"MIK" (space) message & send to 7575

صرف زندہ رہنا کافی نہیں

چند برسوں کے دوران خرابیاں بڑھی ہیں۔ دو سال قبل کورونا کی وبا آئی تو معیشتوں کا معاملہ مزید گڑبڑا گیا۔ ایک عشرے سے زائد مدت سے الجھنوں کا سامنا کرنے والی معیشتوں کے لیے کورونا کی وبا ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والا معاملہ ثابت ہوئی۔ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی اقتصادی خرابیوں کے بعد جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ کورونا کی وبا نے پوری کردی۔ دنیا بھر میں معیشتیں ڈانواں ڈول ہوئیں۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن تھا کہ پاکستان کی معیشت متاثر ہوئے بغیر رہتی؟ ہمارے ہاں بھی معاشی الجھنوں نے دام بچھایا اور ہم اپنے آپ کو پھنسنے سے نہ بچاسکے۔ اب کورونا نہیں ہے تو یوکرین کا بحران درپیش ہے۔ روس نے معاملات کو الٹ‘ پلٹ دیا ہے۔ یوکرین پر روس کی لشکر کشی نے دنیا بھر میں غیر یقینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ علاقائی اور عالمی سطح پر فیصلے کرنے والوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ اب کریں تو کیا کریں۔ عالمی، علاقائی اور ریاستی معیشتوں کے جلد بحال ہونے کی امید نہیں۔ روس کی عسکری مہم جوئی نے دنیا بھر کے معاملات کو معلّق کردیا ہے۔ صنعت، تجارت اور مالیات‘ تینوں ہی شعبوں پر شش و پنج کی کیفیت طاری ہے۔ بڑے فیصلے نہیں کیے جارہے۔ بہت سے بڑے کاروبار بیٹھ گئے ہیں۔ عام آدمی کی تو بساط ہی کچھ نہیں رہی۔ وہ شدید لاچاری کے عالم میں جیسے تیسے دن کو رات اور رات کو دن کر رہا ہے۔ ترقی اور خوش حالی کا خواب ایسے میں کوئی کیسے دیکھے؟ پوری کوشش اگر ہے تو اس بات کے لیے کہ کسی نہ کسی طور بقا یقینی بنائی جائے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرے تو سمجھ لیجیے بھر پائے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے
زندہ ہیں، یہی بات بڑی بات ہے پیارے
جہاں بقا کا سوال اٹھ کھڑا ہو‘ وہاں ترقی اور خوش حالی کے بارے میں سوچنے والوں کو لوگ عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ بہر کیف! مسائل اپنی جگہ ہیں اور کوششیں اپنی جگہ۔ صرف زندہ رہنا کافی نہیں! ہر حکومت کو اپنے عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں یقینی بنانے کی تگ و دَو تو کرنی ہی چاہیے۔ پاکستان کی حکومت پر بھی یہی اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس وقت ایک کام پوری توجہ اور محنت سے کرنا چاہیے ہے‘ وہ ہے یوکرین کے بحران کے حوالے سے بیلنسنگ ایکٹ یعنی مکمل توازن کی حالت میں رہنا۔ ایک طرف غیر جانبدار بھی رہنا ہے اور دوسری طرف تیزی سے ابھرتی ہوئی نئی طاقتوں کو یقین بھی دلانا ہے کہ ہم اُن کے لیے غیر اہم نہیں۔ کئی عشروں کے دوران پاکستان اور چین کے مابین پنپنے والی قربت چند برسوں کے دوران خوب بڑھی ہے۔ بڑھنی ہی تھی کہ چین کو اپنے بلند ارادوں اور عظیم الشان منصوبوں کے لیے ایسے پارٹنرز درکار ہیں جن پر مکمل بھروسہ کیا جاسکے۔ پہلی نگاہِ انتخاب پاکستان پر پڑی۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان پر چین کے غیر متزلزل اعتماد کا مظہر ہے۔ چین اور روس کی بڑھتی ہوئی قربت نے بھی پاکستان کے لیے امکانات کا افق وسیع کردیا ہے۔ چین اور روس کے اشتراکِ عمل کا پھیلتا ہوا دائرہ ایک نئی دنیا کے ظہور کی خوش خبری ثابت ہونے کی منزل میں ہے۔ یہ دونوں طاقتیں ایشیا کے لیے قائدانہ کردار ادا کر رہی ہیں۔ اب ایشیائی ممالک کو طے کرنا ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے‘ کہاں جانا ہے اور اپنے لیے کتنے امکانات یقینی بنانا ہیں۔
یوکرین کا بحران امریکا اور یورپ کے لیے ایسی آزمائش لے کر آیا جو دانتوں تلے پسینہ لاسکتی ہے۔ امریکا چند معاملات میں بُری طرح ایکسپوز ہوگیا ہے۔ اُس کے تمام عزائم بے نقاب ہوچکے ہیں۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد امریکا نے صاف کہہ دیا کہ وہ یوکرین کو بچانے کے لیے اپنے فوجی نہیں بھیج سکتا۔ ہاں! ہتھیاروں کی فراہمی جاری رہے گی۔ یہی تو امریکا چاہتا ہے کہ ہتھیاروں کی تجارت جاری رہے، امریکا کے اسلحہ ساز ادارے دن رات کام کرتے رہیں۔ یورپ نے بھی یوکرین کو مایوس کیا ہے۔ اب پوری دنیا جان گئی ہے کہ امریکا اور یورپ پر انتہائی کڑی آزمائش کی گھڑی میں خفیف سا بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا دنیا بھر میں پارٹنرز تلاش کرتا پھرتا ہے۔ اب دنیا کی سمجھ میں آجانا چاہیے کہ پارٹنرز کے نام پر وہ درحقیقت مطیع و فرماں بردار ریاستوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ امریکا کو ایسے بیوقوف حاشیہ بردار چاہئیں جو اپنے پیروں پر کلہاڑی مار کر اُس کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچانے کا ذریعہ ثابت ہوں۔ تیسری دنیا کے تمام ممالک کے لیے یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ مغرب کی غلامی کا طوق گردن سے اتار پھینکنے کا وقت آگیا ہے۔ نیا عالمی نظام آیا چاہتا ہے اور ہمیں اس میں اپنے لیے کچھ نہ کچھ ضرور یقینی بنانا ہے۔ پاکستان اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے تمام قوتوں کے لیے اہم ہے۔ کوئی بھی اہم ملک اپنے مفادات کے تناظر میں پاکستان کو یکسر نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ملکی قیادت کے لیے حالات ایک بڑا امتحان لائے ہیں۔ ہمیں بہترین فیصلے کرنا ہیں۔ مغرب کی طرف غیر ضروری جھکاؤ ختم کرکے ہمیں ایسا متوازن رویہ اپنانا ہے جو نئی ابھرتی ہوئی قوتوں کو ہمارے بارے میں بدگمان ہونے سے روکے۔
حکومت پر تنقید کرتے وقت چند معاملات کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ کورونا کی وبا نے دنیا بھر میں خرابیاں پیدا کی ہیں۔ ہم انوکھے نہیں! ہم نے بھی وہی کچھ جھیلا جو دوسروں نے جھیلا۔ پاکستان کوئی جزیرہ نہیں‘ ہم سمندر ہی کا حصہ ہیں۔ جو کچھ ساری دنیا میں ہوتا ہے وہی کچھ ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے۔ اب دنیا بھر کی معیشتیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ کہیں بھی کچھ ایسا‘ ویسا ہوتا ہے تو اُس کا واضح منفی اثر تمام معیشتوں پر مرتب ہوتا ہے۔ بڑی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی کی کیفیت چھوٹے ممالک پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ ایسے میں بقا کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ملکی معیشت پہلے ہی خرابیوں کی زد میں تھی‘ کورونا کی وبا نے رسہی سہی کسر پوری کی۔ دو برس تک اہلِ وطن کی جان پر بنی رہی۔ حکومت کا بہت سے معاملات پر اختیار نہیں رہا تھا۔ کیا کوئی اور حکومت ہوتی تو معاملات کو قابو میں رکھ پاتی؟ ہر شعبے کے مافیا جب کھل کر سامنے آجائیں تو حکومت کیا کرسکتی ہے؟ اب یوکرین کا بحران پاکستان جیسے ممالک کی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ ہر گزرتا ہوا دن معیشت کو ابتری کی طرف لے جانے پر بضد ہے۔ ایسے میں حکومت کی آزمائش دوچند ہوگئی ہے۔ یہ وقت بے جا تنقید اور احتجاج سے کہیں بڑھ کر ایسی سرگرمیوں کو فروغ دینے کا ہے جن سے عوام کے لیے ریلیف کا اہتمام ہو۔ حکومت کو اپنے طور پر بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ معیشت بہتر ہو، لوگوں کو روزگار ملے، مہنگائی پر کچھ قابو پایا جاسکے۔ دوسری طرف اپوزیشن کے لیے بھی یہ وقت احتجاج اور عدم اعتماد وغیرہ سے کہیں بڑھ کر عوام کا ساتھ دینے کا ہے۔ عوام کا ساتھ دینے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ حکومت کو ڈھنگ سے کام کرنے دیا جائے۔ اگر اُس کے راستے میں قدم قدم پر روڑے اٹکائے جاتے رہیں گے تو وہ ڈھنگ سے تو کیا‘ بے ڈھنگے پن سے بھی کام نہ کرسکے گی۔
علاقائی و عالمی صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ بقا کی جدوجہد تیز کی جائے، دنیا بھر میں رونما ہونے والی نمایاں سیاسی، معاشی اور سٹریٹیجک خرابیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے جامع حکمتِ عملی اپنائی جائے۔ حکومت کو اپنے کام سے غافل نہیں رہنا۔ اس وقت دنیا جن لمحات سے گزر رہی ہے وہ صدیوں میں آتے ہیں۔ اس بار ذرا جلد آگئے! ایک صدی قبل بھی دنیا ایسے ہی فیصلہ کن لمحات سے گزری تھی۔ تب امریکا اور یورپ کے لیے بہت کچھ کرنے کی گنجائش پیدا ہوئی تھی اور انہوں نے ایک صدی کے دوران اپنی برتری کے خوب مزے لوٹے۔ اب ایک نیا عالمی نظام ابھر رہا ہے جس میں چین اور روس مل کر امریکا اور یورپ کے سب سے بڑے حریف ثابت ہو رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کو غیر معمولی دانش، تحمل اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات ہمارے لیے نعمتِ غیر مترقبہ بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بقا کی جدوجہد سے کچھ بلند ہوکر سوچا جائے، اپنے محلِ وقوع کی اہمیت کو منوایا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں