ایک طوفانِ بدتمیزی ہے کہ دم بہ دم برپا ہے۔ کوئی الجھن سی الجھن ہے کہ سلجھنے کا نام نہیں لے رہی۔ ہر دور اپنے ساتھ بہت سے چیلنجز لاتا ہے۔ ہمارا دور اس اعتبار سے تھوڑا زیادہ منفرد ہے کہ آج چیلنجز بہت زیادہ ہیں۔ پھر یوں بھی ہے کہ ہر چیلنج اپنے پہلو میں کئی دوسرے چیلنجز بھی لیے ہوئے ہے۔ یہ ایک سمندر ہے اور ہم اِس سمندر میں! یعنی اِسی میں تیرنا ہے‘ ڈوبنے سے بچنا ہے۔ ہر چیلنج کا ڈٹ کر سامنا کرنا ہے۔ ہمت ہار جانے کی صورت میں معاملات صرف خرابی کی طرف بڑھتے ہیں۔ کسی بھی چیلنج کو نظر انداز کرنے یا چشم پوشی کی راہ پر گامزن ہونے سے ہمارے لیے مشکلات بڑھتی ہیں۔ بہت سوں کی سادہ لوحی کا درجۂ کمال یہ ہے کہ اُن کے خیال میں بعض مسائل توجہ نہ دیے جانے پر خود ہی حل ہو جاتے ہیں! ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ زخم کے اندمال کی فکر لاحق نہ ہو اور عملاً کچھ نہ کیا جائے تو اُسے ناسور بننے سے روکا نہیں جاسکتا۔ کوئی بھی چیلنج نظر انداز کیے جانے پر پہلے سے زیادہ تباہ کاری کے ساتھ ابھرتا ہے۔ ہم ہر شعبے کے عروج کے دور میں جی رہے ہیں۔ کم و بیش ہر شعبے میں جتنی بھی ترقی سوچی جاسکتی تھی وہ بہت حد تک ممکن بنائی جاچکی ہے۔ ایجادات سے زیادہ اب اختراع کا بازار گرم ہے۔ جو کچھ بہت پہلے بنالیا گیا تھا اب اُسے زیادہ مؤثر بنانے کی دوڑ جاری ہے۔ دنیا رفتہ رفتہ ''سنگولیرٹی‘‘ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ایک ہی آلے یا ڈیوائس میں بہت سی خدمات سمونے کی دوڑ تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ سمارٹ فون ہی کو دیکھیے۔ ہتھیلی میں سما جانے والے آلے میں درجنوں خدمات میسر ہیں۔ یہی حال دوسری بہت سی اشیا کا بھی ہے۔ سہولتوں کی فراوانی ہے۔ گزرے ہوئے ادوار کے کسی انسان کو دوبارہ زندگی ملے تو وہ یہ سب کچھ دیکھ کر حیران رہ جائے۔ جن سہولتوں کے لیے شہنشاہ بھی ترسا کرتے تھے وہ اب عام آدمی کو میسر ہیں۔ پھر بھی انسان کے لیے مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ اصغرؔ گونڈوی نے کہا تھا ع
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
کچھ ایسی ہی کیفیت آج کے انسان کی ہے۔ آسانیوں نے مشکلات بڑھادی ہیں۔ ہر شعبے میں کرنے کے لیے اِتنا کچھ ہے کہ انسان سوچتا ہی رہ جاتا ہے، طے نہیں کر پاتا کہ کیا اور کیسے کرے۔ نئی نسل کی الجھن بھی تو یہی ہے کہ کس شعبے میں جائے، اپنے آپ کو کس طور آزمائے۔ اِسی کیفیت کو غالبؔ نے یوں بیان کیا ہے ع
شعروں کے انتخاب نے رُسوا کیا مجھے
اب ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے آراستہ و مزین میڈیا ہی کو لیجیے۔ سمارٹ فون نے ڈیسک ٹاپ پبلشنگ اِتنی آسان کردی ہے کہ اب کوئی بھی شخص کسی بھی وقت اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ لکھنا اور اُسے دوسروں تک پہنچانا اِتنا آسان ہوگیا ہے کہ کبھی کبھی تو یقین نہیں آتا۔ کوئی بھی ٹیکنالوجی ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی خاطر ہوتی ہے۔ ہر شعبے کی ٹیکنالوجی نے ہمارے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں۔ آج عام آدمی اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے میں زیادہ مشکلات محسوس نہیں کرتا کیونکہ اِس کے لیے اُسے جو کچھ درکار ہے‘ وہ آسانی سے میسر ہے مگر یہی تو اصل الجھن ہے۔ جس راستے سے آسانیاں آئی ہیں اُسی راستے سے مشکلات بھی تو آرہی ہیں۔ آج کا انسان آسانیوں میں گِھر کر الجھنوں کا شکار ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا اس معاملے میں سب سے بڑی مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کی مدد سے عام آدمی بھی بہت کچھ جانتا‘ سمجھتا اور سوچتا ہے۔ مشکلات یہیں سے شروع ہوتی ہیں۔ انسان کو معیاری زندگی کے لیے جو کچھ جاننا چاہیے اُس سے کہیں زیادہ وہ جان گیا ہے! بہت کچھ ہے جو انسان کو مطلوب تھا اور مل گیا مگر دوسرا بہت کچھ ایسا بھی ہے جو کسی بھی درجے میں مطلوب ہے نہ کام کا۔ پھر بھی آج کا انسان اُس سے نجات پانے میں کامیاب نہیں ہو پارہا۔ ہم ایک ایسے عہد کا حصہ ہیں جسے سمجھنے اور برتنے کا ہنر سیکھنا لازم ہے۔ گزرے ہوئے کسی بھی دور کے مقابلے میں آج کا دور زیادہ پیچیدہ ہے اور انسان کو بہت سے معاملات میں بے دم کرنے پر تُلا رہتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی بھرمار نے جینا حرام کردیا ہے۔ ایک میلہ سا لگا ہوا ہے اور آج کا انسان اس میلے میں گم ہوکر رہ گیا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کی بدولت سوشل میڈیا پورٹلز اور ڈیسک ٹاپ پبلشنگ نے آج کے انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ معلومات کا ایک سیلاب سا اُمڈتا آتا ہے اور انسان اِس کے ریلوں میں بہتا جاتا ہے۔
لوگ سمجھ رہے ہیں کہ وہ معلومات کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ انفارمیشن سے کہیں بڑھ کر ''اوور انفارمیشن‘‘ کا زمانہ ہے۔ ہمیں جو کچھ جاننا ہے وہ ایسے بہت سے معاملات میں گم ہوکر رہ گیا ہے جن سے ہمارا بظاہر کوئی خاص تعلق نہیں۔ غیر متعلق معلومات نے مطلوب معلومات کو دبوچ رکھا ہے۔ ہر شعبے کا یہی معاملہ ہے۔ حقیقت خرافات میں کھوگئی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ معاملہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پورٹلز انسان کو ایسا بہت کچھ دے رہے ہیں جو اُس کے لیے صرف مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ یہ ایک سیلاب ہے جس کے آگے بند باندھنا لازم ہے۔ یہ بند باندھے گا کون؟ حکومت؟ حکومت ایک خاص حد تک جاسکتی ہے کیونکہ معاملہ معیشت سے جڑا ہوا ہے۔ کاروباری ادارے؟ وہ ایسا کیوں کرنے لگے؟ جن کاروباری اداروں کا مفاد ہر طرح کی انفارمشین کے فروغ سے وابستہ ہے وہ تو چاہیں گے کہ لوگ غیر متعلق اشیا کے سمندر میں مزید غرق ہوں۔ سوشل میڈیا کی چیرہ دستیاں روکنے کے لیے اگر کچھ کرنا ہے تو خود عوام کو کرنا ہے۔ میڈیا کی غیر ضروری پوسٹس کے سیلاب کی راہ روکنے کے لیے بند اگر کسی کو باندھنا ہے تو وہ عوام ہیں۔
کسی بھی ٹیکنالوجی کی راہ روکی نہیں جاسکتی۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ ایسا ایجاد ہوتا رہا ہے جو لوگوں کے لیے مشکلات کا باعث بنا۔ تحقیق کا بازار ہمیشہ گرم رہا ہے۔ تحقیق کرنے والوں کو روکا نہیں جاسکتا۔ تحقیق کے نتیجے میں جو کچھ بھی ایجاد یا دریافت ہوتا ہے وہ چند ایک معاملات میں سہولت تو دوسرے چند معاملات میں مشکلات پیدا کرتا ہے۔ یہ سب کچھ فطری ہے اس لیے اِس کے خلاف جانے کے بجائے اِسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ٹیکنالوجی پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ اُس کے نقصانات سے بچنے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے اور کرنی ہی چاہیے۔ فی زمانہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی بدولت سوشل میڈیا کا معاملہ بے قابو ہوچکا ہے۔ عام آدمی اس سے پریشان کن بلکہ جان لیوا حد تک متاثر ہوا ہے۔ اُس کی زندگی میں بہت کچھ اُلٹ پلٹ گیا ہے۔ ٹیکنالوجی کو لتاڑنے اور کوسنے سے بات نہیں بن سکتی۔ کسی کو ٹیکنالوجی کے استعمال سے روکا نہیں جاسکتا۔ کسی بھی کاروباری ادارے کو کسی ٹیکنالوجی کے استعمال سے باز بھی نہیں رکھا جاسکتا۔ عام آدمی کی ذہنی تربیت کرنا ہوگی تاکہ وہ کسی بھی ٹیکنالوجی کے شدید منفی پہلوؤں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے۔ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں مجموعی ماحول یہ ہے کہ سماجی میڈیا ہماری زندگی کا ناگزیر جُز ہے۔ اُس سے گلو خلاصی ممکن نہیں۔ ہاں! اس کے منفی پہلوؤں سے خود کو بچانے پر توجہ دی جانی چاہیے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں بہت کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے اور لگ رہا ہے۔ غیر ضروری معلومات کے ریلے کو ذہن میں داخل ہوکر اُسے کباڑ خانے میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لیے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ اِس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے متحرک ہونا ہمارا یعنی عام آدمی کا فرض ہے۔ نئی نسل کو آنے والے دور کے لیے تیار کرنے کی خاطر بھی اُسے غیر ضروری معلومات کی چیرہ دستیوں سے بچنے کی تربیت دینا ناگزیر ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ضرورت شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ نئی نسل کے لیے کچھ کرنے سے قبل بڑوں کو اپنے لیے بند باندھنا ہے تاکہ غیر ضروری معلومات کے ریلوں میں بہنے سے بچ سکیں۔