ٹیکنالوجیز کے شعبے میں پیش رفت قدم قدم پر دم بخود کرنے والی ہے۔ ویسے اب کسی بھی معاملے میں دم بخود رہ جانے کی کچھ خاص گنجائش رہی تو نہیں۔ جادو نگری کے حوالے سے جو کچھ ہم کسی زمانے میں کہانیوں میں پڑھا کرتے تھے وہ سب کچھ حقیقت کا روپ دھار کر ہمارے سامنے ہے۔ جادو وغیرہ کیا ہوتا تھا اور اُس کی مدد سے کیا ہوتا تھا یہ تو ہمیں معلوم نہیں۔ ہاں‘ ٹیکنالوجیز کی مدد سے جو کچھ ہمارے سامنے ہے وہ یقینی طور پر حقیقت ہے اور ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ اور ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ جادو وادو کس نے دیکھا ہے۔ ٹیکنالوجیز کی مدد سے ہماری زندگی میں جو کچھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے وہ ایسی حقیقت ہے جس سے نظر چرائی جا سکتی ہے نہ انکار کیا جا سکتا ہے۔
فطری علوم و فنون نے زندگی کے ہر معاملے کو انتہائی آسان کردیا ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کسی کو ٹیکنالوجیز سے مستفید ہونے کا ہنر آتا ہے یا نہیں۔ فی زمانہ ٹیکنالوجیز سے ہم آہنگ ہونا یعنی اُن سے مستفید ہونے کا ہنر آنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس چیلنج سے کم ہی لوگ نمٹ پاتے ہیں۔ کسی زمانے میں تحقیق کے لیے انسان کو بہت بھاگ دوڑ کرنا پڑتی تھی۔ اب ایسا کچھ نہیں ہے۔ کبھی کسی ایک کتاب کے حصول کے لیے انسان کو دوسرے شہر یا قصبے تک بھی جانا پڑتا تھا۔ اب یہ سب کچھ سمارٹ فون کے ذریعے ہو جاتا ہے۔ لاکھوں کتابیں محض ایک کلک کی دوری پر ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دستیاب کتابوں کی تعداد میں ہوش رُبا رفتار سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آج کسی بھی موضوع پر کوئی بھی مضمون یا کتاب پڑھنا بچوں کا کھیل ہوکر رہ گیا ہے۔ پہلے کسی بھی بات کی تصدیق کے لیے سو جتن کرنا پڑتے تھے۔ اب انٹرنیٹ کی مدد سے کسی بھی بات یا معاملے کی تصدیق چند لمحات میں ہو جاتی ہے۔ پھر بھی بہت کچھ ہے جو اب تک الجھا ہوا ہے۔ ٹیکنالوجیز کی بھرمار ہے۔ مارکیٹ میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہمارے لیے ہے مگر ہم اُس سے کماحقہ مستفید نہیں ہو پا رہے۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ ہم اپنے مطلب کی چیز حاصل کرنے کے لیے وسائل کا اہتمام نہیں کر پاتے۔ دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ ٹیکنالوجیز کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کا ذہن کم لوگ بنا پاتے ہیں۔ کوئی بھی ٹیکنالوجی جب مارکیٹ میں آتی ہے تو لوگ اُسے محض تفریحی مقاصد کے لیے بروئے کار لانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور پھر وہ وقت بہت جلد آ جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال محدود ہو جاتا ہے۔
ہم ہائی ٹیک کے حوالے سے مصنوعی ذہانت کے دور میں جی رہے ہیں۔ اب بہت سے معاملات میں مصنوعی یا مشینی ذہانت ہمارے کام آرہی ہے۔ مشینی ذہانت نے آٹومیشن (خود کاریت) کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ آج کاروباری دنیا خود کاریت کو ترجیح دے رہی ہے کیونکہ مشینوں سے مدد لینے کی صورت میں انسانی وسائل سے مستفید ہونے کی ضرورت بہت حد تک کم ہو جاتی ہے۔ مشینیں سہولتیں مانگتی ہیں نہ مراعات۔ انسان تنخواہ کے ساتھ ساتھ چھٹیاں‘ علاج اور دیگر سہولتیں بھی طلب کرتے ہیں۔ قوانین کے تحت یہ سب کچھ دینا ہی پڑتا ہے۔ ایسے میں بڑے اور درمیانے حجم کے کاروباری ادارے خود کاریت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کام مشینوں کے سپرد کرنے سے آجروں کے دردِ سر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ ہاں‘ اِس روش پر گامزن رہنے سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور یوں معاشرے میں انتشار بھی تیزی سے پنپ رہا ہے۔ ٹیکنالوجیز کا یہی تو مسئلہ ہے۔ ایک طرف آسانیاں ہیں تو دوسری طرف غیر معمولی مشکلات۔ جو چیز آسانی پیدا کرتی ہے وہی مشکلات کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس مشکل سے نمٹنے کے بارے میں کم ہی سوچا گیا ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ ٹیکنالوجیز کی آمد کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ کاروباری دنیا کو صرف اخراجات گھٹانے سے غرض ہے۔
خود کاریت کے نتیجے میں جن شعبوں کو شدید خرابی سے دوچار ہونا پڑا ہے اُن میں علمی معاملات کا شعبہ نمایاں ہے۔ ترجمے ہی کو لیجیے۔ مشینی ترجمے سستے اور آسان ہیں مگر اُن سے علمیت کا معیار گر رہا ہے۔ دنیا بھر میں زبان کا حُسن مشینی ترجمے کے ہاتھوں غارت ہو رہا ہے۔ ترجمہ کرانے والے صرف آسانی دیکھتے ہیں، معیار نہیں۔ معیار نظر انداز کرنے سے علمی معاملات بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ بار بار توجہ دلانے پر بھی لوگ متوجہ نہیں ہو رہے۔ کاروباری ادارے صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ کام سستے میں آسانی سے کیونکر ہوسکتا ہے۔ بس، اِس سے زیادہ کی انہیں ضرورت محسوس ہوتی ہے نہ فکر لاحق ہوتی ہے۔
کیا مصنوعی ذہانت کی مدد سے کیا جانے والا ترجمہ قبول کیا جاسکتا ہے؟ خالص کاروباری نقطۂ نظر سے سوچئے تو جواب ہاں میں ہے لیکن اگر علم کی وقعت کو ذہن نشین رکھ کر بات کیجیے تو اِس کی گنجائش برائے نام ہے۔ دنیا بھر میں مختلف زبانوں سے دوسری زبانوں میں تراجم ہو رہے ہیں۔ سرکاری اور کاروباری سطح پر کیے جانے والے ترجموں کو چھوڑ کر خالص علمی تراجم کی بات کیجیے تو معاملہ بہت پریشان کن ہے۔ مشینی ترجمے زبان کا حُسن غارت کر رہے ہیں۔ جس زبان سے ترجمہ کیا جارہا ہے اُس کے حُسن کو سمجھنے کے لیے انسانی ذہن کا بروئے کار لایا جانا لازم ہے۔ اگر مَکّھی پر مَکّھی بٹھانے والا ترجمہ کیا جائے تو دونوں زبانوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ مواد جس زبان کا ہو اُس کا بھی حق ادا نہیں ہو پاتا اور جس زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہو اُس کے علمی ذخیرے میں معقول اور قابلِ قبول اضافہ نہیں ہو پاتا۔ دونوں طرف خسارہ ہی ہاتھ لگتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض تکنیکی معاملات میں مشینی ترجمہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے مگر یہ کام پورا کا پورا مشینوں کے بھروسے نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کو بہرکیف دخل دینا ہی پڑتا ہے۔ کسی بھی بات کو سمجھنے کی حد تک تو مشینوں کا استعمال درست ہے۔ بعض پیچیدہ معاملات کو تیزی سے سمجھنے کے لیے مشینوں سے تراجم کرائے جاسکتے ہیں تاکہ بات کی تہہ تک پہنچنا ممکن ہو مگر جو کچھ مشین بتاتی ہے اُسے ڈھنگ سے ترتیب دینا انسان ہی کے بس کی بات ہے۔ مشین (کمپیوٹر یا موبائل ایپس) صرف مفہوم بتاسکتی ہے اور وہ بھی لفظ بہ لفظ۔ جو کچھ مشین بتائے اُسے ڈھنگ سے ترتیب دے کر معقول انداز سے حتمی استفادے کے لیے پیش کرنا انسان کا کام ہے۔ تکنیکی مضامین کو بھی مشین کی مدد سے سمجھ کر ترتیب دینے کے لیے انسانی ذہن درکار ہے۔ فوری اور ''کام چلاؤ‘‘ ترجمے کے لیے تو کمپیوٹر یا مشین کی مصنوعی ذہانت سے مدد لی جاسکتی ہے تاہم اُسے حقیقی معنوں میں سمجھنے کے لیے قابل بنانے کے لیے اصلی یعنی انسانی ذہانت ہی درکار ہوتی ہے۔
خالص علمی نوعیت کے ترجمے تو انسانی ذہن ہی کی مدد سے کیے جاسکتے ہیں۔ جب کبھی کسی نے کسی ناول یا افسانے کا ترجمہ کسی ایپ کی مدد سے کیا ہے تب انتہائی مضحکہ خیز نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ فکشن انسانی ذہن کے لطیف پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ اِس کا ترجمہ انسان ہی کرسکتا ہے۔ مشین جذبات اور احساسِ لطیف سے عاری ہوتی ہے۔ یہی معاملہ شاعری کا ہے۔ شعر گوئی ذہن اور مزاج کے خالص لطیف پہلو کا معاملہ ہے۔ جو کچھ شاعر سوچتا اور پیش کرتا ہے اُسے مشین سمجھ ہی نہیں سکتی۔ وہ الفاظ کا ترجمہ کرسکتی ہے اور وہ بھی پتھریلا اور لٹھ مار قسم کا۔ کسی شعر کا حقیقی ترجمہ اول تو ہو نہیں سکتا اور اگر کوئی کرے بھی تو بہت محنت کرنا پڑے گی۔ مشین کے بس کی بات تو یہ ہے ہی نہیں۔ فنونِ لطیفہ سے متعلق مواد کا مشینی ترجمہ کسی بھی اعتبار سے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ کسی انتہائی اجنبی زبان کے ادیب کی کوئی بات سمجھنے کے لیے کسی ایپ سے تھوڑی سی مدد لی جاسکتی ہے تاکہ ایک آئیڈیا مل جائے کہ ادیب نے کہا کیا ہے۔ اُس کی بات کو تہہ تک سمجھنے کے لیے تو زبان کی گہرائی میں اترنا ہی پڑے گا۔
آج دنیا بھر میں کام چلاؤ ترجمہ قبول کیا جارہا ہے۔ اہلِ علم و فن کو متحرک ہونا پڑے گا۔ متعلقین کو بتانا پڑے گا کہ زبان کو زندہ رکھنے کے لیے انسانی ذہن کی مدد سے معیاری اور معقول ترجمہ ناگزیر ہے۔ مترجمین کو بھی منظم ہوکر کام کرنا ہوگا تاکہ ضرورت مند اُن سے کماحقہ مستفید ہوسکیں۔