"MIK" (space) message & send to 7575

عمومی صحت خصوصی توجہ کی طالب

ترقی اور خوش حالی کی راہ پر کون سی قومیں گامزن ہوتی ہیں؟ وہ تمام قومیں ترقی کرتی ہیں جو ترقی کا ذہن بناتی ہیں، کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہیں اور پھر اُس عزم کی مناسبت سے اپنے آپ کو عمل کے لیے تیار کرتی ہیں۔ عمل کے لیے تیار ہونے کا مطلب ہے اپنے آپ کو متعلقہ علوم وفنون نیز مہارتوں سے آراستہ کرنا اور عمومی صحت کا معیار بلند رکھنا۔ یہ سب کچھ ماحول کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی طے کرلے کہ ماحول سے صرف خرابیاں اکٹھی کرنی ہیں تو اُسے تنزلی کی طرف بڑھنے سے کون روک سکتا ہے؟ ماحول سے بہت کچھ اچھا بھی لیا جاسکتا ہے۔ یہ ذرا مشکل کام ہے کیونکہ اچھائیوں کو اپنانے کے لیے خاصے ایثار سے کام لینا پڑتا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ بہت عجیب کیفیت سے دوچار ہے۔ دوسرے بہت سے معاملات کی طرح صحتِ عامہ کا معاملہ بھی رُلا ہوا ہے۔ لوگ اِس طور جی رہے ہیں کہ گویا دل میں صرف بے دِلی ہو۔ زندہ تو ہیں مگر زندگی کی کوئی رمق دکھائی نہیں دیتی۔ صلاحیت ہو تو سکت نہیں ہے اور سکت ہو تو عزم ناپید ہے۔ عزم کیونکر پیدا ہو کہ لوگ مثبت انداز سے جینا اور کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ زندگی کی گاڑی کو چلانے کے بجائے صرف دھکیلا جارہا ہے۔
صحتِ عامہ کا معاملہ بہت بگڑا ہوا ہے۔ پورے معاشرے پر محیط عمومی طرزِ زندگی یوں تو سبھی کو متاثر کر رہی ہے مگر نئی نسل کا معاملہ زیادہ بگڑا ہوا ہے۔ نئی نسل کو کچھ اندازہ ہی نہیں کہ جتنی تیزی سے وہ وقت کو ضائع کر رہی ہے بالکل اُتنی ہی یا اُس سے بھی زیادہ تیزی سے وقت اُسے ضائع کر رہا ہے۔ کچھ کرنے والوں کے لیے وقت ہی سب کچھ ہے۔ صحتِ عامہ کے معاملے کو نظر انداز کرنے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم اپنے وقت کو اہم نہیں گردانتے۔ صحت کا معیار گرے گا تو کون برباد ہوگا؟ ہم‘ اور کون؟ ہماری بربادی کا مطلب ہے وقت کی بربادی۔ اگر کوئی اپنی صحت کا معیار گراتا چلا جائے تو موت کی طرف زیادہ تیزی سے بڑھے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اِس دنیا میں اپنے قیام کی مدت کو خود ہی گھٹانے پر تُلا ہوا ہے۔
صحتِ عامہ کا معیار بلند رکھنا کسی بھی قوم کے لیے ناگزیر ہوا کرتا ہے کیونکہ صحتِ عامہ کے بلند معیار ہی سے اس بات کا تعین ہو پاتا ہے کہ وہ دنیا میں کچھ کر پائے گی یا نہیں۔ بہت سے معاشروں کے شب و روز پر نظر دوڑائیے تو مختلف نتائج سامنے آتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں لوگ کھانے‘ پینے اور سونے‘ جاگنے کے اوقات مقرر کرتے ہیں اور خاصے نظم و ضبط کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ کام کے وقت کام اور آرام کے وقت آرام۔ کھانا پینا بھی حساب کتاب سے۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ لوگ خاصی بے ہنگم زندگی بسر کر رہے ہیں۔
پاکستان بھر کے شہروں میں ایک خاص بیماری بہت تیزی سے پروان چڑھی ہے اور پروان چڑھتی ہی جارہی ہے۔ یہ بیماری بلکہ وبا کراچی سے شروع ہوئی تھی۔ رات رات بھر جاگ کر ہوٹلوں پر وقت ضائع کرنے کی وبا۔ نئی نسل اِس بیماری میں کچھ زیادہ مبتلا ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ شام ہوتے ہی تیار ہوکر گھر سے نکلتے ہیں اور رات دیر گئے گھر میں قدم رکھتے ہیں۔ بہت سے ادھیڑ عمر افراد بھی رات دس‘ گیارہ بجے گھر سے نکلتے ہیں اور ہوٹلوں پر رات گزار کرکے فجر کی نماز کے وقت گھر واپس آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رات آرام کے لیے بنائی ہے۔ قدرت کی منشا یہ ہے کہ انسان (اگر ملازمت و کاروبار کے اوقات اجازت دیتے ہوں) شام ڈھلنے سے پہلے گھر آئے، کچھ وقت اہلِ خانہ کے ساتھ گزارے، کھانا کھائے، عشا کی نماز پڑھے اور جلد سو جائے تاکہ فجر کے وقت بیدار ہو، نماز پڑھے اور کام پر نکل جائے۔ ہم نے قدرت کے طے کردہ حساب کتاب کے مقابل اپنا نظام الاوقات متعارف کرایا ہے۔ ہم یہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں کہ دن صرف اِس لیے بنایا ہے کہ اُسے ٹال مٹول کی نذر کردیا جائے اور رات صرف اِس لیے ہے کہ اِسے بلا جواز رَت جگوں کی چوکھٹ پر قربان کردیا جائے! نتیجہ؟ نتیجہ بھلا اِس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ پوری زندگی ہی غیر متوازن ہوکر رہ جائے؟ یہی ہوا ہے اور یہی ہو رہا ہے۔
آج ہمیں اپنے معاشرے میں ہر طرف شدید عدم توازن دکھائی دے رہا ہے۔ یہ عدم توازن صرف اس لیے ہے کہ ہم نے زندگی کا حقیقی اور معقول توازن تباہ کردیا ہے۔ ہم اپنی اپنی خواہش کے مطابق جی رہے ہیں۔ کوئی بلند اور تعمیری خواہش ہی زندگی کا معیار بلند کرتی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ زندگی کو خواہشوں کی نذر کردیا جائے۔ ہر خواہش اس قابل نہیں ہوتی کہ اُسے سب کچھ سمجھتے ہوئے زندگی کو اُس کے حوالے کردیا جائے۔ کامیاب زندگی وہ ہے جس میں توازن ہو، اعتدال ہو، میانہ روی ہو۔ ہم اس وقت ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں جس میں توازن برائے نام ہے اور سچ تو یہ ہے کہ واضح اکثریت کو توازن کا مفہوم بھی معلوم نہیں۔ نامعقول طرزِ زندگی نے بہت کچھ بگاڑ دیا ہے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے معاملات میں صحتِ عامہ نمایاں ہے۔ معمولات میں پیدا ہونے والی گراوٹ سب سے زیادہ صحتِ عامہ میں جلوہ گر ہوئی ہے۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر کھارہے ہیں۔ کھانے پینے کے معاملے میں جو عمومی نوعیت کی احتیاط برتی جانی چاہیے وہ بھی اب کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ لگتا ہے لوگوں کو اب یہ بات یاد ہی نہیں رہی کہ اچھی صحت کے لیے معیاری انداز سے کھانا پینا ناگزیر ہے۔ کھانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کچھ بھی کھاکر پیٹ بھرلیا جائے۔ جسم کو خوراک کی ضرورت پڑتی ہے تو صرف اس لیے نہیں کہ زندہ رہا جائے۔ صحت کا معیار بھی برقرار رہنا چاہیے تاکہ قوتِ کار موجود ہو۔ اگر کچھ بھی اُلٹا سیدھا کھانے سے پیٹ بھرلینا ہی کافی ہو تو پھر عمل کے لیے مطلوب توانائی میسر نہیں ہو پاتی۔
آج ہمارا معاشرہ بے ترتیب معمولات کی زد میں ہے۔ کھانے پینے میں توازن دکھائی دے رہا ہے نہ سونے جاگنے میں۔ اِس کے نتیجے میں کام کرنے کی صلاحیت بھی دم توڑتی جارہی ہے اور سکت بھی۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر جینے کے عادی ہوگئے ہیں۔ زندگی جیسی نعمت کو شدید بے ذہنی کی نذر کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جارہی۔ صحت کا عمومی معیار برقرار رکھنے پر بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ جب تک صحتِ عامہ کا معاملہ درست نہیں ہوگا تب تک کچھ بھی درست نہ ہوسکے گا۔ جب انسان صحت کے معاملے میں غفلت کا شکار ہوتا ہے تب کام کرنے کی صلاحیت و سکت بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ یوں کام کرنے کا عزم کمزور پڑتا جاتا ہے۔ ہم ایک ایسے ماحول میں جی رہے ہیں جس میں لوگ زندگی کو سنجیدگی سے لینے کے عادی نہیں رہے اور کسی نہ کسی طور صبح کو شام اور شام کو صبح کرلینے ہی کو زندگی سمجھ بیٹھے ہیں۔ جب ماحول اس موڑ تک آجائے تب زندگی کا حسن غارت ہوتے دیر نہیں لگتی۔ تمام افراد کو بالعموم اور نوجوانوں کو بالخصوص اِس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ زندگی لایعنی معمولات کی نذر کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ لازم ہے کہ زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے سوچا جائے۔ جب تک ہم صحتِ عامہ کے معاملات درست کرنے پر متوجہ نہیں ہوں گے تب تک کچھ بھی بہتر نہیں کیا جاسکے گا۔ صحتِ عامہ کا معیار بلند ہوگا تو کام کرنے کی صلاحیت و سکت کو پروان چڑھانے میں مدد ملے گی اور یوں کام کرنے کا عزم بھی توانا ہوگا۔ سرِدست معاملہ یہ ہے کہ ہم سلسلۂ روز و شب کی عمومیت میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ہم بھول بیٹھے ہیں کہ ڈھنگ سے جینے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اور اِس کے لیے سوچنا بنیادی شرط ہے۔
آج ہمارا معاشرہ جس موڑ پر کھڑا ہے وہاں سے کئی راستے نکلتے ہیں اور بیشتر صرف خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ ایسے میں بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہیں اور زندگی کا بنیادی ڈھانچا درست کیے بغیر کسی بھی معقول فیصلے پر عمل یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ جن اُمور پر زیادہ توجہ دینا لازم ہے اُن میں صحت بھی شامل ہے کیونکہ نامعقول طرزِ زندگی بیماریوں اور کمزوریوں کی طرف تیزی سے دھکیل رہی ہے۔ اِس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے‘ ہمیں جاگنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں