کسی بھی شعبے میں سب سے بڑی قوت کا نام ہے افرادی قوت۔ مشینیں چاہے جیسی بھی ہوں، جدید ہوں یا قدیم، اچھی ہوں یا بُری، اُن سے کام صرف اور صرف انسانوں کو لینا ہے۔ آج کی زبان میں کہیے تو ''ہیومن فیکٹر‘‘ سب سے بڑھ کر ہے۔ اگر انسان کی تربیت درست نہیں ہوئی تو سمجھ لیجیے کہ جدید ترین مشین بھی کچھ نہیں کرسکتی، بہترین اور تازہ ترین ٹیکنالوجی بھی کوئی بڑا کرشمہ نہیں دِکھا سکتی۔ یہ بات بارہا ثابت ہوچکی ہے کہ افرادی قوت کا معیار ہی کسی بھی ادارے کی کارکردگی کی نوعیت کا تعین کرتا ہے۔ کاروباری دنیا اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہے اور خیال بھی رکھتی ہے۔ اس معاملے میں ترقی یافتہ دنیا سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ افرادی قوت کے معیار کو بلند رکھنے کے حوالے سے ترقی یافتہ دنیا نے بہت کچھ کیا ہے۔ وہاں عام آدمی کو محض عام آدمی نہیں رہنے دیا جاتا بلکہ اُسے کسی نہ کسی حوالے سے اَپ گریڈ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ عملی دنیا کو ڈھنگ کی افرادی قوت ملتی رہے۔
مغربی دنیا نے آج کی دنیا کو بتایا ہے کہ کسی بھی ادارے کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں اہم ترین یا کلیدی کردار افرادی قوت کا ہوتا ہے۔ معاشرے کی مجموعی کیفیت بھی اس بات پر منحصر ہے کہ لوگوں نے تعلیم و تربیت کس طور پائی ہے اور کچھ کرنے کا عزم کس حد تک رکھتے ہیں۔ مغربی دنیا میں انسان کو ایک ایسی زندگی کے لیے تیار کیا جاتا ہے جس میں سب کچھ افرادی قوت پر منحصر ہے۔ ہر فرد کو ایک اثاثے کی شکل میں دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ تعلیم و تربیت کے مختلف مراحل سے گزار کر اُس میں بہت سے اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت اِس نکتے کو دی جاتی ہے کہ تعلیم و تربیت کی تکمیل کے بعد انسان جب عملی زندگی کی طرف بڑھے اور معاشرے کے معاشی پہلو کا حصہ بنے تو دوسروں کے لیے زیادہ کارگر ثابت ہو، اُن کی کارکردگی کا معیار بلند کرنے پر بھی متوجہ رہے۔ کسی بھی کاروباری ادارے کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں سرمایہ کاری بھی اہم کردار ادا کرتی ہے اور جدید ترین مشینری اور تازہ ترین ٹیکنالوجی بھی کم اہم نہیں ہوتی۔ دوسری بہت سی اشیا بھی اہمیت رکھتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر اگر کچھ ہے تو صرف افرادی قوت۔ انسان ہی طے کرتا ہے کہ ادارے کو کامیابی سے ہم کنار ہونا چاہیے یا نہیں۔ ہیومن فیکٹر ہی کی مدد سے اس بات کا تعین ہو پاتا ہے کہ ادارے کو کس سمت جانا ہے اور کس طرح جانا ہے۔ یہ بھی انسانوں ہی کو طے کرنا ہوتا ہے کہ انسانوں سے کس طور کام لینا ہے، ادارے کا طریقِ کار کیا ہوگا، اخلاقیاتِ کار کی نوعیت کیا ہوگی اور اوقاتِ کار سے مطابقت رکھنے والے مزاج کے حامل لوگوں کو کس طور کام پر لگایا جائے گا۔
ہمارے ہاں اب تک کاروباری سطح پر وہ کلچر پیدا نہیں ہوا جس میں افرادی قوت کو ادارے کے لیے کلیدی حیثیت دی جاتی ہے۔ افرادی قوت کا معیار ہی حقیقی کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اگر کسی کو سکول چلانا ہے تو بلند معیار کے اساتذہ بھرتی کرنا ہوں گے۔ کمرے کشادہ ہوں، ڈیسک جدید طرز کے ہوں اور دیگر سہولتیں بھی اعلیٰ معیار کے ساتھ دستیاب ہوں تو کیا سکول چل پائے گا؟ سکول کس مقصد کے تحت قائم کیا جاتا ہے؟ تعلیم و تربیت کے لیے۔ اگر اساتذہ ہی کمزور ہوں تو سکول کیونکر چلے گا؟ یہی حال دیگر شعبوں کا بھی ہے۔ اگر تاجر اپنے ادارے میں بھرتیاں کرتا ہے تو صرف اس لیے کہ فروخت میں اضافہ ہو۔ اگر سیلزمین کاؤنٹر سیل یا فیلڈ سیل بڑھانے میں ناکام رہیں تو کس کام کے؟ کسی بھی سیلزمین کا بنیادی کام سیلز بڑھانا ہی تو ہے۔ اگر وہ یہی کام نہ کر پائے تو اُس کی خدمات حاصل کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اگر ہم کسی الیکٹریشن کو وائرنگ درست کرنے کے لیے بلائیں اور وہ وائرنگ درست نہ کر پائے تو معاوضہ کس بات کا دیا جائے گا؟ کسی بھی انسان کی خدمات حاصل کرنے کا بنیادی مقصد اُس سے کوئی خاص کام کرانا ہوتا ہے۔ اگر وہ کام ہی نہ ہو پائے تو پھر کچھ بھی درست نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں افرادی قوت کے انتخاب کا مسئلہ ہمیشہ رہا ہے اور آج بھی ہے۔ افرادی قوت کا معیار بلند کرنے پر توجہ دی ہی نہیں گئی۔ بڑے بڑے کاروباری ادارے افرادی قوت کے انتخاب کے معاملے میں غُچّہ کھا جاتے ہیں۔ ایچ آر ڈی یعنی ہیومن ریسورسز ڈیپارٹمنٹ (شعبۂ افرادی قوت) ہر بڑے اور درمیانے حجم کے کاروباری ادارے میں پایا جاتا ہے؛ تاہم کئی اداروں میں ایچ آر کے تسلیم شدہ اصولوں کو یکسر نظر انداز کرکے ذاتی پسند و ناپسند کے اصول کی بنیاد پر بھی بھرتیاں کی جاتی ہیں۔ مالکان کو بظاہر اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی کہ کسے اور کس طور بھرتی کیا جارہا ہے۔ وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ کام چلتا رہے۔ جہاں صرف کام چلانے کی ذہنیت کارفرما ہو وہاں ایسا ہی ہوتا ہے یعنی محض کام چلتا ہے۔ وہاں ادارے ڈھنگ سے ترقی نہیں کر پاتے۔
دس پندرہ برس میں مختلف اہم شعبوں کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ایچ آر کے معاملات پر متوجہ نہ ہونے سے کئی اداروں کو اس حد تک نقصان اٹھانا پڑا کہ وہ بالآخر بندش کی منزل تک پہنچ گئے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ ایچ آر والوں نے اپنے حصے کا کام پوری دیانت اور جاں فشانی سے انجام نہیں دیا۔ ایک زمانہ تھا کہ جب کسی بھی سیٹ پر بھرتی کے لیے متوقع امیدوار کو اچھی طرح جانچا اور پرکھا جاتا تھا۔ جہاں دیدہ افراد بھرتی کے وقت سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دیتے تھے کہ جس کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں وہ واقعی کام جانتا ہو۔ ایسے کسی بھی فرد کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا تھا جو حقیقی دلچسپی کسی اور شعبے میں لیتا ہو؛ تاہم گھر کا چولھا جلتا رکھنے کے لیے دوسرے شعبے کی طرف آگیا ہو۔
ایک بڑے ادارے کے مالک کا طریقہ یہ تھا کہ وہ کسی بھی متوقع امیدوار کو بلاکر ایک گھنٹے تک اپنے کمرے میں بٹھائے رکھتے تھے اور اس دوران اپنا معمول کا کام کرتے رہتے‘ اُس سے وقفے وقفے سے ہم کلام بھی ہوتے، کبھی اہلِ خانہ اور آبائی حالات کے بارے میں پوچھتے، کبھی یار دوستوں کے بارے میں پوچھتے۔ مطالعے سے متعلق سوال کرتے، کھیلوں اور فنونِ لطیفہ میں دلچسپی سے متعلق استفسار کرتے ۔ یہ سب کچھ محض یہ جاننے کی کوشش کے طور پر ہوتا تھا کہ جو ادارے کو اپنی خدمات سونپنا چاہتا ہے وہ باطنی طور پر کس مزاج کا حامل ہے۔ زور اس بات پر ہوتا تھا کہ جس کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں وہ متعلقہ فیلڈ سے واقعی شغف رکھتا ہو۔ یہ بھی دیکھا جاتا تھا کہ کسی کو اگر کسی اورشعبے سے شغف ہے تو اُسے کسی دوسرے سیکشن میں نہ رکھا جائے۔ کوشش یہی ہوتی تھی کہ کسی بھی شخص کو اس شعبے میں رکھا جائے جس میں اُس کی حقیقی دلچسپی ہو۔
آج ہمارے ہاں مجموعی کیفیت یہ ہے کہ کسی کو کھپانا ہو تو کھپادیا جائے یعنی یہ نہ دیکھا جائے کہ اُسے کچھ آتا بھی ہے یا نہیں یا یہ کہ اُسے جس کام کے لیے رکھا جارہا ہے اُس میں خاطر خواہ دلچسپی ہے یا نہیں۔ ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کی جانے والی بھرتیاں مختلف شعبوں میں وسیع البنیاد خرابی کا باعث بن رہی ہیں۔تعلیم و تعلم جیسے حسّاس شعبوں میں بھی افرادی قوت کے انتخاب کے حوالے سے وہ احتیاط نہیں برتی جارہی جو ناگزیر ہے۔ اس کے نتیجے میں صرف خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں اور کام کا معیار گرتا جارہا ہے۔
آج ملک میں کارپوریٹ کلچر بھی حقیقی مفہوم میں کارپوریٹ کلچر نہیں۔ افرادی قوت کے انتخاب کا مرحلہ بالعموم نا اہلی یا لاپروائی کی نذر ہو رہتا ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ بھرتی کا اختیار دیا جائے تو احباب یا واقفیت والوں کو بھرتی کرلیتے ہیں اور اُنہیں اِس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں ہوتی کہ ادارے کا کیا بنے گا۔ یوں بہت سے ادارے اپنے قیام کے بعد کچھ ہی مدت میں دم توڑ دیتے ہیں۔ ایسے میں حقیقی ایچ آر کلچر اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔