ہر دور کی دنیا انفرادی اور اجتماعی‘ دونوں سطحوں پر نظم و ضبط اور مربوط طرزِ فکر و عمل کا تقاضا کرتی آئی ہے۔ ہر عہد میں کامیاب وہی ہوئے ہیں جنہوں نے کسی بھی حوالے سے اپنی ذہن سازی کی، عزمِ مصمم بروئے کار لائے اور بھرپور محنت کے ذریعے کچھ کرنے پر مائل ہوئے۔ہم بہت سے معاملات کو سنجیدگی سے کیا تو لیں گے‘ کسی بھی درجے میں درخورِ اعتنا بھی نہیں گردانتے۔ سانسوں کا تسلسل برقرار ہے تو ہم جیے جارہے ہیں۔ یہ اِتنی بڑی حقیقت ہے کہ انسان اگر پورے انہماک سے غور کرے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے علاوہ کچھ نہ کرے! ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں سے مستفید ہوتے ہوئے بھی کبھی اُس طور شکر ادا نہیں کرتے جس طور ادا کیا جانا چاہیے۔ ہر دور کا انسان مختلف حوالوں سے چیلنجز کا سامنا کرتا رہا ہے۔ ہر عہد چند نمایاں خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ ایک خصوصیت تمام ادوار میں پائی گئی‘ چند بڑے چیلنجز پیش کرنا۔ آج بھی یہی معاملہ ہے۔ اب کیفیت تھوڑی سی مختلف یوں ہے کہ گزشتہ تمام ادوار ایک پیج پر ہمارے سامنے ہیں۔ مختلف ادوار کے انسانوں نے جو کچھ سوچا اور کیا وہ آج ہمارے سامنے ہے۔ بہت کچھ ہے جو ایک لڑی میں پرویا جاچکا ہے۔ یہ سب کچھ آسانیوں کے ساتھ ساتھ مشکلات بھی پیدا کر رہا ہے۔ آج کے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ چند معاملات میں یکسر الجھ کر رہ گیا ہے۔
فی زمانہ سب سے بڑی الجھن کیا ہے؟ اس سوال کے کئی جواب ہوسکتے ہیں۔ کسی کے خیال میں سب سے بڑی الجھن مادّہ پرستی ہے۔ کوئی یہ کہے گا کہ وقت کی تقسیم و تطبیق سب سے بڑی الجھن ہے۔ کسی کی نظر میں اخلاقی و رُوحانی اقدار کا تواتر سے غیر متعلق ہوتے جانا سب سے بڑی الجھن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے انسان کی‘ نمایاں حد تک‘ سب سے بڑی اور بنیادی الجھن ہے نظم و ضبط کا فقدان اور منصوبہ سازی سے گریز۔ یہ دور ہر انسان سے تقاضا کر رہا ہے کہ اگر ڈھنگ سے جینا ہے تو نظم و ضبط کی عادت اپنائی جائے، منصوبہ سازی سے شغف رکھا جائے۔ اب کوئی بھی ایسا انسان حقیقی کامیابی کا حامل نہیں ہوسکتا جو الل ٹپ زندگی بسر کرنے کا عادی ہو۔ اگر کچھ کرنا ہے تو سنجیدہ بھی ہونا پڑے گا اور نظم و ضبط کے دائرے میں رہتے ہوئے منصوبہ سازی کا وصف بھی پروان چڑھانا پڑے گا۔
آج بہت سے شعبے غیر معمولی منصوبہ سازی کے متقاضی ہیں۔ تعلیم و تربیت کے مراحل انسان کو بار بار یہ تحریک دیتے ہیں کہ اگر انہیں کچھ کرنا ہے، کچھ کر دکھانا ہے تو اپنے آپ کو منضبط کریں۔ نظم و ضبط کی اعلیٰ سطح اپنائے بغیر کوئی بھی معیاری انداز سے جینے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منصوبہ سازی کی بھی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ ہر شعبے کی کیفیت تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ بہت سی معاشی سرگرمیاں انسان سے غیر معمولی شعوری بیداری کا تقاضا کرتی ہیں۔ ایسے میں وہی لوگ کامیاب ہوسکتے ہیں جو حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو حال اور مستقبل‘ دونوں زمانوں کے لیے تیار کریں۔ منصوبہ سازی تو ہر عہد میں ناگزیر رہی ہے۔ کسی بھی عہد کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ کامیاب وہی رہے جنہوں نے منصوبہ سازی کو اپنایا، نظم و ضبط کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنے کو ترجیح دی۔ آج معاملہ تھوڑا سا مختلف یوں ہے کہ اب منصوبہ سازی بھی اعلیٰ ترین اور جامع ترین سطح پر درکار ہے۔ آج کے انسان کو دوسرے بہت سے اوصاف کے ساتھ بے داغ منصوبہ سازی کا ہنر بھی اپنے اندر پیدا کرنا اور پروان چڑھانا ہے۔
آج کی کاروباری دنیا انسان سے بہت کچھ مانگتی ہے۔ اب ترجیح انہیں دی جاتی ہے جو زیادہ منظم ہوں، منصوبہ سازی پر یقین رکھتے ہوں اور اس راہ پر گامزن بھی رہتے ہوں۔ کاروباری دنیا تو ہر دور میں انفرادی سطح پر غیر معمولی نظم و ضبط کی متقاضی رہی ہے۔ معاشی سرگرمیوں کا مآحصل اُسی وقت قابلِ رشک ہوسکتا ہے جب متعلقین میں وقت کی قدر و قیمت کا احساس، نظم و ضبط اور منصوبہ سازی کا وصف پایا جاتا ہو۔ ہر دور کی معاشی سرگرمیاں اصلاً صرف اُن کے لیے رہی ہیں جنہوں نے اپنے تمام معاملات میں خالص سنجیدگی اپناتے ہوئے کچھ کرنے پر توجہ دی ہے، اپنی صلاحیت و سکت کو دنیا پر ثابت کرنا چاہا ہے۔ آج کا انسان مختلف حوالوں سے نادیدہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ حواس پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں۔ انسان کو سکون سے سانس لینے کے قابل نہ چھوڑنے کی منصوبہ سازی کے تحت نشانے پر لیا جاچکا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا اپنی برتری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی منصوبہ سازی کر رہی ہے جس کے نتیجے میں پس ماندہ دنیا مزید پس ماندہ ہوتی جارہی ہے۔ پس ماندہ دنیا کا عام آدمی مختلف سطحوں پر سازشوں اور بداعمالیوں کا شکار ہے۔ وہ اپنی مرضی سے جی ہی نہیں سکتا۔ مختلف معاملات میں دل و دماغ پر مرتب ہونے والا دباؤ اس قدر زیادہ ہے کہ دل جمعی سے کچھ ایسا کرنے ہی نہیں دیتا جس سے زندگی بامقصد انداز سے بسر ہو۔ پس ماندہ ممالک میں عام آدمی کو ڈھنگ سے جینے کے قابل ہونے کے لیے اپنے آپ سے، اپنے ماحول سے اور حکومتی نظام سے لڑنا پڑتا ہے۔ اور معاملات صرف لڑائی پر ختم نہیں ہو جاتے، مطابقت بھی پیدا کرنا پڑتی ہے۔ یہ سب کچھ ساری کی ساری صلاحیت و سکت نچوڑ لینے کے لیے کافی ہے۔ ایسے میں کامیاب وہی ہوسکتا ہے جو اپنے بیشتر‘ بالخصوص معاشی معاملات میں سنجیدہ اور منظم ہو۔
ایک دور تھا کہ منیجر کا منصب صرف کاروباری افراد کے لیے مختص تھا۔ اب یہ لفظ اور منصب پوری زندگی پر محیط ہے۔ آج اگر کوئی بھرپور زندگی بسر کرنے کا خواہش مند ہے تو اُسے پورے انہماک کے ساتھ اپنے بیشتر معاملات میں منیجر بننا پڑے گا۔ آج سب سے زیادہ مینجمنٹ اگر درکار ہے تو وقت کے معاملے میں۔ یہ بات ہر دور میں تسلیم کی جاتی رہی ہے کہ وقت ہی سب کچھ ہے۔ آج معاملہ یہ ہے کہ زندگی کا ہر معاملہ وقت کی دہلیز تک آکر ٹھہر گیا ہے۔ وقت کی تقسیم و تطبیق ہی اب زندگی ہے، زندہ رہنے کا ہنر ہے۔ وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانا اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب انسان نے منصوبہ سازی کا ہنر سیکھا ہوا ہو۔ ہر گزرتا ہوا پل آج کے انسان کو بتا رہا ہے کہ اگر ڈھنگ سے جینا ہے تو منصوبہ سازی کی راہ پر گامزن رہو۔ منصوبہ سازی کا سارا حُسن اس نکتے میں مضمر ہے کہ وقت کے ضیاع کو ممکنہ حد تک روکا جائے۔ وقت ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے اور آج کا انسان اپنے آپ کو اس معاملے میں بہت کمزور یا بے بس محسوس کر رہا ہے۔
کسی باضابطہ اور منظم کاروباری ادارے میں جو سوچ اپنائی جاتی ہے ویسی ہی سوچ اب ہر گھر میں اپنانے کی ضرورت ہے۔ وقت سب سے بڑی دولت ہے۔ اس دولت کا ضیاع نظم و ضبط اور منصوبہ سازی سے روکا جاسکتا ہے۔ اور آج کے انسان کو اس حوالے سے سنجیدہ ہونا ہی پڑے گا۔ آج جو ممالک ترقی یافتہ ہیں اُنہوں نے اپنے آپ کو باقی دنیا سے ایسے ہی الگ نہیں کرلیا۔ اُنہوں نے اپنی خرابیاں دور کرنے پر صدیوں تک محنت کی، نظم و ضبط کی عادت اپنائی اور منصوبہ سازی کے مراحل سے گزرے ہیں۔ یہ سب کچھ اُن سب کو بھی کرنا ہے جو اپنی پس ماندگی کو پچھاڑ کر معیاری انداز سے جینا چاہتے ہیں۔آج ہر انسان کو اپنے تمام ہی معاملات میں خالص مینجمنٹ کا وصف قابلِ رشک حد تک اپنانا ہے۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو کچھ کرنے کی گنجائش پیدا ہوگی۔ بصورتِ دیگر بالکل عمومی انداز کی پھیکی سی زندگی گزرے گی۔ نظم و ضبط اور منصوبہ سازی کے بغیر کامیابی مل بھی جائے تو وقتی ہوتی ہے اور زندگی کی مقصدیت و معنویت میں اضافہ نہیں کرتی۔ ہر طرح کے اور ہر سطح کے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ ملتے ہیں جو غیر منظم انداز سے جیتے ہیں اور ایسا کچھ بھی نہیں کر پاتے جو معنی خیز ہو۔ زندگی بسر کرنے کا یہ طریق انتہائی ناقابلِ قبول ہے کیونکہ اِس سے پورے وجود کو شکست و ریخت کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جیتے گا وہی جو نظم و ضبط کا عادی اور منصوبہ سازی کا ماہر ہو۔