھیلا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ اُجین اور متھرا میں بھی بڑے مندر بنانے کا اعلان کیا گیا۔ یہ گویا ووٹ بینک کو مزید مضبوط بنانا ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ووٹ بینک مضبوط بنانے کا اور کوئی راستہ نہیں؟ بھارتی میڈیا کی نمایاں شخصیات اب مودی اور اُن کے ٹولے کے عزائم و افعال پر کھل کر تنقید کر رہی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے روسی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارت میں نسل پرست جنونیوں کی حکومت ہے۔ قوم پرستی بُری چیز نہیں مگر قوم پرستی کے نام پر انتہا پسندی کو فروغ دینے میں خاصی قباحت مضمر ہے۔ وزیراعظم صاحب نے بھارتی ہم منصب کو ٹی وی پر مذاکرات اور مباحثے کی دعوت دی تاکہ خطے میں کشیدگی کا گراف کم ہو، غیر معمولی آبادی رکھنے والے دو ممالک کے عوام کو سکون کا سانس لینے کا موقع ملے، ان کے مسائل حل ہوں اور ترقی و خوش حال کی طرف تیزی سے بڑھا جاسکے۔ خان صاحب کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو غربت اور پسماندگی کی دلدل سے نکلنے پر توجہ دینی چاہیے۔ بات چیت اور مباحثے کے ذریعے بہت سے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ نریندر مودی اور اُن کے ٹولے نے چند برسوں کے دوران بھارتی معاشرے کو تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گزارا ہے۔ ہندو انتہا پسندی کو اس قدر فروغ دیا گیا ہے کہ ملک بھر میں مسلمان، مسیحی، سکھ اور نچلی ذات کے ہندو (دلت) ہی نہیں بلکہ اعتدال پسند ہندو بھی پریشان ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور ''سنگھ پریوار‘‘ میں شامل دیگر جماعتیں اور تنظیمیں بھارت بھر میں شرم ناک انداز سے انتہا پسندی کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت میں اعتدال پسند ہندوؤں کی کمی ہے۔ ملک کے کم و بیش ہر حصے میں معتدل سوچ رکھنے والے اور پورے معاشرے کا بھلا سوچنے والے افراد کی کمی نہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو بیشتر معاملات میں قوم پرستی سے کہیں بڑھ کر وطن پرستی کے قائل ہیں۔ وہ بھارت میں بسنے والے تمام انسانوں کو اُن کی مذہبی، لسانی، ثقافتی یا نسلی شناخت کے بجائے وطنیت کے حوالے سے دیکھتے ہیں یعنی جو بھی بھارت میں رہتا ہے‘ وہ بھارتی ہے اور اس اعتبار سے بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے تمام وسائل پر برابر کا حق رکھتا ہے۔ اقلیتوں سے انتہا پسند ہندوؤں کے ناروا سلوک پر شدید تنقید کرنے والوں میں ارون دھتی رائے اور ڈاکٹر رام پُنیانی نمایاں ہیں۔ یہ دونوں شخصیات انتہا پسند ہندوؤں اور اقتدار کے لیے مذہب کارڈ کھیلنے والوں کو بے نقاب کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتیں۔ ارون دھتی رائے مصنفہ ہیں اور بولتی بھی اچھا ہیں۔ یہی معاملہ رام پُنیانی کا بھی ہے۔ وہ بھی نہایت دل نشیں اور دھیمے لہجے میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔ مخالفین کو بھی اُن کے دلائل سن کر حقیقت کا اعتراف کرتے ہی بنتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ جو ہندو بھارت کو ایک معقول ملک کے روپ میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں‘ وہ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سامنے آنے سے گریزاں ہیں۔ اقلیتوں کو دبوچنے کی سَنگھ پریوار کی کوششوں کی راہ میں دیوار کھڑی کرنے کی کوشش ضرور کی گئی مگر یہ سب کچھ نیم دلانہ ہے۔ بھارت کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو اور کاروباری طبقات تمام معاملات کو محض تماشائی کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے طور پر جو کچھ کرتے ہیں‘ وہ کافی نہیں ہوتا۔ اگر معاشرے کو انتہا پسندوں کے ہلاکت خیز جنون سے بچانا ہے تو کمر کس کر میدان میں آنا ہوگا۔ یہ کام جس قدر جلد ہو اس قدر اچھا۔ نئی دہلی کے ایوان ہائے اقتدار پر مسلط انتہا پسندوں کو کچھ اندازہ نہیں کہ اگر بھارت میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوگیا تو کیسا حشر برپا ہو گا۔ اقلیتوں کو دیوار سے لگانے کا عمل اب پوری طرح بے نقاب ہوچکا ہے۔ ایسے میں اقلیتیں بیشتر معاملات میں ایک دوسرے کی ہم نوا ہوتی جارہی ہیں۔ ان کے اختلافات گھٹ رہے ہیں۔ اقلیتوں کے رہنما بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے درمیان سات عشروں سے پائے جانے والے فاصلے مٹیں اور اپنے اپنے حقوق کیلئے مل جل کر جدوجہد کی جائے۔
چند ماہ قبل پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش اور اتر پردیش کے سکھ کسان رہنماؤں نے مودی سرکار کا ناطقہ بند کردیا تھا۔ کسانوں کے بنیادی مطالبات میں امتیازی نوعیت کے قوانین کا خاتمہ سر فہرست تھا۔ مودی سرکار نے سکھ کسان رہنماؤں کو گھیرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہی۔ انہوں نے اپنے مطالبات ہر حال میں منوانے کی ٹھانی اور مطالبات منواکر ہی سکون کا سانس لیا۔ دارالحکومت کو سکھ کسان رہنماؤں نے کئی ماہ تک محاصرے کی سی کیفیت سے دوچار رکھا۔ نریندر مودی نے کئی بار اعلان کیا کہ سکھ کسان رہنماؤں کے سامنے ذرا سی بھی کمزوری نہیں دکھائی جائے گی اور ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جائیں گے مگر پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ نریندر مودی کو سکھوں کے مقابل منہ کی کھانا پڑی۔ متنازع قوانین حکومت کو واپس لینا پڑے۔ یہ سکھوں کی بڑی فتح تھی۔ عام خیال یہ تھا کہ وہ چونکہ اقلیت ہیں‘ اس لیے کچھ زیادہ نہیں کر پائیں گے اور بالآخر وہاں سے ناکام لوٹ جائیں گے مگر وہ ڈٹے رہے۔ پنجاب کو بھارت کے لیے خوراک کی ٹوکری کہا جاتا ہے۔ پنجاب اور اُس سے ملحق ریاستوں کی زرخیز زمین پورے خطے کے لیے اناج اور پھل اگاتی ہے۔ ڈیری پروڈکٹس میں بھی پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش اور ملحق ریاستیں نمایاں ہیں۔ سنگھ پریوار کے لوگوں نے اپنی عاقبت نا اندیشی سے پورے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جذبات بھڑکاکر اُنہیں اب ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ مسلم، سکھ اور مسیحی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو رہے ہیں۔ کل کو ان کے درمیان ڈھنگ کا اتحاد قائم ہوا تو انتخابی نتائج کچھ کے کچھ ہوجائیں گے۔ یہ حقیقت نریندر مودی اور اُن کے تمام رفقائے کار کو اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ معاشرے کو تقسیم کرکے وہ دراصل اقلیتوں کو متحد کر رہے ہیں۔ اگر اقلیتوں کے اتحاد کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کا شدید ردِعمل سامنے آیا تو بھارت سمیت پورے خطے کی سالمیت کو داؤ پر لگتے دیر نہیں لگے گی۔ پاکستان کی قیادت پر بھارت میں خرابیاں پیدا کرنے کا الزام عائد کرنے والا جنونی ہندو ٹولا بھول رہا ہے کہ یہ کام تو وہ خود کر رہا ہے۔ صدیوں سے بھارت کی سرزمین پر بسے ہوئے مسلمانوں کو شہریت کا ثبوت پیش کرنے کا حکم دے کر ملک کے خلاف کھڑے ہونے پر اُکسایا جارہا ہے۔ جانب دارانہ نوعیت کے قوانین کا سہارا لے کر مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو دیوار سے لگانے اور معاشرے میں اچھوت ٹھہرانے کی روش صرف انتہا پسندوں کو نہیں بلکہ پورے معاشرے اور ریاستی ڈھانچے کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔
بھارت میں صورتِ حال نازک ہے۔ بہت سے معاملات مل کر خطرے کی گھنٹی بجارہے ہیں۔ مودی اینڈ کمپنی کسی کو موردِ الزام ٹھہرانے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ سلامتی و سالمیت کے لیے خطرے کی گھنٹی انہوں نے خود تیار کی ہے۔ یہ لوگ بھارت کے لیے پورس کے ہاتھی ثابت ہو رہے ہیں۔ غیر جانب دار دانشور برملا کہہ رہے ہیں کہ کسی بھی وقت بھارت کی شکست و ریخت شروع ہوسکتی ہے۔ نریندر مودی اب تو ہوش کے ناخن لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں