"MIK" (space) message & send to 7575

پاک بھارت تعلقات کہاں کھڑے ہیں؟

ایک سے ڈیڑھ عشرے کے دوران پاک بھارت تعلقات تواتر سے خراب ہوتے گئے ہیں۔ عوامی رابطے بھی برائے نام رہ گئے ہیں۔ دونوں ممالک کے لاکھوں خاندان آج بھی منقسم ہیں مگر اُنہیں وقتاً فوقتاً جُڑنے کا موقع دینے کے بارے میں کوئی بھی نہیں سوچ رہا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں بظاہر اس صورتِ حال سے مطمئن ہیں! ایسا لگتا ہے کہ منتخب نمائندوں کو عوام کے بنیادی مسائل کی ذرا سی بھی فکر لاحق نہیں۔
2000 ء کے عشرے میں پاک بھارت تعلقات بہت حد تک گرم جوشی پر مبنی تھے۔ پھر سرد مہری چھاتی چلی گئی۔ اب ڈیڑھ عشرے سے معاملات سرد خانے کی نذر ہوتے آئے ہیں۔ مختلف عوامل نے پاکستان اور بھارت کے درمیان فاصلے بڑھائے ہیں۔ بھارت کے اعلیٰ سیاسی حلقے یہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے باعث اُس سے معاملات بہتر بنانا ممکن نہیں ہو پارہا جبکہ پاکستان کا استدلال یہ رہا ہے کہ بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کے اقتدار نے معاملات کو بہت بگاڑ دیا ہے۔ موقف دونوں ہی کا بہت حد تک درست ہے۔
ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ دونوں ممالک کے غیر حکومتی سنجیدہ حلقوں نے بھی بظاہر یہ سوچ لیا ہے کہ محنت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دونوں ممالک کے ریٹائرڈ اعلیٰ افسران اور سفارت کار وغیرہ مل کر بیک ڈور چینل چلاتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں رابطے بحال کرنے میں مدد بھی ملتی رہی ہے اور بعض اہم امور میں ایک دوسروں کو اعتماد میں لیتے رہنا ممکن ہوتا رہا ہے۔ دونوں ہی طرف ایسی سنجیدہ شخصیات ہیں جو دو طرفہ تعلقات کو نئی بلندیوں پر دیکھنے کی خواہش مند ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ سخت کشیدہ ماحول میں ان شخصیات نے بھی ہاتھ پاؤں سمیٹ لیے ہیں۔ یہ انتہائی مایوس کن بات ہے کیونکہ جب بھی تعلقات کشیدہ ہوتے تھے تو بیک ڈور چینلز کام کرتے تھے اور تعلقات کو معمول پر لانے میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ ان لوگوں کا خاموش ہو رہنا
سمجھ میں آتا ہے۔ جب معاملات بہت کشیدہ ہوں تب بھارت میں جو بھی آواز اٹھاتا ہے اُس کے لیے انتہائی نوعیت کی مشکلات پیدا کردی جاتی ہیں۔ جب حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے عوامی سطح پر پاکستان مخالف جذبات کو انتہا تک پہنچادیا تب ہر وقت شخص غدار کہلایا جو پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے لب کُشا ہوا۔ اپنی حکومت پر شدید تنقید کرنے اور پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے کھل کر سامنے آنے والوں میں جسٹس (ر) مرکنڈے کاٹجو اور معروف اداکار اوم پوری نمایاں رہے۔ جسٹس (ر) کاٹجو نے کئی انٹرویوز میں مودی سرکار کا دوغلا پن بے نقاب کیا۔ جب بھارتی الیکٹرانک میڈیا پر پاکستان مخالف جذبات انتہا پر تھے تب اوم پوری نے ٹاک شوز میں پاکستان مخالف اینکرز اور تجزیہ کاروں کو منہ توڑ جواب دیے۔ اس کے نتیجے میں وہ خاصے پُراسرار انداز سے ختم بھی کردیے گئے۔ اوم پوری نے پاکستان کے حق میں بولنے پر جان دی اس لیے حکومتِ پاکستان کا فرض تھا کہ اُن کے لیے کسی نہ کسی سِول اعزاز کا اعلان کرتی۔ یہ اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کا انتہائی معقول اور قابلِ ستائش طریق ہوتا۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہوتا تب بھی کم از کم اتنا تو کیا ہی جانا چاہیے تھا کہ باضابطہ سرکاری بیان میں اُن کا نام لے کر مودی سرکار کو دنیا کے سامنے ذلیل کیا جاتا اور اوم پوری کے قتل کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کیا جاتا۔ ایک نامور شخصیت نے پاکستان کے نام پر جان دے دی اور ہم منہ پر چُپ کی مُہر لگائے محض تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے۔ ارون دَھتی رائے بھی اینٹی پاکستان پروپیگنڈے کے خلاف بولتی رہی ہیں۔ مہیش بھٹ جیسا بڑا فلم میکر بھی متعدد مواقع پر ضمیر کی آواز پر لبیک کہتا ہوا مسلمانوں کے حق میں سامنے آیا ہے اور ہر معاملے میں پاکستان کو لتاڑنے اور موردِ الزام ٹھہرانے کی روش کی مذمت کی ہے۔
خیر‘ پاک بھارت تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری کا سب سے زیادہ اثر دو طرفہ تجارت پر مرتب ہوا ہے۔ 2017-18ء میں دو طرفہ تجارت کا حجم 2 ارب 30 کروڑ ڈالر تک تھا۔ اب یہ تجارت صرف 40 کروڑ ڈالر تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ عالمی بینک نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاک بھارت تجارت کا حجم 37 ارب ڈالر تک لے جانے کی گنجائش موجود ہے! بھارتی میڈیا میں اب تجزیہ کار اور کالم نگار حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی طرف مائل ہو۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے منصب سنبھالتے ہی بھارت کو تعلقات بہتر بنانے کی دعوت دی۔ اُن کی طرف سے خیر سگالی کے جذبات کا بھارت میں خیر مقدم کیا گیا ہے۔ مودی سرکار کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے میں کچھ ہرج نہیں۔ اس میں دونوں ہی ممالک کا فائدہ ہے۔ بھارت کے مین سٹریم میڈیا میں یہ مشورہ بھی دیا جارہا ہے کہ عوامی سطح پر رابطے بڑھانے کو ترجیح دی جائے تاکہ تنگ دِلی کا ماحول ختم ہو۔
بھارتی قیادت پاکستان سے تعلقات معمول پر لانے کے حوالے سے نہیں سوچ رہی۔ اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تمام پڑوسی ممالک سے سفری اور تجارتی رابطوں کے لیے بھارت نے اب تک 60 انٹیگریٹیڈ چیک پوسٹ (آئی سی پیز) بنائی ہیں اور ان میں سے صرف ایک (اٹاری) پاکستان کے ساتھ ہے۔ بھارتی حکومت نے 2025 ء تک مزید 23 آئی سی پیز بنانے کا اعلان کیا ہے تاہم ان میں سے ایک بھی پاکستان کی سرحد پر نہیں ہوگی۔ اس حوالے سے مودی سرکار کو اپنی ترجیحات پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی تاکہ دونوں ممالک کے عوام کشیدگی کم ہونے پر سکون کا سانس لیں۔
زمانۂ امن میں پاک بھارت تعلقات ایسی نچلی سطح پر کبھی نہیں رہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کھیلوں کے مقابلے ہو رہے ہیں نہ ثقافتی میدان ہی میں کچھ ہو پارہا ہے۔ میڈیا میں فقید المثال پیش رفت کی بدولت دنیا اب سمٹ کر ایک بڑے گاؤں کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ایسے میں حکومتوں کے پاس عوام کو الگ تھلگ رکھنے کا آپشن بچا ہی نہیں ہے۔ مودی سرکار نے اپنا ووٹ بینک مضبوط رکھنے کے لیے ایک طرف تو بھارت میں مسلم مخالف فضا تیار کر رکھی ہے اور دوسری طرف وہ پاکستان مخالف جذبات بھی بھڑکاتی رہتی ہے تاکہ پَکّے ووٹرز راہ سے نہ ہٹیں۔ پاکستان کے خلاف فضا تیار رکھنے ہی میں مودی سرکار کا فائدہ ہے۔ سرحدی جھڑپیں تو اب نہیں ہو رہی ہیں تاہم مودی سرکار ماحول کو کسی نہ کسی سطح پر کشیدہ بنائے رکھنے پر مجبور ہے۔
پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے برف پگھلانے کا فریضہ دونوں طرف کے اہلِ دانش کو ادا کرنا ہے۔ فی الحال سیاست دانوں سے یہ توقع وابستہ نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس حوالے سے کچھ کریں گے کیونکہ وہ اپنے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے تابع ہیں اور اُن مفادات کو زیادہ سے زیادہ توانا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جب اس قبیح عمل سے فرصت مل پائے گی تب وہ کچھ کرنے کا سوچیں گے۔
مودی سرکار نے عوامی رابطے بند تو نہیں کئے تھے تاہم کورونا کی وبا کے دوران اور کسانوں کے احتجاج کے دوران بھی دونوں ممالک کے باشندوں کی آمد و رفت متاثر ہوئی تھی۔ کورونا کی وبا ختم ہونے کے بعد سے اب تک رابطے بحال کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر کسی کو اس حوالے سے کچھ پڑی ہی نہیں۔ دونوں طرف سیاست ہی سیاست چل رہی ہے۔ ہمارے ہاں حکومت تبدیل ہوئی ہے جبکہ بھارت میں ریاستی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج کی روشنی میں آئندہ عام انتخابات کے حوالے حکمتِ عملی تیار کرنے کے ڈول ڈالے جارہے ہیں۔ مودی سرکار ریاستی اسمبلیوں کے حالیہ انتخابات میں بھرپور کامیابی کو عام انتخابات میں بھرپور طور پر کیش کرانے کی تیاری کر رہی ہے۔
اس وقت بیک ڈور چینلز کو ایک بار پھر متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کی سنجیدہ شخصیات کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ اہلِ دانش اور اہلِ فن اس حوالے سے اپنا کردار پوری دیانت اور جاں فشانی سے ادا کریں تو بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کئی بار پیدا ہوئی ہے۔ اور پھر اُس کے تدارک کی تدابیر بھی کی جاتی رہی ہیں۔ اس وقت کشیدگی تو ہے مگر تدابیر کا نام و نشان نہیں۔ اس حوالے سے سوچنا ناگزیر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں