معاشی معاملات کی پیچیدگی صرف ہمارا مسئلہ نہیں۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے الجھنیں پائی جاتی ہیں۔ البتہ دنیا بھر میں اِن الجھنوں سے نجات پانے کے بارے میں کچھ نہ کچھ سوچا بھی جارہا ہے جبکہ ہمارے ہاں صرف رونا رویا جارہا ہے۔ کوئی کتنا ہی سمجھائے کہ ع
نہ رو اے دل! کہیں رونے سے تقدیریں بدلتی ہیں
ہماری شکوہ و شیون کی روش تبدیل ہونے کا نام نہیں لیتی۔ دوسری طرف دنیا ہے کہ کچھ کی کچھ ہوئی جاتی ہے۔ تبدیلی کا عمل اس قدر تیز ہے کہ ابھی کسی چیز کو سمجھنے کی کوشش ہی کی جارہی ہوتی ہے کہ کوئی اور چیز سامنے آجاتی ہے اور ذہن اُس طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے کہا تھا ع
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
تو صاحب! جو علامہ نے فرمایا تھا‘ وہ ہوگیا ہے۔ ہم جیسوں کے پاس اب جیسے صرف محوِ حیرت رہنے کا آپشن رہ گیا ہے۔ دنیا بھر میں سبھی کچھ بدلتا جارہا ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے کہ بدلتے بدلتے کچھ کا کچھ ہوگیا ہے یعنی ع
پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
بعض معاملات کو ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے ذہن اُلجھ کر رہ جاتے ہیں۔ جاب مارکیٹ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ دنیا بھر میں جاب مارکیٹ اِتنی بدل گئی ہے کہ اب اِس کے بعض پہلو اور زاویے بالکل سمجھ میں نہیں آتے۔ معاشی عمل کبھی نہیں رکتا۔ معاشی عمل میں حصہ لینے والے کون ہیں؟ ہم، آپ، سبھی۔ ہم میں سے بیشتر کے لیے یہ مرتے دم تک کا معاملہ ہے پھر بھی جو انہماک درکار ہے وہ ہم میں نہیں پایا جاتا۔ معاشی معاملات جس نوعیت کی سنجیدگی چاہتے ہیں وہ ہم میں اِس قدر کم ہے کہ نایاب سمجھیے۔ اس حوالے سے ماحول ایسا بن چکا ہے کہ اگر کوئی اپنے کام کو پوری سنجیدگی سے کرے تو لوگ اُسے حیرت سے دیکھنے لگتے ہیں!
تین چار صدیوں کے دوران دنیا مسلسل تبدیل ہوئی ہے۔ جب یورپ گہری نیند سے بیدار ہوا، فطری علوم و فنون میں حیرت انگیز پیش رفت یقینی بنانے کی سمت رواں ہوا‘ تب دنیا کا حلیہ تبدیل ہونے لگا۔ یورپی طاقتوں نے مختلف خطوں پر صدیوں راج کیا ہے۔ اس دوران اُنہوں نے فطری علوم و فنون سے متعلق پیش رفت کے ذریعے دنیا کو بدلنے پر بھی توجہ دی ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ فطری علوم و فنون میں پیشرفت نے بہت کچھ منطقی نتیجے کے طور پر بھی تبدیل ہوا۔ جب کسی شعبے میں کوئی پیشرفت ممکن ہو پاتی ہے تو اُس کے اثرات کو پھیلنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ یورپی طاقتوں نے تین چار صدیوں کے دوران جو بے مثل ترقی ممکن بنائی اُس کے منطقی نتیجے کے طور پر زندگی کا ہر پہلو تبدیل ہوا؛ تاہم معاشی پہلو نمایاں تھا۔ پھر معاشرت بھی بدلتی چلی گئی۔ نئے شعبوں نے جنم لیا تو اُن میں کام کرنے کا ذہن بنانے والوں کی تعداد بھی بڑھی۔ معاشی سرگرمیوں کے تنوع نے معیشتوں کے ڈھانچے تبدیل کردیے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوا بلکہ ڈھائی‘ تین صدیوں کے دوران ہوا۔ کئی نسلوں نے اپنی اصلاح کی، کچھ نہ کچھ نیا سیکھا اور اپنے آپ کو پورے متعلقہ نظم و ضبط کے ساتھ عمل کی دنیا میں آزمایا۔ اِسی کا پھل آج ترقی یافتہ اقوام کھارہی ہیں۔ یورپ نے ایک ایسا معیارِ زندگی یقینی بنایا ہے جو کسی اور دنیا کا لگتا ہے۔ زندگی کتنی باسہولت ہوسکتی ہے یہ دیکھنا ہے تو یورپی معاشروں کے لوگوں کی طرزِ زندگی کا جائزہ لیجیے۔
جب بھی کوئی معاشرہ تبدیل ہوتا ہے تو جاب مارکیٹ بھی تبدیل ہوتی ہے۔ اور جب کوئی جاب مارکیٹ غیر معمولی تبدیلیوں سے ہم کنار ہوتی ہے تب معاشرے پر بھی وسیع اثرات مرتب کرتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کا بلند معیارِ زندگی تو ہم خوب دیکھتے ہیں مگر وہاں لوگ جس انداز سے کام کرتے ہیں، اپنے کام میں جتنی دلچسپی لیتے ہیں، کام کرنے کی جو لگن انہوں نے پروان چڑھائی ہے اور کام کا معیار بلند کرنے کے معاملے میں وہ جتنے حساس ہوتے ہیں وہ سب ہم نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ہم ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ کر وہاں آباد ہونے کا سوچتے ہیں مگر کبھی اُن معاشروں کا جائزہ اِس زاویے سے نہیں لیتے کہ ناقابلِ یقین حد تک بلند معیارِ زندگی یقینی بنانے کے لیے انہوں نے بہت کچھ کھویا ہے، بہت کچھ برداشت کیا ہے۔
آج کی دنیا میں جاب مارکیٹ کی حرکیات کو سمجھے بغیر انفرادی سطح پر بھرپور کامیابی یقینی بنانا بہت مشکل ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں لوگ معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے جو منصوبہ سازی کرتے ہیں اور جو کچھ کر گزرتے ہیں اُس کا ہمارے ہاں درست تصور بھی نہیں پایا جاتا۔ جاب مارکیٹ کی حرکیات کو سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بہترین مقام پر دیکھنے کے حوالے سے سنجیدہ اور متحرک ہو۔ جاب مارکیٹ کو سمجھنے کی صورت میں انسان کو اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ اُس کے لیے بہترین مواقع کہاں ہیں اور وہ اُن سے کس طور بہرہ مند ہوسکتا ہے۔ جس نے کچھ کرنے کی ٹھان لی ہو وہ (جیسا کہ باشعور معاشروں میں ہوتا ہے) اپنے شعبے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرتا ہے، نئے مواقع پر نظر رکھتا ہے، متعلقہ افراد سے تعلقات میں وسعت پیدا کرتا ہے، ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھتا ہے، اپنی صلاحیت و سکت کا درست ترین اندازہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کیریئر سے متعلق سوچ انسان کو بدل دیتی ہے۔ سوچ کی یہ تبدیلی جاب مارکیٹ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں نمایاں رہتے ہوئے کام کرنے کے شوقین افراد زیادہ سے زیادہ صلہ پانے کے لیے بہت کچھ سیکھتے ہیں، رابطے بڑھاتے ہیں، مواقع پر نظر رکھتے ہیں، متعلقہ شعبے کی نمائشوں میں جاتے ہیں، اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، اپنی صلاحیت و سکت کی مارکیٹنگ اِس طور کرتے ہیں کہ جسے ضرورت پڑ جائے وہ اُن تک پہنچنے میں دیر نہ لگائے۔ کیا ہمارے ہاں ایسا ہو رہا ہے؟ اس سوال کا جواب صرف نفی میں دیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں اب تک کیریئر کی سوچ ہی پروان نہیں چڑھائی گئی۔ لوگ اپنی طبیعت کے جھکاؤ کا اندازہ لگائے بغیر کسی بھی شعبے میں قدم رکھ دیتے ہیں۔ کچھ دنوں میں بیزار ہوکر کسی اور شعبے کو اپنا لیتے ہیں۔ یوں چار‘ پانچ شعبوں میں اپنے آپ کو آزمانے کے بعد طے کیا جاتا ہے کہ کرنا کیا ہے۔ تب تک اچھا خاصا وقت ضائع ہو چکا ہوتا ہے۔ اگر سوچے سمجھے بغیر کسی بھی شعبے میں خود کو آزمانے کے لیے نکلئے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ جاب مارکیٹ کو سمجھنے کے لیے انہماک بنیادی شرط ہے۔ انسان کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کر کیا سکتا ہے۔ یہ بھی دیکھا جائے کہ دوسروں سے مدد کس طور لی جاسکتی ہے۔ متعلقہ شعبے کے اداروں میں رابطے تلاش کرنا بھی اب لازم ہوچکا ہے۔ یہ سب کچھ اُس وقت ممکن ہو پاتا ہے جب انسان یہ طے کرلے کہ اُسے کسی خاص شعبے میں قابلِ رشک مقام تک پہنچنا ہے۔
ہمارے ہاں کروڑوں لوگ کام کر رہے ہیں مگر اِن میں چند لاکھ ہی ہیں جو بہت سوچ سمجھ کر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور اپنی پسند کے مطابق کام کرتے ہوئے زندگی کے ہر پہلو سے بہت حد تک حظ بھی اٹھارہے ہوتے ہیں۔ یہ چند لاکھ وہ ہیں جو جاب مارکیٹ کو شعوری سطح پر دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ اِن کی نظر ممکنہ بہترین مواقع پر ہوتی ہے۔ جب بہترین موقع مل جائے تو یہ اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے پر متوجہ ہوتے اور پھل پاتے ہیں۔ بہر کیف‘ ہمارے جیسے ممالک میں جاب مارکیٹ کی حرکیات کو سمجھنے والے خال خال ہیں۔ یہ شعبہ بہت حد تک صرفِ نظر کا شکار ہے۔ اس حوالے سے بڑے پیمانے پر ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کو بتایا جائے کہ کس طور اپنی صلاحیت و سکت کا درست اندازہ لگاکر موزوں ترین شعبے میں طبع آزمائی کرنے سے بہتر زندگی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ جاب مارکیٹ کو سمجھنا زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ جہاں اچھے مواقع ہوں وہاں جانا، اپنی خدمات پیش کرنا قرینِ دانش ہے۔ آج جاب مارکیٹ بہت بدل گئی ہے۔ اب معقول ترین مواقع تلاش کرنا ایک باضابطہ ہنر کا درجہ رکھتا ہے۔