"MIK" (space) message & send to 7575

ہتھیاروں کی نئی دوڑ ؟

یوکرین کے بحران کی کوکھ سے بہت سے بحران برآمد ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ روس نے یوکرین کے معاملے میں من مانی کی اور یکطرفہ طور پر ایک فیصلہ کرتے ہوئے اُس پر عمل بھی کرلیا۔ یوکرین میں لڑائی اب تک تھمی نہیں۔ روس اور یوکرین کے حکام کے مابین مذاکرات بھی ہوئے ہیں۔ پناہ گزینوں کے معاملات کو خوش اُسلوبی سے نمٹانے اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز جیسے انتہائی حساس معاملات پر بھی بات ہوئی ہے۔روس نے جو چاہا سو کیا‘ اب وہ اِس کا خمیازہ بھی بھگتے گا۔ صدر ولادیمیر پوتن نے اِتنا بڑا قدم یونہی تو نہیں اٹھایا ہوگا۔ بہت کچھ سوچا گیا ہوگا اور جب تمام معاملات پر غور و خوض کا مرحلہ ختم ہوا ہوگا تب لشکر کشی کا ڈول ڈالا گیا ہوگا۔
اب ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ یوکرین کا جو حشر ہوا ہے اُسے دیکھنے کے بعد دنیا بھر میں کہیں ہتھیار بنانے اور خریدنے کی نئی دوڑ تو شروع نہیں ہو جائے گی۔ یوکرین نے ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کا خمیازہ بھگتا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے پر یوکرین کو امریکا اور یورپ نے یقین دلایا تھا کہ کسی بھی نوعیت کی جارحیت سے اُسے بچایا جائے گا۔ اس یقین دہانی کی وقعت کیا تھی‘ یہ اب سب کے سامنے آچکا ہے۔ روس کی لشکر کشی کے بعد یوکرین نے جب امریکا اور یورپ سے مدد چاہی تو اُن کی طرف سے صرف طفل تسلیاں ملیں۔ امریکی صدر نے صاف کہہ دیا کہ امریکا کسی بھی طور روس کے مقابل کھڑا نہیں ہوگا کیونکہ ایسا ہوا تو تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے یہ لطیفہ بھی جڑ دیا کہ ہم یوکرین کے فوجیوں کو تربیت دینے کے لیے تیار ہیں! یوکرین کو روسی لشکر کشی کے نتیجے میں جس طرح کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا ہے، جتنے بڑے پیمانے پر تباہی واقع ہوئی ہے اُسے دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں درجنوں ممالک اپنے دفاع کے حوالے سے فکر مند دکھائی دے رہے ہیں۔ یوکرین کے کیس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ اپنے دفاع کے لیے کسی کی طرف سے مدد کا انتظار بالکل فضول ہے۔ جو کچھ کرنا ہے وہ خود ہی کرنا ہے۔ یوکرین نے امریکا اور یورپی یونین کی یقین دہانی پر بھروسہ کیا اور مارا گیا ؎
دِل شاد تھا کہ پھول کھلیں گے بہار میں
مارا گیا غریب اِسی اعتبار میں
یوکرین کے کیس سے یہ سبق تو سیکھ ہی لینا چاہیے کہ دفاع اگر ہوتا ہے تو اپنے زورِ بازو پر۔ اگر دوسروں کی مدد سے تھوڑا بہت دفاع ممکن بنا بھی لیا جائے تو وہ حقیقی دفاع نہیں کہلاسکتا۔ یوکرین کی درگت سے کئی ممالک کو یہ سبق ملا ہے کہ سلامتی اور سالمیت کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا ہے اور عسکری قوت کے معاملے میں اُصولوں پر سودے بازی نہیں کرنی۔ پاکستان دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے رہنے کے حوالے سے بہت حساس رہا ہے۔ ہمیں بھارت جیسے بڑے ملک کے جنگی جنون کا سامنا ہے۔ چین سے تعلقات ابتدا ہی سے اچھے رہے ہیں۔ ہم کسی حد تک چین کی ضرورت بھی ہیں۔ بھارت کا معاملہ یہ ہے کہ اُس نے کبھی پاکستان کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا۔ ایسے میں ہمارے لیے دفاعی تیاریوں کے معاملے میں سہل پسندی اور تن آسانی کی گنجائش نہیں۔ اپنے وسائل اور افرادی قوت کی حدود میں رہتے ہوئے پاکستان نے غیر معمولی دفاعی صلاحیت یقینی بنانے میں فقیدالمثال کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان کے حساس اداروں کی کارکردگی کا اعتراف تو دشمن بھی کرتے ہیں۔ روایتی ہتھیاروں اور جنگ لڑنے کے روایتی طریقوں کے حوالے سے بھی پاکستان غیر معمولی رہا ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں اگر فرق تھا تو صرف حجم کا۔ بھارت کے وسائل بھی زیادہ ہیں اور فوجی بھی۔ ایک بڑے ملک کو جو ایڈوانٹیج حاصل ہوا کرتا ہے وہ بھارت کو میسر ہے مگر پھر بھی پاکستان کی مسلح افواج نے ایسے حالات کبھی پیدا نہیں ہونے دیے کہ بھارت ہمیں تر نوالہ سمجھ لے۔ یوکرین کی صورتِ حال ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو درست ثابت کر رہی ہے۔ بھارت جیسے بڑے پڑوسی کی معاندانہ پالیسیوں کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں وہی سب کچھ درکار ہے جو اُس کے پاس ہے۔ اب واضح ہو چکا ہے کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ہمارا ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ بالکل درست تھا۔
روس نے اپنی طاقت منوانے کا جو طریق اپنایا ہے اُس کے نتیجے میں اب دنیا بھر میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوسکتی ہے۔ ہتھیاروں کی دوڑ کے شروع ہونے کا الزام امریکا اور یورپ پر عائد کیا جانا چاہیے۔ ان دونوں خطوں نے نیٹو کا رکن نہ ہونے کا بہانہ بناکر یوکرین کے لیے جنگ کے میدان میں کوئی کردار ادا کرنے سے انکار کے ذریعے دنیا بھر میں شدید نوعیت کا عدم استحکام پیدا کیا ہے۔ اب کوئی بھی ملک دفاع کے حوالے سے کسی کی یقین دہانی پر یقین نہ کرے گا۔ چھوٹے ممالک بھی اپنے دفاع کے لیے کچھ نہ کچھ تیاری کرنے کا سوچیں گے۔ عالمی سیاست و معیشت کے لیے خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ موجودہ عالمی نظام خاصا کمزور ہوچکا ہے۔ چند ممالک نے مل کر تمام معاملات اپنی مٹھی میں لے لیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں باقی دنیا خرابیوں کی نذر ہوگئی ہے۔ یہ عالمی نظام بہت مضبوط دکھائی دیتا ہے مگر صرف اُن کے لیے جن کی گڈی اونچی اڑ رہی ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر عالمی سیاسی و معاشی نظام کو دبوچ رکھا ہے۔ اُنہیں صرف اپنے مفادات سے غرض ہے۔ خاص طور پر امریکا نے من مانی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ایک طرف تو وہ تمام اہم عالمی امور میں اپنی مرضی کے فیصلے دوسروں پر تھوپتا ہے اور پھر اُس نے اپنا معاشی ڈھانچہ بھی ایسا بنایا ہے کہ دنیا بھر میں جنگیں اور خانہ جنگیاں ہوتی رہنی چاہئیں۔ یوکرین کے بحران نے دنیا بھر کے کمزور اور قدرے گھرے ہوئے ممالک کے لیے انتہائی درجے کی پریشانی پیدا کردی ہے۔ اب سبھی یہ سوچ رہے ہیں کہ پڑوسی ذرا بھی بڑا ہو تو اُس پر زیادہ بھروسہ نہ کیا جائے۔ بڑے اور مضبوط ممالک کے پڑوسی اس نئے منظر نامے میں بہت سہمے ہوئے ہیں۔ چھوٹے اور خشکی سے گھرے ہوئے ممالک کے لیے بقا کا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ یہ صورتِ حال امریکا اور یورپ کے ایجنڈے کو مزید تقویت بہم پہنچائے گی۔ امریکا کے لیے اس میں زیادہ کشش ہے کیونکہ وہ اپنے اسلحہ ساز اداروں کے لیے ایسے ہی ماحول کا اہتمام کرتا آیا ہے۔
دنیا اس وقت ہتھیاروں کی نئی اور زیادہ خطرناک دوڑ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ عالمی نظام کی کمزوریاں نمایاں ہوچکی ہیں۔ ایسے میں چھوٹے اور کمزور ممالک کی سلامتی اور سالمیت کا تحفظ یقینی بنانے کے حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تیسری دنیا کے ممالک کا حال بہت برا ہے۔ اُنہیں قرضوں کے جال میں جکڑ دیا گیا ہے۔ امریکا اور یورپ نے ایک ایسی دنیا تخلیق کی ہے جس میں صرف اُن کے معاملات درست رہیں۔ باقی دنیا شدید نوعیت کی الجھنوں سے اَٹی ہوئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کا سیٹ اپ کمزور اور غیر مؤثر ہوچکا ہے۔ سلامتی کونسل کا کردار بھی محض نمائشی نوعیت کا ہے۔ کسی بھی مظلوم ملک کو انصاف نہیں ملتا۔ طاقت کا مظاہرہ کرنے اور کمزوروں کو کچلنے پر یقین رکھنے والوں کو روکنے والا کوئی نہیں۔ امریکا نے چار پانچ عشروں کے دوران دنیا بھر میں خرابیاں پیدا کی ہیں۔ متعدد مسلم ممالک کو امریکا اور یورپ نے مل کر تاراج کیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کو امریکا نے نصف صدی سے بھی زائد مدت سے نشانے پر لے رکھا ہے۔ اسرائیل کے ذریعے پورے خطے کو غیر مستحکم رکھا گیا تاکہ وہ کوئی سیاسی و معاشی کردار ادا نہ کرسکے۔ ہتھیاروں کی نئی دوڑ کو شروع ہونے سے روکنے کے لیے لازم ہے کہ تمام طاقتیں مل بیٹھیں، نیا عالمی سیاسی و معاشی نظام تشکیل دیں، کمزور ممالک کی سلامتی و سالمیت کا تحفظ یقینی بنانے پر متوجہ ہوں، صرف مادّی فوائد اور مالی مفادات کے لیے پوری انسانیت کو داؤ پر لگانے والے حالات کی راہ مسدود کریں۔ ذہن کو چکرادینے والی ٹیکنالوجی کے دور میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ انسانیت کے خاتمے کی نقیب ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں