"MIK" (space) message & send to 7575

تخلیقی ذہنیت مشکل سے پنپتی ہے

جی ہاں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ تخلیقی ذہنیت کا پنپنا آسان نہیں۔ یہ بہت مشکل مرحلہ ہے۔ کوئی بھی انسان اِس مرحلے سے کامیاب اُسی وقت گزر سکتا ہے جب وہ مطلوب مقدار و معیار کے مطابق محنت کرے۔ کالم کا عنوان تھوڑا سا وضاحت طلب ہے۔ تخلیقی ذہنیت کو پروان چڑھانا بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ مشکل سے پنپتی ہے یعنی اِسے پروان چڑھانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ معاملہ صرف اتنا نہیں‘ اس سے تھوڑا سا ہٹ کر بھی ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ تخلیقی ذہنیت اُسی وقت پنپتی ہے جب کوئی مشکل سامنے ہوتی ہے!
ہم زندگی بھر مشکلات کو محض مشکلات کے درجے میں رکھتے ہیں۔ عام آدمی کا تو یہی حال ہے۔ جو لوگ سوچنے پر یقین رکھتے ہیں‘ اپنے حالات بدلنے کا مزاج پروان چڑھانے میں کامیاب ہوتے ہیں‘ وہ کسی بھی مشکل صورتِ حال کو اپنے لیے ایک بڑے چیلنج کے طور پر لیتے ہیں۔ کسی بھی مشکل کو محض چیلنج سمجھنا بھی کافی نہیں۔ اس سے ایک قدم آگے جاکر اسے موقع سمجھنا چاہیے۔ انسان کو کچھ کر دکھانے کا موقع اُسی وقت ملتا ہے جب اُسے کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ اگر سب کچھ آسان ہی چل رہا ہو تو الگ سے یا دوسروں سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اصغرؔ گونڈوی خوب یاد آئے ہیں ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں‘ زندگی دشوار ہو جائے!
کبھی آپ نے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ اگر کسی کے لیے صرف آسانیاں رہ جائیں تو در حقیقت اُس کے لیے صرف مشکلات رہ جاتی ہیں۔ جب محنت اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے تب انسان کو کچھ بھی کرنے کی تحریک نہیں ملتی۔ ایسے میں زندگی صرف آسانیوں کے آغوش میں جا بیٹھتی ہے اور کچھ کرنے کی تحریک نہ ملنے کے باعث اُسے زنگ لگتا جاتا ہے۔ آج ہر انسان زیادہ سے زیادہ آسانیاں سمیٹنے کے فراق میں دکھائی دیتا ہے۔ کم و بیش ہر انسان کی فطری خواہش ہے کہ زندگی زیادہ سے زیادہ آسان ہو جائے۔ یہ خود بخود تو ہو نہیں سکتا۔ اس کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ مدتِ دراز تک دن رات ایک کرکے جب کوئی اپنے لیے آسانیاں یقینی بناتا ہے تو اُن کی قدر بھی کرتا ہے۔ محنت سے حاصل کی ہوئی ہر چیز انسان کو اچھی لگتی ہے۔ اگر کوئی آسانی بہت آسانی سے میسر ہو تو انسان اُس کا قدر دان نہیں ہو پاتا۔
تخلیقی سوچ کا معاملہ محنت سے جُڑا ہوا تو ہے مگر اُس سے بہت مختلف بھی ہے۔ عمومی سطح پر لوگ بہت محنت کرتے ہیں مگر کچھ ایسا نہیں کر پاتے جس کی بنیاد پر اُن کا نام ہو۔ نام اُسی وقت ہو پاتا ہے جب کچھ نیا کیا جائے اور وہ بھی خاصے انوکھے انداز سے۔ اِس کے لیے ذہن سازی ناگزیر ہے۔ عام آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معمول ہی کو زندگی سمجھ کر مطمئن رہتا ہے۔ زندگی کی یہ بالکل عمومی سطح ہے۔ اس میں کچھ کشش ہے نہ حاصل۔ اگر کوئی اس سطح پر جینے کو زندگی سمجھتا ہے تو اُس کی مرضی۔ ویسے جینے کی یہ سطح کسی بھی اعتبار سے زندگی قرار دیے جانے کے لائق نہیں۔ وہی جینا کسی بھی اعتبار سے قابلِ قدر ہوتا ہے جس سے کوئی نہ کوئی مثبت تبدیلی رونما ہوتی ہو‘ اپنا بھی کچھ بھلا ہوتا ہو اور دوسروں کو بھی کچھ ملتا ہو۔
تخلیقی ذہنیت کو پروان چڑھانے کی انتہائی بنیادی ضرورت ہے ماحول کو سمجھنا۔ ہم سب ماحول کی پیداوار بھی ہیں اور ماحول کو پروان چڑھانے والے عوامل بھی۔ کوئی بھی انسان کسی نہ کسی ماحول کا حصہ ہوتا ہے اور اُس ماحول کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگتے ہوئے ہی ڈھنگ سے جی پاتا ہے۔ اگر ماحول میں چند ایک معاملات اپنی مرضی کے نہ ہوں تو اُن سے کنارہ کش ہوا جا سکتا ہے مگر پورے ماحول کو ترک کرنا انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ماحول ہمیں مطمئن بھی رکھتا ہے اور مہمیز بھی دیتا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ کسی بھی حوالے سے مطمئن ہو رہنے میں زیادہ راحت محسوس کرتے ہیں۔ وہ اپنے لیے اہداف بھی چھوٹے مقرر کرتے ہیں اور محنت کرنے میں بھی زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ بعض کا یہ معاملہ ہے کہ وہ محنت تو بہت کرتے ہیں مگر غیر مرتکز انداز سے یعنی جہاں جتنی محنت کرنا ہو اُس سے بہت کم یا بہت زیادہ محنت کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ بہت ہاتھ پاؤں مارنے پر بھی اُنہیں وہ سب کچھ حاصل نہیں ہو پاتا جو حاصل ہونا چاہیے۔
تخلیقی ذہنیت پروان چڑھانے کے لیے ناگزیر ہے کہ انسان اپنے ماحول کے کم و بیش تمام اہم پہلوؤں کو سمجھتا ہو اور ساتھ ہی ساتھ وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہو جو اپنے آپ کو رفعت سے ہم کنار کرنے کے لیے کرنا لازم ہو۔ لوگ اہداف تو مقرر کر لیتے ہیں مگر محنت نہیں کرتے۔ بہت سے ایسے ہیں کہ محنت بہت کرتے ہیں مگر کسی واضح ہدف کے بغیر۔ تیسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں جو اہداف بھی مقرر کرتے ہیں اور محنت بھی بہت کرتے ہیں مگر سوچنے کے عمل سے اپنا تعلق برقرار نہیں رکھتے یعنی بے ذہنی کے ساتھ محنت کیے جاتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں وہ کچھ نیا نہیں کر پاتے۔ جب انسان بہت محنت کرنے پر بھی کچھ نیا نہیں کر پاتا تب وہ خود بھی اپنے معمولات سے بیزار سا ہو جاتا ہے اور دوسروں کو بھی اُس کی جدوجہد سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی۔
کسی بھی انسان کے ذہن میں تخلیقی سوچ اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ اپنے ماحول میں کوئی فرق پیدا کرنے پر متوجہ ہوتا ہے۔ محنت بہت سے لوگ کرتے ہیں مگر تخلیقی ذہنیت کو پروان چڑھانے میں دلچسپی نہ لینے کی بنیاد پر وہ روایتی نوعیت کی کارکردگی ہی کا مظاہرہ کر پاتے ہیں۔ تخلیقی سوچ ماحول کے تقاضوں کو نبھانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ماحول ہم سے بہت سے سوال کرتا ہے۔ اِن سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی خواہش اور کوشش ہمیں تخلیقی ذہنیت کو پروان چڑھانے کی منزل تک لے جاتی ہے۔ ہم آج اپنے ماحول میں جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں وہ سب سے پہلے کسی ذہن کے پردے پر نمودار ہوا تھا۔ کوئی چیز سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے۔ پھر اُس کے حوالے سے سوچا جاتا ہے۔ اگر بنیادی خیال بہت بلند اور معیاری ہو تو تخلیقی جوہر کا حامل انسان اُس کے بارے میں اچھی طرح سوچ کر منصوبہ سازی کرتا ہے اور اُسے عملی شکل دینے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ جہاں کھڑا ہے وہاں تخلیقی ذہنیت عام کرنے کی ضرورت شدید سے شدید تر ہوئی جاتی ہے۔ بیشتر معاملات روایتی انداز سے نمٹائے جارہے ہیں۔ کچھ نیا کرنے کی تحریک مشکل سے مل پارہی ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ لوگ آسانیوں کے پھیر میں پڑ گئے ہیں۔ اُن کی خواہش ہے کہ بہت کچھ بیٹھے بٹھائے مل جائے۔ یہ دنیا آج ہمیں جس شکل میں دکھائی دے رہی ہے وہ آسانیاں پسند کرنے والی نہیں بلکہ مشکلات کا سامنا کرنے والی ذہنیت کو بروئے کار لانے کا نتیجہ ہے۔ ہر دور میں تخلیقی ذہنیت اور شعور رکھنے والوں نے کچھ ہٹ کر کرنے کا سوچا ہے تو دنیا کو کچھ مل پایا ہے۔
پاکستانی معاشرہ محض نقّال ہوکر رہ گیا ہے۔ محنت تو بہت کی جارہی ہے مگر سوچے بغیر۔ کچھ نیا کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دی جارہی۔ لوگ اپنے اندر تخلیقی جوہر پیدا کرنے یا اُسے توانا رکھنے کے زیادہ خواہش مند نہیں۔ کوشش یہ ہے کہ کسی بھی چیز کو دیکھ کر بالکل ویسی ہی چیز تیار کرکے مارکیٹ میں پھینک دی جائے۔ کم و بیش ہر شعبے کے اذہان پر بے دِلی اور بیزاری سی چھائی ہوئی ہے۔ ''کام چلاؤ‘‘ ذہنیت عام ہے۔ آسانی چاہنے والی ذہنیت تخلیقی جوہر کو اُبھرنے نہیں دے رہی۔ اس حوالے سے لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ قوم کو بامعنی انداز سے جینے کے قابل بنانے اور تخلیقی ذہنیت کی طرف لے جانا وہ قرض ہے جو اہلِ دانش کو اب چُکانا ہی پڑے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں