"MIK" (space) message & send to 7575

نیپال کا مخمصہ

جب سے امریکا اور چین کے درمیان اثرات کا دائرہ وسیع تر کرنے کی دوڑ شروع ہوئی ہے‘ متعدد کمزور ممالک کے لیے انتہائی پریشان کن صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ چین کئی سال سے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں اپنے اثرات بڑھانے کے لیے نئی‘ جامع حکمتِ عملی کے تحت بہت کچھ کر رہا ہے۔ افریقہ میں قدرتی وسائل کے شعبے میں خطیر سرمایہ کاری کرچکنے کے بعد اس نے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا پر توجہ دی۔ سبھی جانتے ہیں کہ سری لنکا میں چین کی دلچسپی بڑھتی گئی ہے۔ یہی معاملہ بنگلہ دیش اور نیپال کا بھی ہے۔ سری لنکا میں بندر گاہ اور ایئر پورٹ کی تعمیر کے بعد چین نے بنگلہ دیش میں بڑے منصوبے شروع کرنے پر توجہ دی تو بھارت کے کان کھڑے ہوئے۔ بھارتی قیادت نے آج تک بنگلہ دیش کو بغل بچہ بناکر رکھا ہے۔ بیگم خالدہ ضیا کی وزارتِ عظمٰی کے دور میں بنگلہ دیش نے بھارت کو زیادہ گھاس ڈالنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ شیخ حسینہ واجد کے عہد میں بنگلہ دیش ایک بار پھر بھارت کا بغل بچہ بن گیا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ بھارت کی مداخلت اتنی بڑھی کہ بنگلہ دیشی قیادت بھی بیزار ہوئی اور چین کی طرف دیکھنا شروع کیا۔
اب نیپال کا معاملہ ابھرا ہے۔ چین اور امریکا نیپال میں اپنا اپنا اثر بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ خطے میں اُن کی پوزیشن بہتر ہو۔ نیپال کے لیے بھارت انتہائی اہم ہے کیونکہ خشکی سے گِھرا ہوا ہونے کے باعث نیپال کو بیرونی تجارت کے لیے بھارت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بہت سے معاملات میں اختلافات بھی ابھرے ہیں۔ نیپال کا شکوہ یہ ہے کہ بھارتی قیادت اُسے دبوچ کر رکھنا چاہتی ہے۔ یہ شکوہ بے جا نہیں۔ بھارتی قیادت نے نیپال کے حوالے سے ایسی پالیسی رکھی ہے جو کسی بھی اعتبار سے اس کے مفادات کا احترام نہیں کرتی بلکہ اُسے زیادہ سے زیادہ گھیرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔
نیپال کا معاملہ یہ ہے کہ اب اُسے امریکا اور چین کی طرف سے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔ نیپالی سیاستدان بھی منقسم ہیں۔ سابق وزیر اعظم اولی چاہتے ہیں کہ ملک کو چین کے کیمپ میں رکھا جائے۔ کمیونسٹ جماعتیں چاہتی ہیں کہ بھارت کی حاشیہ برداری ترک کرکے اب چین اور ابھرتی ہوئی قوتوں کی طرف دیکھا جائے۔ چین چاہتا ہے کہ نیپال کو اپنے کیمپ میں رکھے کیونکہ اس صورت میں وہ بھارت کے مقابل اپنی پوزیشن مزید مستحکم کرسکتا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات ہیں۔ ایسے ہی تنازعات بھارت اور نیپال کے درمیان بھی ہیں۔ سرحدی تنازعات کے حوالے سے نیپال چینی قیادت کے ساتھ ایک پیج پر ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ نیپال میں کچھ ایسا کیا جائے جس سے وہاں اُس کی پوزیشن بہتر ہو۔ سابق امریکی صدر جارج بش نے ملینیم چیلنج کارپوریشن کے نام سے ایک ایجنسی قائم کی تھی جسے کمزور ممالک کو امداد دینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ مختلف خطوں میں چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثرات کا سامنا مؤثر انداز سے کرنے کے لیے لازم ہوگیا تھا کہ امریکا نیا امدادی نظام نافذ کرے‘ کمزور ممالک کو اپنی طرف رکھنے پر متوجہ ہو۔
ملینیم چیلنج کارپوریشن نے کمزور اور پسماندہ ممالک کو امداد دینے کے حوالے سے بیس معیارات مقرر کیے ہیں۔ جو ممالک ان معیارات پر پورے اتریں انہیں بنیادی ڈھانچا اپ گریڈ کرنے اور فوڈ سکیورٹی کا معاملہ بہتر بنانے کے حوالے سے امداد دی جاتی ہے۔ اس ایجنسی نے سب سے پہلے مڈغاسکر اور ہنڈراس کو امداد دی تھی۔ 2017ء میں نیپال اس ایجنسی کی امداد کے حصول کا اہل ٹھہرا تھا۔ تب سے اب تک یہ معاملہ معرضِ التوا میں رہا ہے۔ امریکا نے خاصے تعطل کے بعد یہ شرط عائد کی کہ نیپال کی پارلیمنٹ اس معاہدے کی منظوری دے۔ 28 فروری کو نیپال کی پارلیمنٹ نے اس معاہدے کے لیے گرین سگنل دے دیا۔ اب امریکا کی طرف سے نیپال کو 50 کروڑ ڈالر ملیں گے۔ اس میں نیپال کی حکومت 10 کروڑ ڈالر ملائے گی۔ اس فنڈنگ سے ایک بڑی ٹرانسمیشن لائن ڈالی جائے گی اور 300 کلو میٹر کی شاہراہ کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔
نیپال کی اپوزیشن نہیں چاہتی کہ ملک میں امریکی اثر و نفوذ بڑھے۔ کمیونسٹ جماعتیں چاہتی ہیں کہ ملک اپنے بیشتر معاملات میں چین کی طرف دیکھے۔ امریکا سے امداد لینے کے معاہدے کی مخالفت غیر معمولی سطح پر کی گئی۔ ملک بھر میں مظاہرے ہوئے‘ ریلیاں نکالی گئیں۔ نیپالی پولیس نے متعدد مقامات پر مظاہرین سے نمٹنے کے لیے آنسو گیس کا سہارا بھی لیا۔ پارلیمنٹ میں بھی اس حوالے سے خاصی گرما گرمی رہی ہے۔ امریکا نے نیپال میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے نام پر جو کچھ کیا ہے اُس کے نتیجے میں وہاں کی سیاست دو واضح بلاکس میں تقسیم ہوگئی ہے۔ نیپالی سیاست دانوں کو اب غیر معمولی دانش کا مظاہرہ کرنا ہے۔
نیپالی سیاست دان بھارت سے متنفر ہیں کیونکہ اُس نے کئی بار دھوکا دیا ہے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی اور عالمی صورتحال کے تناظر میں نیپال کے سیاست دانوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ اب بھارت کی حاشیہ برداری ترک کرکے واضح طور پر چین کا ساتھ دیا جائے۔ چین سے تجارت بڑھنے کی صورت میں بھارت پر انحصار بھی کم ہوگا اور نیپال اپنے فیصلے زیادہ آسانی سے کرسکے گا۔ اپوزیشن کا خیال ہے کہ دنیا بہت تیزی سے دو بلاکس میں تقسیم ہوتی جارہی ہے۔ امریکا اور یورپ کے مقابل چین اور روس کے ابھرنے سے اب ایک آپشن موجود ہے تو اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ نیپال کے لیے یہ وقت بیلنسنگ ایکٹ دکھانے کا ہے۔ ایک طرف چین ہے اور دوسری طرف بھارت۔ نیپال کی پارلیمنٹ نے امریکا سے امداد وصول کرنے کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نیپال میں سب کچھ درست ہوگیا ہے۔ نیپالی سیاستدان اب تک منقسم ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جب تک ممکن ہو‘ غیر جانب دار رہا جائے۔ جب غیر جانب دار رہنا ممکن نہ ہو تب امریکا کی طرف جھکنے کے بجائے چین کا ساتھ دیا جائے‘ اُس سے تعلقات بہتر بنائے جائیں۔ چین سے تعلقات بہتر بنانے کی صورت میں بھارت پر دباؤ بڑھے گا اور وہ نیپال کے معاملے میں کچھ بھی ایسا ویسا کرنے سے گریز کرے گا۔ نیپال نے واضح طور پر چین کا کیمپ منتخب کیا تو پاکستان سے اس کے تعلقات مزید مستحکم ہوجائیں گے۔
نیپال جیسی صورتحال بہت سے کمزور اور پسماندہ ممالک کو درپیش ہے۔ ایشیا اور افریقہ میں یہ معاملہ زیادہ پریشان کن ہے۔ مشرقِ وسطٰی میں ابھی آپشن کا مسئلہ زیادہ توانا نہیں۔ افریقہ میں چین کی پوزیشن مستحکم ہے۔ ایسے میں کئی چھوٹے ممالک کو بہت جلد طے کرنا ہے کہ وہ چین کی طرف جانا پسند کریں گے یا امریکا و یورپ کی حاشیہ برداری ہی پر گزارا کریں گے۔ تیزی سے بدلتی عالمی اور علاقائی صورتحال میں بھارت کے لیے بھی الجھن بڑھ رہی ہے۔ اگر خطے کے بیشتر ممالک ایشیائی بلاک کی طرف ہوگئے تو بھارت کے لیے امریکا اور یورپ کے کیمپ میں رہنا دشوار ہو جائے گا۔ یوکرین میں جو کچھ ہوا ہے اُس نے یہ بات تو سب پر واضح کردی ہے کہ امریکا و یورپ پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کسی بھی ہم خیال اور حلیف ملک کو بھی جارحیت سے بچانے کے لیے آگے نہیں آئیں گے۔ ایسے میں نیپال‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے کمزور پڑوسیوں سے کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے بجائے بھارتی قیادت کو اپنے لیے بہتر علاقائی صورتحال پیدا کرنے پر توجہ دینا چاہیے۔ پاکستان سے تعلقات بہتر بناکر وہ نیپال‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے معاملے میں بھی قدرے بے فکر ہوسکتا ہے۔ پاکستان سے مخاصمت پروان چڑھاتے رہنے کی صورت میں اُسے دیگر پڑوسیوں کو بھی اپنی طرف گھسیٹنے کا عمل جاری رکھنا پڑے گا۔ اگر بھارت نے اپنی روش تبدیل نہ کی اور علاقائی و عالمی صورتحال سے مطابقت رکھنے والی پالیسیاں مرتب کرنے میں مزید تساہل یا یا لاپروائی دکھائی تو پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ نیپال سمیت تمام پڑوسی الجھن میں رہیں گے اور اُن کے لیے بہتر سفارتی فیصلے کرنا انتہائی دشوار ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں