ایک دنیا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے ہاتھوں مشکل صورتحال کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ اس اقدام نے پوری دنیا کی معیشت کو داؤ پر لگادیا ہے۔ سوال صرف یہ نہیں کہ روس نے اپنے سے سَٹے ہوئے ایک ملک پر حملہ کیا ہے۔ بات صرف حملے اور قبضے کی ہوتی تو کوئی بات نہ تھی۔ معاملہ یہ ہے کہ دنیا تقسیم ہوکر رہ گئی ہے۔ امریکا اور یورپ ایک طرف کھڑے ہیں۔ باقی دنیا کہیں اور ہے۔ نائن الیون کے وقت جب امریکا اور یورپ نے مل کر افغانستان کو نشانے پر لیا تھا تب امریکا نے کھل کر کہا تھا کہ جو ہمارے ساتھ ہے وہ ہمارا حلیف ہے اور جو ہمارے ساتھ نہیں اور غیر جانب دار رہنا چاہتا ہے وہ ہمارا حریف ہے۔ یعنی کسی بھی (کمزور) ملک کو غیر جانب دار رہنے کی اجازت نہ تھی۔ امریکا اور یورپ نے اپنی مرضی چلائی اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کو افغانستان میں ملوث کیا۔ اتحادی افواج نے افغانستان میں کم و بیش ڈیڑھ عشرے تک اپنی مرضی کا کھیل کھیلا۔ پھر جب افغانوں نے کُٹائی شروع کی تو مغربی طاقتوں کو خیال آیا کہ شدید بے ضمیری کا مظاہرہ کرنا تھا سو کرلیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بھرم ہی ختم ہو جائے۔
اب یوکرین پر روس نے حملہ کیا ہے تو مغربی طاقتیں محض تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ یوکرین سے وعدہ کیا گیا کہ روس نے حملہ کیا تو اُس کا دفاع کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔ اب امریکی صدر نے دو ٹوک الفاظ میں یعنی قدرے بے حِسی و بے ضمیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ امریکا اپنی فوج یوکرین نہیں بھیجے گا‘ ہاں یوکرین کی فوج کو تربیت دینے کے لیے ہم تیار ہیں! ذرا لطیفے پر غور تو کیجیے۔ جس ملک پر حملہ کردیا گیا ہے اور جس پر روس کا قبضہ تقریباً مکمل سمجھیے اُسے یہ یقین دلایا جارہا ہے کہ اُس کی فوج کو تربیت فراہم کی جائے گی!
یوکرین کے بحران نے دنیا بھر کی معیشتوں کو مزید عدم توازن سے دوچار کردیا ہے۔ دو سال کے دوران کورونا کی وبا نے ستم ڈھایا تھا۔ یوکرین کے بحران کو ستم بالائے ستم سمجھیے۔ امریکا اور یورپ بھی محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں یہ توقع کیونکر کی جاسکتی ہے کہ کوئی اور ملک اور بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں سے کوئی روس کے خلاف کھڑا ہونے کا سوچے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے انتہائی نازک لمحات میں روس کا دورہ کرکے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جو تاریخ ساز کہا جاسکتا ہے۔ بہت سوں کی نظر میں یہ جذباتیت تھی۔ ریاستی سطح پر جذباتیت کوئی چیز نہیں ہوتی۔ وزیر اعظم جس دن روس میں تھے اُسی دن روسی فوج نے یوکرین پر حملہ کردیا۔ بین الاقوامی تعلقات اور سفارت کاری میں ٹائمنگ ہی سب کچھ ہے۔ عمران خان کا یوکرین پر حملے کے وقت ماسکو میں موجود ہونا شاید مغرب کو یہ پیغام تھا کہ ہر معاملے میں تمہاری بات نہیں مانی جائے گی‘ تمہاری مرضی نہیں چلے گی بلکہ جہاں بھی ضرورت محسوس ہوگی‘ پاکستان اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر کوئی بھی قدم اٹھائے گا۔ عمران خان نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے جو مذاکرات کئے وہ رسمی نوعیت کے ہوسکتے ہیں مگر یہ دورہ کسی بھی اعتبار سے رسمی نہیں تھا۔ عام آدمی بھی سیاق و سباق کو ذہن میں رکھے تو سمجھ سکتا ہے کہ جوکچھ ہو رہا ہے وہ کسی سبب کے بغیر نہیں۔ روس نے یوکرین پر سوچ سمجھ کر ہی حملہ کیا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ امریکا اور یورپ محض تماشا دیکھیں گے۔ وہ کسی بھی مرحلے پر روس کے مقابل آنے کی جرأت نہیں کریں گے۔
اس بکھیڑے میں سب سے زیادہ الجھن اگر کسی کو لاحق ہے تو وہ مودی سرکار ہے۔ بھارتی قیادت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سرد جنگ کے دوران اور اُس کے بعد دو‘ تین کشتیوں میں سوار رہی ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین سے بھی دوستی رکھی اور امریکا و یورپ سے بھی تعلقات خراب نہ کیے۔اب فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے۔ بھارت کے مفادات روس سے بھی وابستہ ہیں اور مغربی طاقتوں سے بھی۔ امریکا سے وہ بہت سے ہائی ٹیک معاملات میں مدد لیتا ہے۔ یورپ سے بھی اُس کے سٹریٹجک مفادات وابستہ ہیں۔ روس کو اس لیے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اُس سے بھارت دفاعی ساز و سامان خریدتا ہے۔ ماہرین نے بتایا ہے کہ بھارت دفاعی ساز و سامان کے معاملے میں 60 فیصد تک روس پر انحصار کرتا ہے۔ روس کو ناراض کرنا اُس کے بس کی بات نہیں۔ اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ روس اور یوکرین سے بھارت کی سالانہ تجارت کم و بیش 18 ارب ڈالر کی ہے۔ صرف روس سے اُس کی تجارت تقریباً 9 ارب 40 کروڑ ڈالر کی ہے۔ ایسے میں روس کو ناراض کرنا ممکن ہی نہیں۔یوکرین کے بحران نے بھارتی قیادت کے لیے بہت بڑا دردِ سر پیدا کردیا ہے۔ اگر روس کا ساتھ دیا جائے تو امریکا اور یورپ ناراض ہوتے ہیں۔ اگر روس کے خلاف جاتے ہیں تو بہت کچھ داؤ پر لگتا ہے۔ امریکا اور یورپ نے خود تو یوکرین کا عملی ساتھ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی تاہم روس پر پابندیاں عائد کرنے کو ترجیح دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ روس پر پابندیوں سے کیا ہوگا؟ کیا روس جیسی طاقت کو محض چند پابندیوں کے ذریعے جکڑ کر رکھا جاسکے گا؟ امریکی بینکوں میں روس کے مالیاتی اثاثوں کو منجمد کرنے سے تو معاملات اور بگڑیں گے اور ہوسکتا ہے کہ روس بالواسطہ طور پر امریکا اور یورپ کو بھی نشانے پر لینے کے بارے میں سوچنے لگے۔ ایسے میں تیسری عالمی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔
امریکا نے بھارت پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا ہے کہ وہ یوکرین کے بحران کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کو فون کرکے کہا کہ بھارت کو یوکرین پر روسی حملے کی واضح مذمت کرنی چاہیے۔ ڈیڑھ دو ماہ کے دوران بھارت محتاط ہوکر چلتا آیا ہے۔ وہ روس کو کسی حال میں ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ امریکا اور یورپ کی ہمنوائی کے معاملے میں بھی وہ توازن ہی چاہے گا کیونکہ وہ دونوں خود تو یوکرین میں براہِ راست کچھ بھی نہیں کر رہے۔ ایسے میں کسی اور ملک سے روس کے خلاف جانے کا کہنے کا کوئی اخلاقی جواز بھی نہیں۔ بھارتی قیادت کے لیے بڑا دردِ سر محض روس نہیں مغرب سے جڑے مفادات بھی تو ہیں۔ لاکھوں بھارتی نالج ورکرز مغربی دنیا میں کام کر رہے ہیں۔ اُن کی طرف سے آنے والی ترسیلاتِ زر کے دم سے بھارتی معیشت توانا رہتی ہے۔ اگر مغربی دنیا میں بھارت کو نظر انداز کرنے کا رجحان پروان چڑھ گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
نئی اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ روس‘ چین‘ ترکی‘ پاکستان اور چند دوسرے علاقائی ممالک کے ایک پلیٹ فارم پر آجانے سے ایک نیا بلاک تشکیل پاتا دکھائی دے رہا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے دنیا یک قطبی تھی یعنی صرف امریکا سپر پاور تھا۔ اگر نیا بلاک بنا تو دنیا کثیر قطبی ہو جائے گی۔ چین اور روس بھی سپر پاور کے منصب پر فائز ہونا چاہتے ہیں۔ اب معاملہ صرف عسکری صلاحیتوں کے اظہار کا رہ گیا ہے۔ امریکا بھی جانتا ہے کہ اگر روس اور چین نے مغرب کے حوالے سے کچھ الٹا سوچنا شروع کیا تو بہت کچھ داؤ پر لگ جائے گا۔ یورپ اس معاملے میں مصالحانہ کردار ادا کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہے۔ یورپی قائدین کوئی نئی اور بڑی جنگ نہیں چاہتے۔ انہیں اندازہ ہے کہ جنگ چھڑی تو دنیا خاکستر ہو جائے گی۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران جنگی ساز و سامان کے حوالے سے قابلِ رشک پیش رفت ممکن نہیں بنائی جاسکی تھی۔ آج اگر نوبت جدید ترین ہتھیاروں کے استعمال تک پہنچے تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔