وقت کی رفتار؟ کون ناپ سکتا ہے یا کون ناپ سکا ہے؟ وقت کی رفتار کی پیمائش ممکن ہی نہیں۔ ہاں‘ ایک بات ایسی ہے کہ کسی بھی مشین کے بغیر محسوس و معلوم کی جا سکتی ہے۔ وقت کی رفتار دل کی کیفیت کے ساتھ بدلتی ہے۔ دل خوش ہو تو وقت بہت تیزی سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ دل بُجھا ہوا ہو‘ الجھن محسوس کر رہا ہو تو وقت تھم جاتا ہے‘ کاٹے نہیں کٹتا۔ سو جتن کر دیکھئے‘ وقت تھما ہوا ہی لگتا ہے۔ فطری علوم و فنون کے ماہرین کہتے ہیں کہ وقت کچھ ہوتا ہی نہیں اس لیے اِس کے تیزی سے یا پھر سست روی سے گزرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب ایک چیز ہوتی ہی نہیں تو اُس کی رفتار کا کیا سوال؟ وقت کے حوالے سے طرح طرح کے تصورات اور نظریات پائے جاتے ہیں۔ کیا واقعی وقت نہیں ہوتا؟ کیا یہ صرف ہمارے احساس کا نام ہے؟ آج فطری علوم و فنون کے بعض ماہرین کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وقت ہوتا ہے اور کبھی ایسا بھی تھا کہ وقت نہیں تھا۔ جدید نظریات کی روشنی میں دعوٰی کیا جارہا ہے کہ بِگ بینگ سے قبل تب وقت بھی نہیں تھا۔ جب کائنات معرضِ وجود میں آئی تب وقت بھی معرضِ وجود میں آیا۔
تو پھر ایسا کیوں ہے کہ کبھی ہمیں وقت بہت تیزی سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور کبھی یہ کہیں راستے میں اٹک سا جاتا ہے؟ وقت کو تیزی سے گزرنے کی گنجائش فراہم کرنے والے عوامل کون سے ہیں اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کس چیز سے پیدا ہوتی ہیں؟ یہ بحث پھر کبھی سہی کہ وقت ہوتا ہے یا نہیں‘ بنیادی معاملہ یہ ہے کہ وقت کے حوالے سے بدلتے ہوئے احساس کو کیونکر سمجھا جائے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ وقت کے گزرنے کی رفتار ہمیں ایک ہی محسوس ہو؟ یہ کبھی تیزی اور کبھی سستی والا معاملہ ختم ہو جائے؟ اپنے دل سے پوچھئے‘ وہی بتائے گا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ دل ہی بتا پائے گا۔ دل ہی تو ہے جو آپ کو وقت کے حوالے سے مختلف احساسات سے دوچار یا ہم کنار کرتا ہے۔ عظیم طبعیات دان البرٹ آئن سٹائن نے کہا ہے کہ ہر چیز متعلق ہوتی ہے۔ اس بات کا مفہوم یہ تھا کہ کائنات میں کچھ بھی اپنے طور پر کچھ نہیں۔ ہر چیز کو کسی نہ کسی چیز سے تعلق کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اسی کا نام نظریۂ اضافت ہے۔ آئن سٹائن نے اس کی مثال یوں دی کہ جب کوئی اپنے محبوب کے ساتھ ہو تو وقت پَر لگاکر اڑتا ہے یعنی اُس کے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا جبکہ کسی ناپسندیدہ شخص کے ساتھ کچھ وقت گزارنا پڑے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم جلتے توے پر بیٹھے ہیں! تب وقت گزرنے کا نام نہیں لیتا۔
دل کی بدلتی ہوئی کیفیت وقت سے متعلق ہمارے تصور کو بھی تبدیل کرتی جاتی ہے۔ جب ہم بہت خوش ہوتے ہیں تب ہر چیز اچھی لگتی ہے۔ ایسے میں اگر تھوڑا بہت نقصان بھی ہو رہا ہو تو پتا نہیں چلتا یا کوئی تکلیف بھی مل رہی ہو تو محسوس نہیں ہوتی۔ جب دل میں مسرّت بھری ہو تب پورا ماحول جمگمگاتا ہوا لگتا ہے‘ فضا میں خوشبو سی بسی ہوئی محسوس ہوتی ہے‘ ہوا گنگناتی ہوئی گزرتی ہے۔ قدم قدم پر جھومنے کو جی چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ فطری ہے کیونکہ دل میں خوشی و سَر خوشی کا عالم ہمیں کسی اور دنیا میں لے جاتا ہے۔ ایسی کیفیت میں ہم کوئی ناپسندیدہ فعل بھی بخوشی کر گزرتے ہیں۔ جب انسان کا دل جُھوم رہا ہو‘ گا رہا ہو تب کسی ناپسندیدہ شخص یا پیچیدہ معاملے کا سامنا ہونے پر بھی زیادہ الجھن محسوس نہیں ہوتی۔ کیا آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ جب دِل بجھا ہوا یا دُکھی ہو تو پورا ماحول بجھا ہوا محسوس ہوتا ہے؟ ایسے میں کوئی بہت اچھی چیز بھی اچھی نہیں لگتی۔ دل کی حالت بدلنے سے سب کچھ بدل جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہوئے بھی دل کی حالت کے خلاف جاکر کچھ کا کچھ محسوس نہیں کر سکتے۔ بجھے ہوئے دل کے ساتھ وقت گزارنا ہمارے لیے سوہانِ روح ہوتا ہے۔
تو پھر کیا کریں؟ اپنے دل کو بہتر حالت میں کیسے رکھیں؟ انسان کو اچھا وقت خوب یاد رکھنا چاہیے اور خراب وقت کو بھول جانا چاہیے۔ دانش کا تقاضا تو یہی ہے۔ منطق بھی یہی کہتی ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے اس سے زیادہ نقصان دہ بات کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے اچھے وقت کو تیزی سے بھول جائے اور برے وقت کو یاد کرکے روتا رہے؟ افسوس کہ زندگی بھر یہی کھیل جاری رہتا ہے۔ اچھا وقت بھی ہمیں یاد رہتا ہے تاہم برا وقت کچھ زیادہ یاد رہتا ہے اور دل و دماغ کو جھنجھوڑتا رہتا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ مشکل سے گزارا ہوا وقت ہمیں زندگی بھر کسی نہ کسی طور الجھن سے دوچار رکھتا ہے۔ اگر آپ اس مسئلے سے دوچار ہیں تو اپنے آپ کو زیادہ لاچار محسوس نہ کریں کیونکہ اکثریت کا یہی حال ہے۔ اچھی طرح سے گزارا ہوا وقت سہانی یادوں کی شکل میں ہمارے حافظے کا حصہ رہتا ہے مگر وہ زیادہ فعال نہیں ہوتا۔ بُرا وقت ہمیں بار بار یاد آتا ہے اور بہت کچھ اُلٹ پلٹ دیتا ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ جو وقت ہم بہت مشکل سے گزار پائے ہوں‘ وہ فکری ساخت اور حافظے سے چمٹ جاتا ہے۔ اُس کے حوالے سے ہمارے دل کو جو تکلیف پہنچی ہو وہ تادیر یاد رہتی ہے۔ ہم زندگی بھر تلخ یادوں سے دوچار‘ بلکہ الجھے ہوئے رہتے ہیں۔ دل کو پہنچنے والی تکلیف بھلائے نہیں بھولتی۔ انسان کے لیے یہ بھی ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔
کیا تلخ یادوں سے نجات نہیں پائی جا سکتی؟ اس سوال کا جواب ملا جلا ہو سکتا ہے۔ مکمل نجات حاصل کرنا ممکن نہیں۔ ہاں‘ تلخ یادوں کو بار بار متحرک ہونے سے اور مزید کُلفت سے دوچار کرنے کی پوزیشن میں آنے سے روکا جا سکتا ہے۔ جو کچھ ہمارے ذہن میں آچکا ہے وہ کبھی مٹتا نہیں۔ ہاں‘ اُس پر قابو پانا کسی حد تک ممکن ہے۔ انسان پوری تیاری اور تربیت کے ذریعے اپنے آپ کو اُس مقام تک لے جا سکتا ہے جہاں کوئی بھی تلخ یاد اُسے زیادہ پریشان نہ کرے۔ اس کے لیے انسان کو بہت کچھ پڑھنا‘ سننا اور سوچنا پڑتا ہے۔ اپنے رجحانات کو بدلنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی انسان اپنے مزاج اور رجحانات کو بدلے بغیر اپنے حالات بدل نہیں سکتا۔ اپنے پورے وجود کو اور قریب ماحول کو بدلنا کسی بھی انسان کے لیے مکمل طور پر ممکن نہیں ہوتا مگر ہاں‘ بھرپور کوشش کے ذریعے غیر متعلق لوگوں اور لاحاصل معاملات سے بہت حد تک چھٹکارا پاکر اپنے آپ کو بامقصد زندگی کے لیے تیار ضرور کیا جا سکتا ہے۔ زندگی میں بھرپور دلچسپی لیے بغیر تلخ اور ناپسندیدہ یادوں سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ زندگی میں دلچسپی لینے کے کئی طریقے ہیں۔ ایک معقول‘ بلکہ قابلِ رشک طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے ذوق کو پروان چڑھائے‘ معیاری چیزیں پڑھے اور دیکھے۔ جو لوگ معیاری کتابوں کا مطالعہ کرتے‘ معیاری فلمیں دیکھتے اور اہلِ علم سے ملتے ہیں‘ اُن میں کوئی بھی مثبت تبدیلی تیزی سے رونما ہوتی ہے۔ وقیع مطالعے اور مشاہدے سے انسان ذہن کو غیر ضروری اور لاحاصل قسم کی باتوں اور دکھ دینے والی یادوں سے نجات دلانے میں زیادہ تیزی سے کامیاب ہو سکتا ہے۔
سکھ ہمارے حافظے میں ایک جھلک یا چند لمحات کے معاملے کی طرح رہتا ہے جبکہ دکھ کے پورے پورے دن ہمیں یاد رہتے ہیں۔ یہ فرق اس لیے ہے کہ ہم اپنے ذہن اور حافظے کی تربیت پر متوجہ نہیں ہوتے۔ ذہن میں بہت کچھ داخل ہوتا رہتا ہے۔ یہی معاملہ حافظے کا ہے۔ جو کچھ ذہن میں داخل ہوتا ہے‘ وہ حافظے میں رہتا ہے۔ اگر ہم تلخ معاملات اور باتوں کو بار بار یاد کریں تو ان کا منفی اثر ہمیں ڈھنگ سے سوچنے اور عمل کی دنیا میں کامیاب سے ہونے سے روکتا ہے۔ ذہن کی توانائی منفی معاملات پر ضائع ہو تو بہت کچھ بگڑ جاتا ہے۔ طے کیجئے کہ آپ پریشان کن یادوں کو فعال ہونے سے حتیٰ الامکان روکیں گے اور خوش گوار یادوں کو حافظے پر‘ گراف پر اوپر رکھ کر دل کو فرحاں و شاداں رکھنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ یہ کمال شعوری کوشش ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ جب تک آپ اس معرکے میں کامیاب نہیں ہوں گے تب تک معقول طرزِ زندگی کی طرف نہیں بڑھ سکیں گے۔